حلوے کی پلیٹ

ایس نئیر  جمعـء 23 مئ 2014
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

حجاج بن یوسف کا دستر خوان سجا ہوا تھا۔ خاصی تعداد میں مہمان موجود تھے۔ کھانے کے بعد حجاج بن یوسف کے سامنے حلوے کی ڈش لائی گئی، حجاج نے حلوے کی ڈش کھینچ کر اپنے سامنے رکھی اور ڈش کے برابر میں اپنی تلوار رکھتے ہوئے بولا ’’جس کسی نے بھی اس حلوے کو ہاتھ لگایا، اس کی گردن اڑا دوں گا‘‘  تمام مہمان خوفزدہ ہو گئے وہ حجاج بن یوسف کی تلون مزاجی سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ ایسا کر بھی سکتا ہے۔

مہمانوں میں ایک بدّو بھی شامل تھا، وہ خاصی دیر تک حلوے کی پلیٹ کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر باآواز بلند بولا ’’حجاج میرے بعد میری بیوی اور میرے بچوں کا خیال رکھنا‘‘ یہ کہہ کر وہ حلوے کی پلیٹ پر ٹوٹ پڑا۔ حجاج بن یوسف کی ہنسی نکل گئی اور اس نے بدّو کو نہ صرف حلوے کی پلیٹ بخش دی بلکہ انعام و اکرام سے بھی نواز دیا۔ اب آپ خود ہی اندازہ کریں کہ اس حلوے کی پلیٹ میں آخر کتنی کشش ہو گی، جسے کھانے کے لیے اس بدّو نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔ یا پھر وہ جانتا تھا کہ حلوہ کھانے کی ’’پاداش‘‘ میں حجاج بن یوسف اسے ہر گز قتل نہیں کرے گا اور اس کا اعلان ایک گیدڑ  بھپکی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

دونوں باتیں ممکن ہو سکتی تھیں وہ بدّو قتل بھی ہو سکتا تھا اور بچ بھی سکتا تھا۔ حجاج بن یوسف کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کب کیا کر گزرے؟ تاریخ کے صفحات اس کے انھی کاموں سے بھرے پڑے ہیں، جب اس نے خود کو گالی دینے والے کو سونے میں تلوا دیا اور تعریفی کلمات ادا کرنے والے کی کھال میں بھس بھروا دیا تھا۔ لہذا اس بدّو کو داد نہ دینا بڑی زیادتی ہو گی، جس نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حلوے کی ایک پلیٹ کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔

ایسا ہی کچھ ہمارے حال اور ماضی کا حکمران طبقہ کرتا آیا ہے، لیکن یہ طبقہ اس بدّو سے زیادہ دلیر ہر گز نہیں ہے۔ کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ کرپشن کا حلوہ کھانے کے بعد وہ ہر گز گرفت میں نہیں آئیں گے۔ اور یہ یقین ان کا غلط بھی نہیں ہے۔ خصوصاً پچھلی حکومت کے دور میں اربوں کھربوں کی کرپشن کے اسکینڈل سامنے آتے رہے۔ عدلیہ ان کیسز کے نوٹس بھی لیتی رہی لیکن سزا کسی ایک بھی حلوہ کھانے والے کو آج تک نہ ہو سکی۔ جس ایماندار افسر کو عدالت نے تفتیش کے لیے تعینات کیا، اسی افسر کو حکومت وقت نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے تبدیل کر دیا۔ چاہے اوگرا کے اربوں روپے کی کرپشن ہو یا پھر حج کرپشن کیس ہو۔

این آئی سی ایل اسکینڈل ہو یا پھر اولڈ ایج بینیفٹ کرپشن کیس ہو۔ سزا کسی کو بھی نہ ہو سکی اور ملزمان حلوہ کھا کے مست پڑے رہے بلکہ اب بھی پڑے ہوئے ہیں۔ سابق صدر کے سوئس اکاونٹ کا کیس ہو، جس کی رقم اکاونٹ میں موجود تھی اور اٹارنی جنرل صاحب کے ایک خط لکھنے کے نتیجے میں اکاونٹ سے نکال لی گئی اور بعد ازاں کیس زائد المعیاد ہونے کے سبب نہ چل سکا لیکن رقم تو موجود تھی نا۔ بس یہی شور مچا رکھا تھا کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ یعنی کرپشن تو ہوئی ہے لیکن استثنیٰ کی وجہ سے کیس نہیں چل سکتا۔ دوسرے کیسز کا بھی یہی حال رہا۔ یعنی بالواسطہ طور پر اس سے انکار نہیں کیا گیا کہ کرپشن ہوئی ہے بلکہ چیلنج کیا گیا کہ ’’ثابت کرو‘‘۔

رینٹل پاورز کے مقدموں میں سپریم کورٹ کے حکم پر چوبیس گھنٹوں میں اربوں واپس کیے گئے۔ یہ رقم اگر قومی خزانے کو واپس کی گئی تو اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ قوم کو اس خطیر رقم کا ٹیکہ لگایا گیا تھا۔ لیکن سزا کسی کو بھی آج تک نہ ہو سکی۔ جب تک احتساب اور سزا کا نظام نافذ نہیں ہو گا اس وقت تک نظام میں بہتری ہرگز نہیں آ سکتی۔ کتنی دلچسپ صورتحال ہے ذرا غور فرمائیے کہ پرویز مشرف کے آخری دور میں بجلی کا بحران شروع ہوا اور دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا عوام کو کرنا پڑا۔ پھر لوڈشیڈنگ کا یہ دورانیہ بڑھتا ہی چلا گیا اور اٹھارہ سے بائیس گھنٹوں تک آن پہنچا۔

پچھلے دنوں لاڑکانہ میں یہ دورانیہ بائیس گھنٹوں کا تھا۔ اس دوران مسلسل توانائی کے میگا پروجیکٹس کا افتتاح ہوتا رہا، اربوں کے منصوبے بنتے رہے پچھلی حکومت کے وزیر بجلی، جو بعد میں وزیر اعظم بھی ہوئے نے تو اکتیس دسمبر 2009ء کی تاریخ بھی دے دی کہ اس دن بجلی کی لوڈشیڈنگ پورے ملک سے ختم ہو جائے گی، لیکن کیا لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی؟ 2008ء میں نئی حکومت نے سارا ملبہ پچھلی حکومت پر گراتے ہوئے عوام کو صبر و تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی اور حکمران طبقے نے فرمایا ’’بجلی کے پروجیکٹس کو بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے لیے کم سے کم دو سال کی مدت درکار ہوتی ہے‘‘ اس دوران دھڑا دھڑ نئے سے نئے پروجیکٹس کے افتتاح ہوتے رہے اور ہر افتتاح کے بعد عوام کو یہ نوید سنائی گئی کہ یہ منصوبہ مکمل ہو جانے کے بعد اتنے میگا واٹس بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی اور فلاں سال تک اس کی گنجائش اتنی ہو جائے گی۔

یہ پیداوار اگر شروع ہو جاتی تو لوڈشیڈنگ کا دورانیہ خود بخود کم ہو جاتا ۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، یہ دورانیہ مسلسل بڑھتا رہا اور آج سات سال کے بعد پھر یہی صورتحال ہے کہ خبریں یہی آ رہی ہیں کہ بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے افتتاح ہو رہے ہیں۔ ایسی کوئی خبر کبھی سننے کو نہیں ملی کہ وہ جو کئی برس قبل بجلی کی پیداوار کا منصوبہ شروع ہوا تھا اس نے آج بجلی پیدا کرنی شروع کر دی ہے۔ جس کے نتیجے میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہو گیا ہے۔ نیلم جہلم پروجیکٹ اور نندی پور پروجیکٹس میں کرپشن کی کہانیاں تو سنائی جاتی ہیں، لیکن اس کرپشن کا ذمے دارکون تھا؟ اور اسے کیا سزا ہوئی؟ اس بارے میں موجودہ حکومت بھی خاموش ہے۔ جب کہ سارا سرکاری ریکارڈ موجودہ حکومت کے سامنے پڑا ہوا ہے۔

یہ ریکارڈ دیکھ کر باآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’حلوے‘‘ کی پلیٹ کس نے اڑائی تھی؟ ابھی حال ہی میں وزیر اعظم  نے پورٹ قاسم پر درآمدی کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کا افتتاح کیا تھا لیکن عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اس درآمدی کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی عوام کو 16 روپے یونٹ میں پڑے گی ۔ ویسے تو ’’ تھر پارکر میں ہمارے پاس اتنا کوئلہ موجود ہے کہ 100 برس تک کے لیے ہمیں کافی ہے‘‘ بس آپ یہ بیان سنتے رہیں۔ اس کوئلے کو نکالے گا کون؟ یہ نہ پوچھیں۔ سرکار! بجلی جتنی مہنگی ہو گی اتنی ہی زیادہ چوری ہو گی۔ کوئی مائی کا لال اس چوری کو نہ روک سکے گا۔

روٹی کتنی بھی مہنگی ہو جائے، پیٹ کا بھوکا اسے حاصل ضرور کرے گا خواہ اسے چوری ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ آٹھ ہزار کی تنخواہ لے کر دو سے ڈھائی ہزار صرف بجلی کے بل کی ادائیگی میں خرچ کرنے والا بجلی کی چوری کرنے کے طریقوں پر لازمی غور کرے گا۔ پارلیمنٹ، ایوان صدر اور گورنر ہائوس کی بجلی منقطع کر دینے سے بات نہیں بنتی۔ کیا وزیر بجلی یہ بتائیں گے کہ ان اداروں کا کتنا واجب الادا بل جمع کروایا گیا جو ان کی بجلی بحال ہوئی؟ کیا تمام واجب الادا بل جمع کروا دیا گیا؟ براہ کرم میڈیا کے ذریعے عوام کو پورے سچ اور پوری خبر سے آگاہ کیا جائے۔ یاد رکھیں جب تک جزا اور سزا کا نظام نافذ نہیں ہوتا ’’حلوے کی پلیٹ‘‘ پر حکمران طبقہ یونہی ٹوٹتا اور اس حلوے کو لوٹتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔