مودی چائے والا، نام تو سنا ہوگا

اقبال خورشید  بدھ 21 مئ 2014

وہ دہلی پر اترنے والی ایک معمول کی صبح تھی۔

سوموار کا دن، بازاروں کی چہل پہل میں آواز لگاتے چھابڑی والے، بھائو تائو کرتے گاہک، ایسے میں موہن لال کے ڈھابے کے سامنے کچھ ہل چل ہوئی، چند سیاسی کارکن چوک پر ٹی وی اسکرین نصب کر رہے تھے، نیتا جی بہ ذریعہ ’’ویڈیو لنک‘‘ خطاب کرنیوالے ہیں، متجسس لوگ اکٹھے ہونے لگے۔ مجمعے میں نیتا جی کی تصویر سے مزین، کاغذی کپ تقسیم کیے گئے۔ موہن لال ڈھابے سے بھاپ دیتی کیتلی لیے نکلا۔ چائے کی چسکیوں کے دوران اچانک اسکرین روشن ہوئی۔ نیتا جی ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ظاہر ہوئے۔

بی جے پی کی تشہیری مہم ’’چائے پر چرچا‘‘ شروع ہو گئی۔ فقط خطاب نہیں ہو گا جناب، عوام کے سوالات کا تشفی جواب دیا جائے گا۔ نیتا جی کا نام ہے؛ نریندر دامودر داس مودی۔ نہ نہ، یہ وہ مودی نہیں، جنھیں گجرات فسادات کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے، یہ تو وہ مودی ہیں جنھوں نے اقتصادی ترقی اور تبدیلی کا نعرہ لگایا، انتخابات کے پیش نظر موصوف نے چولہ بدل لیا ہے۔ یہ نظریہ کہ ہندوستان قوم پرست مودی کو رد کر دیگا، غلط ثابت ہوا۔ فیصلہ آ گیا۔ اب چاہیں سر پٹخیں یا حزنیہ گیت گائیں، مودی کو چُن لیا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک کٹر قوم پرست کو سیکولرازم کے داعی، بھارت نے کیوں کر قبول کیا؟ درجنوں توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں، کانگریس کی ناقص کارکردگی، بد عنوانی، معاشی ترقی کا نعرہ، نوجوان ووٹرز؛ مگر سب سے بڑا سبب ہے، اِس خطے کے عوام کی کم زور یادداشت۔

پاکستانی ہوں یا ہندوستانی، اہل اقتدار کے مظالم بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ مرض ایسا ہے کہ بوریاں بھر کر بادام کھائیں، کچھ افاقہ نہیں ہوتا۔ رجائیت پسندی کے عینک سے دیکھا جائے، تو بھول جانے کی اِس قبیح عادت کو عوام کی وسیع القلبی بھی کہا جا سکتا ہے۔ شیکھر گپتا نے تو یہ تک لکھ دیا کہThe collective Indian  system has fought back، کچھ تجزیہ کار مودی کی فتح کو سیکولرازم کی شکست خیال کرتے ہیں۔ رائے یہ شدید ہے، مگر یہ امر دلچسپ ہے کہ مسلمانوں کے بعض حلقوں نے کھل کر مودی کی حمایت کی۔ مودی جی جب کبھی اپنے اِن حامیوں سے ملے، تو حالت یہ تھی کہ سر عاجزی سے جھکا ہوا۔ آنکھوں میں ممنونیت کی چمک۔ شفیق مسکراہٹ ہونٹوں پر۔ اب ایسے ’’شریف النفس‘‘ آدمی کو ووٹ دینے سے بھلا کون ظالم انکار کر سکتا ہے۔

’’چائے پر چرچا‘‘ نامی تشہیری مہم سے دراصل مودی کی اپنی کہانی جُڑی ہے۔ گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں، ویدنگر میں پیدا ہوئے۔ سن پیدایش 1950ء ۔ یعنی پہلی بار ایسا شخص وزیر اعظم کا منصب سنبھال رہا ہے، جو تقسیم ہند کے بعد پیدا ہوا۔ ایک سچا بھارتی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مودی کی صورت بھارتی قیادت نئی پیڑھی میں منتقل ہو گئی۔ خاندان اُن کا بے حد غریب۔ باپ اسٹیشن پر چائے بیچا کرتا، ماں آس پڑوس کے گھروں میں کام کرتی۔ کم سن مودی نے بھی باپ کے ساتھ چائے بیچی۔ ڈھابا لگایا۔ گاڑیاں صاف کی۔ وزن ڈھویا۔

ذرا غور کریں: ہمسائے ملک میں چائے والا وزیر اعظم بن گیا۔ یہاں تو غریب کو کونسلر کا عہدہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اقتدار ایک مخصوص طبقے کی جاگیر ہے۔

خیر، بات ہو رہی تھی مودی کی، جنھوں نے شادی کی، مگر گھر نہیں بسایا۔ سنیاسی بننے کا سودا سمایا، تو گائوں چھوڑ دیا۔ در در کی خاک چھانی۔ کاندھے پر لٹکا تھیلا کُل اثاثہ۔ بھوک ستاتی، تو بھکشوئوں کے مانند کسی دروازے پر جا کھڑے ہوتے۔ اب تو بے فکری کا وہ زمانہ لد گیا۔ مودی جی کو اُن 30 کروڑ ہندوستانیوں کی بھوک مٹانی ہے، جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اور یہ ایک بڑا چیلینج ہو گا۔

ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے پرچارک، لکشمن رائو انعام دار المعروف وکیل صاحب سے ملاقات دور ِنوجوانی میں ہوئی۔ اُن سے نہ صرف متاثر ہوئے، بلکہ سیاسی و انتظامی رموز بھی سیکھے۔ 84ء میں ’’آر ایس ایس‘‘ نے جو کارکنان ’’بی جے پی‘‘ کو سونپے، مودی اُن میں شامل تھے۔ وہاں سیاسی طاقت کے نئے محور ایل کے ایڈوانی کی سرپرستی میسر آئی۔ 91ء میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایڈوانی کی ملک گیر یاترا کا انتظام مودی ہی کے پاس تھا۔ گجرات میں وہ تیزی سے مقبول ہوئے، 2001ء میں وزیر اعلیٰ چنے گئے۔

اگلے ہی برس سیاسی کیریر میں ایک ہول ناک موڑ آیا۔ گجرات فسادات سے جھلس گیا۔ ایک ہزار سے زاید افراد جان سے گئے۔ اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ وزیر اعظم واجپائی نے اُن سے استعفیٰ لینا چاہا، تو ایڈوانی اپنے چہیتے کو بچانے کے لیے آڑے آئے۔ ہمیں یقین ہے کہ اب اِس بات پر وہ پچھتا رہے ہوں گے، کیوں کہ مودی نے، جو کیمرے کے سامنے ایڈوانی جی کے پیر چھونا کبھی نہیں بھولتے، اپنے گرو ہی کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے۔

مودی کی فتح منظم و مربوط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ہندوتوا کا فیکٹر۔ بدعنوانی کے خاتمے کا وعدہ، ترقی کا خواب، صنعتکار اُن سے آن ملے۔ مودی کا نام ’’برانڈ‘‘ بنانے کے لیے سوشل میڈیا کو بڑی مہارت سے استعمال کیا گیا۔ ایک لہر چلی۔ ہر طرف مودی، مودی ہونے لگا۔ ٹی وی چینلز کے تجزیے توازن کھو بیٹھے۔ ’’فیصلہ سازوں‘‘ کو بھی اُن کی فتح کا اندازہ ہو گیا تھا۔ 2005ء میں ویزے کی درخواست رد کرنے والے امریکا کی بھارت میں سفیر، نینسی پائول نے، رواں برس فروری میں مودی سے ملاقات کی۔ زمین تیار ہو گئی تھی۔ سب کچھ منصوبے کے مطابق رہا۔ 16 مئی کو فتح کا اعلان ہو گیا۔

84ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب کسی پارٹی نے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی لیکن یاد رہے کہ بھارت نے ’’بی جے پی‘‘ کو نہیں، مودی کو ووٹ دیا ہے۔ اُن کی مقبولیت کے بہائو نے وہ علاقے بھی فتح کر ڈالے، جہاں پارٹی انتہائی کمزور تھی۔جشن اپنی جگہ، مگر مودی کے سامنے بڑی چنوتیاں ہیں۔ کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، لگ بھگ 3سو اضلاع باغی ہیں، آسام، جھارکھنڈ، ناگالینڈ، مانی پور اور سکم سرفہرست۔ کشمیر کے تذکرے کو تو رہنے ہی دیں۔ نکسل تحریک نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ دلتوں سمیت کئی اقلیتی گروہ آزادی کا نعرہ بلند کر چکے ہیں۔ اُن سے نمٹا سہل نہیں ہو گا۔

کرپشن بھی ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ یہی تو انا ہزارے اور اروند کیجریوال کو سڑکوں پر لایا۔ مودی جی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کرپشن سے نفرت کرتے ہیں۔ سن کر خوشی ہوئی، مگر کیا ہی بہتر ہوتا کہ کرپشن کے مانند جناب خون خرابے اور تعصب سے بھی نفرت کرتے۔ گجرات فسادات کے موقعے پر اُن کی مجرمانہ خاموشی تاریخ کا حصہ ہے۔ نہ تو اِس سانحے پر کبھی معافی مانگی، نہ ہی اظہار افسوس کیا۔ اب جو اقتدار میں آئے ہیں، تو لازم ہے کہ اقلیتوں کا اضطراب کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ پاکستان سے متعلق نہ صرف اُن کے ایک سینئر رہنما بلکہ وہ خود بھی بچگانہ بیانات داغ چکے ہیں مگر امید ہے کہ اب وہ واجپانی جی والا صلح جُو انداز اپنائینگے۔

ویسے بھی یہاں وہاں، دونوں جانب ’’دایاں‘‘ بازو ہے، مصافحہ کرنے میں آسانی رہے گی۔ ہندوستانی تاجر مودی کے ساتھ، تو پاکستانی صنعتکار میاں صاحب کے حامی، دونوں فریق ہیوی مینڈیٹ کے حامل۔ یہ تو واضح ہے کہ میاں صاحب بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اِس کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اِس بار آپ کا سامنا واجپائی اور من موہن سنگھ جیسے دھیمے مزاج کے حامل بزرگ سیاستدانوں سے نہیں۔ مدمقابل ایک ’’اسٹریٹ اسمارٹ‘‘ ہے۔ ایک انتہائی بااثر اور پُر اعتماد شخص، جو اپنی قوت سے اقتدار میں آیا۔

مودی کے لیے یہ سنہری موقع ہے۔ چاہیں تو اقتصادی ترقی کا کرشمہ دِکھا کر ہندوستان کو آسمان پر لے جائیں یا اُسے ہندو اسٹیٹ بنا کر بچپن کا سپنا سچ کر دِکھائیں۔ ہمارے پڑوسی کی قسمت اب اُن کے ہاتھ اور اگر وہ کچھ کر گزرے، بھارت کو واقعی ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا، تو ہمیں یقین ہے کہ 5برس بعد وہ ہنستے مسکراتے ووٹروں کے پاس جائینگے، بڑے ہی فلمی انداز میں فرمائیں گے: ’’مودی چائے والا، نام تو سنا ہو گا؟‘‘

اور ایک بار پھر اُن کی جھولی ووٹوں سے بھر دی جائے گی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔