کسی کو اندازہ ہے!

اوریا مقبول جان  بدھ 21 مئ 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اس سال کے آغاز میں جب میں نے اس درویشِ خدا مست کی بات لکھی تھی تو اس مملکتِ خداداد پاکستان کے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ حالات اس قدر بدل جائیں گے۔ یہ آج سے بیس سال پرانی بات ہے، جب طبیعت میں نہ اسقدر تحمل تھا اور نہ ہی مزاج میں صبر کا یارا۔ صاحبانِ نظر کی خدمت میں حاضر ہوتا تو ایک ہی سوال زبان پر لرزاں رہتا۔ کب حالات بدلیں گے؟ ظلم بڑھتا جا رہا ہے، اللہ اپنا فیصلہ صادر کیوں نہیں کرتا؟ میری حالت عدیم ہاشمی کے شعر جیسی تھی۔

میں سر بسجدہ ہوں اے شمر مجھ کو قتل بھی کر

رہائی دے بھی اب اس عہد کر بلا سے مجھے

وقت کا دھارا کس تیز رفتاری سے بہتا ہے۔ حالات بدلنے تو کیا تھے دن بدن ابتر ہی ہوتے گئے۔ عالم الغیب تو اللہ کی ذات ہے۔ وہی جانتا کہ کسی شخص، ملک اور قوم کی تقدیر میں کیا لکھا ہے۔ لیکن اس نے اپنے غضب اور رحمت کی نشانیاں کھول کھول کر قرآنِ حکیم میں بتا دی ہیں۔ وہ کیسی قوموں پر مہربان ہوتا ہے اور کن پر اس کا غضب نازل ہوتا ہے۔ وہ بستیوں سے ظالموں کا خاتمہ کیسے کرتا ہے اور مظلوموں کی مدد اور داد رسی کے لیے اس کا نظامِ کار کس طرح حرکت میں آتا ہے۔ دنیا بھر میں اس مالکِ کائنات کے عذاب کے کوڑوں اور رحمت کی بارشوں کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں اور اللہ قرآن میں بار بار لوگوں کو ان بستیوں کی جانب اشارہ کر کے ان کے معدوم ہونے کی داستانیں سناتا ہے تا کہ لوگ عبرت پکڑیں۔

پھر جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اپنی جانب بڑھتے ہوئے طوفان کو نہ سمجھ سکیں تو اللہ فرماتا ’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ الحج46)۔ لیکن ان کے مقابلے میں وہ ہیں جن کے سینے چراغِ ہدایت سے روشن ہوتے ہیں اور جن کے بارے میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے‘‘۔ یہی مومن صاحبِ نظر ہوتا ہے۔ اس کی بصیرت اور بصارت کی پرواز اللہ کے نور کے کرم سے ہوتی ہے۔ جس کو جتنا نور عطا ہوا، اتنی ہی اس کی پرواز میں وسعت آتی گئی۔

اسی لیے مدتوں اپنی بے بسی، مایوسی، جھنجھلاہٹ اور قوم کی حالت پر غصے سے بھرے سوالات لے کر میں ان صاحبانِ نظر سے راستہ تلاش کرتا رہا۔ ہر کوئی تسلی کے حرف بولتا اور ایک اطمینان ضرور دلاتا کہ وہ دن دور نہیں جب اس ملک اور قوم کے حالات بدلیں گے۔ حالات بگڑتے گئے، زوال بڑھتا گیا۔ پھر ان لوگوں کا لہجہ بھی بدلنے لگا۔ فرماتے رہے لوگوں سے کہو اپنے آپ میں تبدیل ہونے کی امنگ اور خواہش تو پیدا کریں، اللہ حالات بدل دے گا۔ اس قوم میں امنگ اور خواہش کہاں پیدا ہونا تھی، لوگ اپنے اپنے گروہ، نظریے، مفاد اور مسلک پر ایسے سخت ہوتے گئے کہ جھوٹ سچ، ایمانداری بے ایمانی، قاتل مقتول اور غاصب مغضوب میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔

ایک گروہ کا بے ایمان، جھوٹا اور ظالم دوسرے گروہ کا ایمان دار، سچا اور معصوم بن گیا۔ ایک گروہ کا مقتول دوسرے گروہ کا جہنم رسید اور دوسرے گروہ کا مقتول پہلے گروہ کا شہید ہو گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب یہ مردانِ باصفا جو اللہ کے نور کی عطا کردہ بصیرت سے دیکھ رہے تھے پریشان ہو گئے۔ ان کی راتیں اللہ کے حضور اس قوم کی معافی کے لیے اشک آلود ہوتی گئیں۔ فرماتے رہے لوگوں سے کہو بدل جائیں ورنہ اگر اللہ نے خود حالات درست کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ وہ تو فرماتا ہے ’’اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لا حق نہیں ہو گا (الانفال25)۔ لوگ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ لوٹنے والے اپنی دھن میں لگے رہے کہ یہی دنیا ہے، جو کمانا ہے کما لو۔ ظلم کرنے والوں کے دل پتھر کے بنتے گئے۔

منبر و محراب کے امین بھی امت کو تقسیم کرنے کا فریضہ اس خوبی سے ادا کرتے رہے کہ مسجدیں خون سے رنگین ہو گئیں۔ حکمران ایسے فرعون صفت بن گئے کہ انھیں اس بات کا ادراک تک نہ ہو سکا کہ ان کے زیرنگیں لوگوں کے خون، بھوک، افلاس اور پریشانی کا روز آخر ان سے حساب لیا جائے گا۔ وہ لوگ جنھیں اللہ نے دولت دی تھی، نعمتیں عطا کی تھیں وہ اسے اپنے زور بازو سے حاصل کی گئی متاع سمجھتے رہے اور ان کے دل بھوکے، ننگے، بیمار اور نادار لوگوں کے معاملے میں سخت ہوتے گئے۔ ایک خوفناک اور کربناک منظر تھا۔ اہل نظر کیوں نہ کانپ اٹھتے۔ ان کے دلوں پر اللہ کے کلام کی یہ آیات نقش تھیں۔ اللہ فرماتا ہے ’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں۔

تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ (الاسراء16)۔ یہ سب اتنا اچانک نہیں ہوتا۔ اللہ پوری مہلت دیتا ہے کسی بستی کے کار پردازوں کو، اہل اقتدار اور اہل ثروت کو۔ جب وہ اللہ کی ہدایت اور نصیحت کو بھلا دیتے ہیں اور اس پر کان نہیں دھرتے تو اللہ ان پر مزید دولت کی بارش کر دیتا ہے، نعمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے’’ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کر دیے۔ یہاں تک کہ جب ان چیزوں سے جو ان کو دی گئیں تھیں خوب خوش ہو گئے تو ہم نے ان کو ناگہاں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کر رہ گئے۔ تب ظلم کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ (الانعام44) یہ تھا گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں اہلِ اقتدار، اہل ثروت اور صاحبانِ طاقت کے ساتھ اللہ کا روّیہ۔ وہ جو اس بات پر پھولے سماتے رہے کہ ہم نے اس ملک کا اقتدار حاصل کیا ہے تو ہم دنیا بھر میں امیر ترین لوگوں میں بھی کہلائے جائیں۔

ہماری دھاک ایسی ہو کہ مخالف اور کمزور ہم سے تھر تھر کانپیں، کسی کی بیٹی، بیوی اور بہو کی عزت ہمارے لیے گھاس کے تنکے سے بھی کم ہو۔ وہ جنھیں دولت دی گئی ان کی سلطنتیں وسعت اختیار کرتی گئیں اور ان کے زیردست فاقے سے خودکشیاں کرتے رہے۔ جنھیں طاقت عطا ہوئی انھوں نے ذاتی جائیدادوں، زمینوں اور سرمائے میں اضافے کو اپنا شعار بنا لیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے اللہ کے ساتھ ایک ظلم روا رکھا۔ اللہ شرک کو ظلمِ عظیم کہتا ہے۔ انھیں نعمتیں اللہ نے دی تھیں۔ ان کے دل میں خوف اور شکر گزاری تو صرف اللہ کی ہونا چاہیے تھی۔

لیکن یہ کبھی امریکا سے ڈرتے رہے اور کبھی اپنی برادری سے، کبھی سرمائے کا خوف ان کو لاحق رہا اور کبھی ووٹر کے بدل جانے کا ڈر۔ لیکن اللہ ان پر پھر مزید اپنی نعمتیں نچھاور کرتا رہا۔ اس لیے کہ اس کا دستورِ عذاب یہ ہے کہ وہ نافرمان لوگوں کو مزید نعمتیں دے کر آزماتا ہے۔ وہ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کے ڈرانے والے یہ صاحبانِ بصیرت فراڈ ہیں، لوگوں کو بے عمل بناتے ہیں، غیر سائنسی لوگ ہیں، ترقی کے دشمن ہیں۔ دیکھا کیا ہوا اب تک ۔ دس سال سے ڈرا رہے تھے، کچھ ہوا۔ ایک حکمران آیا، لوٹ کر عیش کر رہا ہے، دوسرا آیا، وہ بھی لوٹ کر چلا جائے گا۔ کچھ نہیں بدلے گا۔ سب ڈھکو سلا ہے۔

یہی کیفیت تھی جو میرے اندر اضطرار پیدا کرتی تو میں سوال کرتا کہ کب اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ اہلِ نظر کہتے انتظار کرو۔ صفائی کا موسم تو آنا ہی ہے۔ لیکن ساری عمر قبرستان میں قبروں کے لیے سبیلیں بنا کر خلقِ خدا میں مفت بانٹنے والے ایک درویش، نے آج سے15 سال پہلے اچانک حالتِ غضب میں کہہ دیا ’’2014تک تو انتظار کرو‘‘۔ پھر جیسے وہ خود سکتے میں آ گیا کہ یہ لفظ کیسے اس کے منہ سے ادا ہو گئے۔ اس سال یعنی2014 کے آغاز میں جب اس درویشِ خدا مست کی یہ بات میں نے تحریر کی تھی تو کوئی اندازہ کر سکتا تھا کہ صرف چار ماہ میں حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ہر کوئی خوفزدہ ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ان لوگوں کو اگر اندازہ ہو جائے کہ کیا ہونے والا ہے تو ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں۔

وہ صاحبِ وقت جنھیں میں نے پچیس سال میں بہت کم ایسی گفتگو کرتے سنا ہے اور جن کے بارے میں اکثر میں اپنے کالموں میں تحریر کرتا رہا ہوں۔ چند دن پہلے تشریف لائے اور کہنے لگے گردنوں میں سریا بہت سخت ہو گیا ہے۔ سریے کی خاصیت ہے کہ اسے کاٹ کر آدھ انچ کے ٹکڑوں میں بھی تقسیم کر دیا جائے تو اکڑا ہی رہتا ہے۔ وہ یہ بات کر کے خاموش ہوئے اور میں نے تھر تھراتے ہوئے سوال کیا۔ اگر بھٹی میں ڈال دیا جائے، پگھل جائے تو کیا اس میں سے کوئی خیر نکلے گی۔ بس اتنا سوال کیا تو فرمانے لگے اس کے بعد ایسی خیر ہے، ایسا سکون ہے، ایسی خوشحالی ہے کہ جس کے لیے اب تک لوگ ترس رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔