پھر نہ کہنا ، خبر نہ ہوئی

نصرت جاوید  بدھ 19 ستمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جس مصری نژاد امریکی جنونی نے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے ایک گھٹیا مگر شیطانی فلم بنائی ہے، اس کا تعلق عیسائیوں کے اس فرقے سے ہے جو اپنے طور پر ہمیشہ سے ’’وکھری‘‘ قسم کا رہا ہے۔

تاریخی طور پر سکندریہ اس کا مرکز ہے۔ مصر میں اسلام کے غلبے کے بعد اس فرقے نے ’’رہبانیت‘‘ اختیار کرنے کے ڈھونگ رچائے اور صحرائوں میں تنہاء عبادت گزاری کے نام پر خود کو معصوم صفت ثابت کیا۔ خلافت عثمانیہ کے دوران وہ باقاعدگی اور تابعداری سے جزیہ دیتے رہے۔ مصری مسلمانوں نے ان کو اپنے لیے کبھی خطرناک نہ جانا۔ محمد علی پاشا نے جب خود مختار مصر کی بنیاد ڈالی تو ان کا جزیہ معاف کر دیا گیا۔

مگر اس دوران مصر سامراجی سازشوں کا نشانہ بن چکا تھا۔ برطانیہ اور فرانس اپنے اپنے طورپر اسے اپنا زیر نگین بنانے میں مصروف رہے۔ ان ہی کی زیر سرپرستی میں Coptic مصریوں نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیے، جدید تعلیم حاصل کی اور بڑی تیزی سے سرکاری ملازمتوں اور ٹھیکے داریوں میں اپنی عددی قوت سے کہیں زیادہ حصہ وصول کرنا شروع کر دیا۔

جمال ناصر اور بعدازاں حسنی مبارک کی ’’عرب قوم پرستی‘‘ کے نام پر مسلط آمریت کی ان لوگوں نے جی جان سے خدمت گزاری کی۔ جس کے ردعمل کے طور پر مصری عوام کی اکثریت کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت و حقارت کے جذبات پیدا ہوئے۔ ’’عرب بہار‘‘ کے بعد والے مصر میں اس نفرت کا واضح اظہار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ خود کو اس ملک میں اب Coptics محفوظ نہیں سمجھتے۔ ان کی اکثریت مصر چھوڑ جانے کے منصوبے بناتی رہتی ہے۔

حال ہی میں یوٹیوب کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائی گئی شیطانی فلم کو بنانے والا ایک عادی مجرم ہے جو کمپیوٹر فراڈ کے ذریعے کیے جانے والے کئی مقدمات میں ملوث ہے۔ اسے پانچ سال تک کمپیوٹر استعمال نہ کرنے کی ضمانتیں دینے پر رہائی ملی۔ مگر وہ اپنے مشن پر ڈٹا رہا۔ مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے کے مواقع ڈھونڈتا رہا اور بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔

ایک شیطانی ذہن والے شخص نے ایک گھٹیا فلم میں اپنی مرضی کے اشتعال انگیز مکالموں کو جب عربی میں ڈھال کر یوٹیوب پر ڈال دیا تو مصر، تیونس اور لیبیا میں پیدا ہونے والا ردعمل کوئی بھی غیر متعصب ذہن بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔

مگر امریکا امریکا ہے اور آج کل وہاں صدارتی انتخاب کے لیے مہم بھی جاری ہے۔ اس مہم میں امیدواروں کی پالیسیوں سے زیادہ توجہ ان کی ذات پر دی جا رہی ہے اور مخالف فریق کو زچ کرنے کے لیے ہر طرح کی کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں۔

میں ان کہانیوں کو نظرانداز کر دیتا۔ مگر پچھلے چند دنوں سے بڑے تواتر کے ساتھ بہت جانے پہچانے اور با اثر امریکی دانشور ایسے مضامین لکھنا شروع ہوگئے ہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ مصر اور لیبیا میں ایک گھٹیا مگر شیطانی فلم کے یوٹیوب پر آجانے کے بعد جو ’’وحشت‘‘ نظر آئی وہ ’’عرب بہار‘‘ کی وجہ سے ہے۔ اوباما کو ’’ہورچوپو‘‘ جیسے طعنے دینے کے بعد سنجیدگی سے احمقانہ قطعیت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان جمہوریت کے قابل ہی نہیں۔

’’اپنی ترکیب میں خاص‘‘ مسلمانوں کو ہمیشہ ایک جابر حکمران کی ضرورت رہتی ہے جو ڈنڈے کے زور پر اپنے لوگوں کو قابو میں رکھے۔ شاید حسنی مبارک کو نہ بچانا امریکنوں کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اسی طرح لیبیا کے معمر قدافی کو نیٹو طیاروں کے ذریعے کی جانے والی بمباری سے کمزور کر کے فارغ کروانا بھی شاید غلط تھا۔

ایک انتہائی اشتعال انگیز فلم کے چل جانے کے باوجود سعودی عرب میں اس کے بارے میں پائی جانے والی خاموشی کو ایک قابلِ تقلید مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی کو بھی اب اور نظروں سے دیکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ امریکی صحافیوں اور مبصروں کو اچانک یہ دریافت ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ترکی کے راستے سعودی اور قطری حکومتوں کے سرمائے اور آتشیں اسلحہ سے لیس شام کو ’’آزاد‘‘ کرانے کی جنگ میں ملوث’’مجاہدین‘‘ کی اکثریت تو القاعدہ والوں کی ہے۔ ’’مہذب دنیا‘‘ کو ان کی مدد نہیں کرنا چاہیے۔

بشار الاسد نہ رہا تو یہ ’’جنونی‘‘ شام پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد اپنے غصے کا رخ امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف موڑ دیں گے۔ لبنان تو شام کے مقابلے میں کہیں زیادہ چھوٹا ملک ہے۔ وہاں 1975 سے جاری خانہ جنگی میں بڑی مشکل سے تھوڑا سا پر امن وقفہ آیا ہے۔ شام اگر لبنان بن گیا تو فرقہ وارانہ نفرتوں کے شعلے پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل جائیں گے اور کوئی ان پر قابو نہ پا سکے گا۔

’’عرب بہار‘‘ کے نتائج کی بنیاد پر اُٹھائے گئے سوالات پر پاکستانیوں کو غور کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بھی آہستہ آہستہ فرقہ وارانہ منافرت بڑی خوفناک صورتوں میں اپنا اظہار کرنا شروع ہو گئی ہے۔ ابھی تک یہ نفرت عام انسانوں کے دلوں تک پہنچ کر گھر گھر نہیں پھیلی ہے۔

نشانہ بنا کر مارے جانے والے پاکستانی کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو، ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت اپنے صوفیائے کرام کے ذریعے سمجھائے گئے اسلام کی وجہ سے اس پر دُکھ محسوس کرتی ہے۔ کوئٹہ کے ہزارہ ہوں یا گلگت اور پارہ چنار جانے و الے مسافر۔ ان کی شناخت کے بعد وحشیانہ قتل کی بڑے واضح الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔ رپورٹروں یا اینکرپرسنوں کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو وہ ایسے واقعات کی ذمے داری ایک کمزور ہوتی ریاست کے ان نااہل اداروں کے سرڈالتی ہے جو امن و امان سنبھالنے کے دعوے دار بنا کرتے ہیں۔

آہستہ آہستہ مگر گھرو ںمیں بیٹھ کر ریموٹ کے بٹن دباتے ہمارے عام شہریوں میں یہ سوچ بھی پیدا ہو رہی ہے کہ ہمارا آزاد اور بے باک میڈیا خیر کی خبر سنا کر ہی نہیں دیتا۔ ہر وقت بری بری خبریں سنا اور دکھا کر پریشان کرتا رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی میڈیا کے مسلسل’’سیاپے‘‘ کے بعد ہی ہمارے عوام اب یہ بھی طے کر بیٹھے ہیں کہ وہ جنھیں 2008کے انتخابات میں بڑے چائو سے اقتدار میں لایا گیا تھا۔

بجائے عوام کی بھلائی سوچنے کے دن کے 24 گھنٹے اپنے اقتدار و اختیار کے بے رحمانہ استعمال سے قومی خزانہ لوٹنے کے موقع بناتے یا تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ اور ادارے جو ریاست کا تحفظ کرنے اور قومی سلامتی کو بچانے کے ’’اصل ذمے دار‘‘ ہیں، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے ’’ستو پی رکھے ہیں۔‘‘

مبینہ طور پر جن لوگوں نے ’’ستوپی رکھے ہیں‘‘ وہ ابھی تک خود کو سیاسی معاملات سے لاتعلق رکھے ہوئے ہیں تو اس کی حقیقی وجہ امریکا ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان،جنرل ضیاء اور پھر پرویز مشرف کی برسوں تک سرپرستی کرنے کے بعد واشنگٹن میں بیٹھے کرتا دھرتائوں کو ہماری فوجی اشرافیہ سے بڑے شکوے پیدا ہو چکے ہیں۔

ایڈمرل مُلن کی ہمارے ہاں بڑی آئو بھگت ہوا کرتی تھی۔ اس کی خواہش پر چکلالہ سے جہاز اُڑ کر اسے اسکردو لے جا کر دوسائی کے حیران کر دینے والے برفانی میدانوں میں طلوع آفتاب کے مناظر دکھایا کرتے تھے۔ اپنا عہدہ چھوڑنے سے چند روز پہلے اسی مُلن نے اسامہ کو قتل کروایا اور حقانی گروپ کو پاکستان کا سب سے ’’توانا بازو‘‘ قرار دیا۔ مگر اب مصر کے حالیہ واقعات کے بعد ’’عرب بہار‘‘ کے بارے میں اُٹھائے جانے والے سوالات واشنگٹن کو ایک بار پھر پاکستان میں بھی کسی ’’مردآہن‘‘ کی تلاش پر مجبور کر سکتے ہیں۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔