بجٹ 15-2014 کیسا ہوسکتا ہے؟ کیسا ہونا چاہیے؟

منہگائی، غربت اور بجلی کے بحران کا کیا حل پیش کیا جائے گا؟  فوٹو : فائل

منہگائی، غربت اور بجلی کے بحران کا کیا حل پیش کیا جائے گا؟ فوٹو : فائل

اسلا م آباد / لاہور / کراچی: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئندہ ماہ اپنے دوراقتدار کا دوسرا بجٹ پیش کرنے والی ہے۔

ایک لحاظ سے اسے موجودہ حکومت کا پہلا بجٹ ہی سمجھا جانا چاہیے، کیوں کہ رواں مالی سال کا بجٹ میاں نواز شریف کے تیسری بار مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے محض ایک ہفتے بعد پیش کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اُس بجٹ کی تیاریاں سابق اور پھر نگراں حکومت کے دور میں مکمل ہوچکی تھیں۔

2013ء میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل وزیراعظم میاں نواز شریف اور شہبازشریف سمیت ن لیگ کے راہ نماؤں نے حسب روایت بلند و بانگ دعوے کیے تھے، جن میں عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد تین ماہ کے اندر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی شامل تھا، لیکن دعوے بھی اب تک دعوے ہی رہے ہیں۔

معیشت کے کچھ شعبوں میں اگرچہ بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں مگر مجموعی طور پر صورت حال بہتر نہیں ہوئی۔ ذیل کی سطور میں ہم موجودہ دور حکومت میں معیشت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی کا اجمالی جائزہ پیش کررہے ہیں:

بجلی کا بحران:
بجلی کا بحران وہ ایشو ہے جسے مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم چمکانے کے لیے زورشور سے استعمال کیا تھا، مگر اب ن لیگ کے راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ 2020ء تک بھی بجلی کا بحران ختم نہیں ہوگا، البتہ لوڈ شیڈنگ میں کمی آجائے گی۔ بجلی کی فراہمی میں گھنٹوں تعطل کا سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف عوام بے حال ہیں بلکہ کاروباری اور تجارتی شعبے بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداواری گنجائش 23000 میگاواٹ ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ طلب 17000 میگاواٹ ہوتی ہے، مگر فنڈز کی قلت کے باعث گنجائش کے مطابق بجلی کی پیداوار ممکن نہیں ہوپارہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بدانتظامی اور حکم راں جماعت کی عدم دل چسپی کی وجہ سے بجلی کے بحران پر قابو پانا ممکن نہیں۔ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومت نے کئی پاور پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔

6 مئی کو وزیراعظم نے کراچی میں بن قاسم کے مقام پر کوئلے سے چلنے والے دو پاور پلانٹس کا افتتاح کیا جن کی مجموعی پیداواری گنجائش 1320 میگاواٹ ہے۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ان کے دورحکومت میں مختلف منصوبوں سے 21000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ تمام تر دعووں کے باوجود اس وقت صورت حال یہ ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔

غربت، بے روزگاری اور منہگائی:
اگرچہ حکومت نے غربت اور بے روزگاری میں تخفیف کے لیے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قرض دینے کی اسکیمیں شروع کی ہیں، تاہم یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور ان کے ثمرات (اگر ہوئے) تو آئندہ برس سے ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔

مجموعی طور پر موجودہ حکومت کے ایک سال کے دوران غربت، بے روزگاری اور منہگائی نے برق رفتار ’ترقی‘ کی ہے۔ انٹرنیشنل نیوٹریشن ڈیولپمنٹ کے مطابق پاکستان کی نصف آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جب کہ وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ 54 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 2006ء میں شرح 30 فی صد تھی جو سال بہ سال بڑھتے بڑھتے اب 54 فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کا سبب پاکستانی حکم رانوں کی اختیارکردہ پالیسیاں ہیں جن کا محور صرف اور صرف بالادست طبقات کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔ منہگائی اور افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی اقدامات نظر نہیں آتے۔

منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر عام خوانچہ فروشوں تک، جس کا جب جی چاہتا ہے اشیاء کے نرخوں میں من مانا اضافہ کردیتا ہے۔ وزارتِ خزانہ کی جاری کردہ رپورٹ ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں افراطِ زر کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹیں بھی ملک میں بڑھتی منہگائی کی گواہی دے رہی ہیں۔ غربت، منہگائی اور بے روزگاری سے تنگ آکر ایک سال کے دوران کتنے ہی لوگ خودکشیاں کرچکے ہیں۔

درآمدات ، برآمدات اور تجارتی خسارے کی صورت حال:
وفاقی ادارۂ شماریات کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ (جولائی 2013ء تا اپریل 2014ء) کے دوران ملکی برآمدات 20 ارب 99 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہیں۔ گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 20 ارب 14 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی برآمدات کی گئی تھیں۔ اس طرح مذکورہ 10 ماہ کے دوران ملکی برآمدات میں 4.24 فی صد کا اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران درآمدات پر 37 ارب 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر خرچ کیے گئے، جب کہ گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں36 ارب 66 کروڑ50 لاکھ ڈالر کی درآمدات کی گئی تھیں۔ اس طرح درآمدات میں 1.2 فی صد اضافہ ہوا۔ اس طرح جولائی سے اپریل 2014ء کے دوران پاکستانی تجارت 16 ارب 10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے خسارے میں رہی، جو گذشتہ مالی سال میں 16 ارب 52 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے تجارتی خسارے سے 2.51 فی صد کم ہے۔

غیرملکی سرمایہ کاری:
اس ضمن میں صورت حال بہتر نظر آرہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مال سال کے ابتدائی نو ماہ (جولائی تا مارچ ) کے دوران ملک میں تقریباً 67 کروڑ ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی، جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 6.14فی صد زاید ہے۔ سب سے زیادہ سرمایہ کاری تیل و گیس کے شعبے میں ہوئی۔ اس کے علاوہ مالیاتی شعبے، کیمیکلز، تمباکو اور سگریٹ، خوراک اور مشروبات کے شعبوں میں غیرملکیوں نے سرمایہ لگایا۔

ٹیکس وصولیاں:
رواں مالی سال کے لیے محصولات سے ہونے والی آمدنی کا نظرثانی شدہ ہدف 2345 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ جولائی تا اپریل کی مدت کے دوران ایف بی آر نے 1746 ارب روپے محصولات کی مد میں حاصل کیے ہیں جو کہ گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 237 ارب روپے زیادہ ہے، تاہم بجٹ میں مقرر کردہ ہدف سے 155 ارب روپے کم ہے۔ بجٹ میں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 1901 ارب روپے رکھا گیا تھا، جسے حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر کو مئی اور جون کے مہینوں میں 599 ارب روپے مزید حاصل کرنے ہوں گے جو آسان نہیں ہوگا۔

تارکین وطن کی ترسیلاتِ زر:
بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ مالی سال 2013-14ء کے ابتدائی دس ماہ کے دوران مختلف ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں نے 12 ارب 89 کروڑ 46 لاکھ ڈالر وطن بھیجے۔ گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران ان ترسیلاتِ زر کا حجم 11 ارب 56 کروڑ 98 لاکھ ڈالر تھا۔ اس طرح موجودہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں 11.45 فی صد زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوئیں۔

جی ڈی پی کی شرح:
رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح کا ہدف 4.4 فی صد مقرر کیا گیا تھا، حکومت یہ ہدف حاصل نہیں کرسکی اور معیشت 4.1 فی صد کی شرح سے ترقی کر رہی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو میں زیادہ حصہ صنعتی شعبے کی نمو کا ہے، جب کہ زراعت اور خدمات کے شعبوں کی نمو کے لیے مقررہ اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔

حکومتی قرضے:
مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کا مقامی قرضوں پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران مقامی ذرائع سے حاصل کردہ حکومتی قرضے 23 فی صد اضافے کے بعد 10.8 ٹریلین روپے سے تجاوز کرگئے ہیں۔

مقامی قرضوں کی مالیت مارچ 2013ء میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 38 فی صد تھی جو مارچ 2014ء کے اختتام تک جی ڈی پی کے 42 فی صد تک پہنچ گئی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران مقامی قرضوں کے حجم میں 20 فی صد اضافہ ہوا جب کہ گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران یہ اضافہ 17فی صد تھا۔

بجٹ کے حوالے سے ملک کے مختلف ماہرین اقتصادیات کی آراء

شاہد حسین اسد (ممبرایف بی آر)
ٹیکس ریٹ بڑھانے کے بہ جائے ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے پر توجہ دی جارہی ہے۔ رواں سال ٹیکس ریٹ بڑھانے کا ارادہ نہیں، جو لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں نیٹ میں لانے پر فوکس کیا جائے گا۔ اگلے تین برسوں میں ایس آراو کلچر کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ گذشتہ مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں تین فی صد نمو ہوئی تھی، لیکن رواں مالی سال میں اب تک سترہ فی صد نمو ہوئی ہے۔ ٹیکس محاصل میں نوے ارب روپے کے شارٹ فال جب کہ دفاعی اخراجات نو سو ارب روپے سے تجاوز کرجائیں گے، کم تن خواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈاکٹر حفیظ اے پاشا (ماہرِ اقتصادیات، سابق مشیر خزانہ)
حکومت کی توجہ اسٹرکچرل اصلاحات کے بجائے قرضوں کے حصول پر ہے۔ حکومت نے آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران باون ارب ڈالر قرض لینے کے معاہدے کر کے آنے والی نسلوں کو گروی رکھ دیا ہے۔ ایف بی آر کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ رواں مالی سال کے لیے دو ہزار چار سو پچھتر ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا گیا مگر آئی ایم ایف کے کہنے پر ہدف میں کمی کرکے دو ہزار تین سو پینتالیس ارب مقرر کردیا گیا۔ صرف گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن (ماہر معیشت)
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ وہاں سے اتنی رقم آئے گی، وہاں سے اتنی رقم آئے گی، تو یہ سب تو قرض ہی ہے نا، یہ قرض تو اور بڑھے گا، بے شک فارن ریزرو بہتر ہوجائیں گے، لیکن یہ ہے تو قرض ہی نا۔

زاہد اصغر (ماہرِمعاشیات)
پبلک سیکٹر انٹرپرائز ہر سال پبلک منی سے چل رہی ہے۔ ان کو ٹرن اراؤنڈ کرنا بہت ضروری ہے اور یہ سب سے بڑا چیلینج ہے۔ یہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی 5 فی صد تک رقم خرچ کرتی ہیں اور نقصان پہنچاتی ہیں۔

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل (صدرپاکستان اکانومی واچ)
یہ بجٹ بھی عوام کے لیے سراسر مایوس کن ہوگا۔ سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے بجٹ سے ملکی معیشت مزید کم زور ہوجائے گی۔ الیکشن کے سبب بجٹ میں حکومت اپنے موقف پر سمجھوتا کرلے گی اور کام کے بہ جائے نعروں پر زور دے گی، جب کہ معیشت کو گذشتہ چار سال کی طرح نظر انداز کردیا جائے گا۔

پسندیدہ شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا، جب کہ غریب کو مزید پوشیدہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ بجٹ میں ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت سدھارنے کو کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔ آنے والا بجٹ نہ صرف عوام اور کاروباروں کی حالت پتلی کر دے گا، بل کہ آنے والی حکومت کو ڈیفالٹ کا قوی اندیشہ بھی تحفے میں ملے گا۔

 ڈاکٹر سلمان شاہ (سابق وزیر خزانہ)
حکومت نے اپنے پہلے سال میں ایسے اقدامات نہیں کیے جن سے معاشی صورت حال بہتر ہوتی، اکنامک ویکیوم زیادہ ہوجاتا یا بے روزگاری کم ہوجاتی۔ انڈیکیٹرز وہی ہیں، تاہم یہ ضرور ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر زیادہ ہوئے ہیں، مگر قرضے بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے ساتھ ساتھ قرضے بھی زیادہ ہوں تو اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے۔ اس وقت بجٹ خسارہ 4.8 فیصد ہے جسے پورا کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکالنا ہوگی۔

اس لیے یہ بجٹ ویسا ہی ہو گا جیسا کہ آئی ایم ایف چاہے گا۔ قرضوں پر انٹرسٹ ریٹ زیادہ ہے، جب کہ آمدن کے ذرائع اس حساب سے نہیں ہیں۔ ایسے میں حکومت کو زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرنا ہو گا، جس کے لیے ٹیکسوں کی شرح بڑھانا اور نئے ٹیکس بھی لگانا پڑ سکتے ہیں۔ سبسڈی کم سے کم کرنا ہوگی، جس سے عوام پر بوجھ بڑھے گا۔ ویسٹ فل اخراجات کافی زیادہ ہیں، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت ریفارم نہیں کر رہی۔ بجلی کی صورت حال ویسی ہی ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم (ماہر معاشیات)
حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات سے معاشی بہتری آئی ہے مگر یہ بہتری ایسی نہیں کہ کہا جائے کہ معاشی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی آئی ہے ۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ حکومت نے کچھ بڑے منصوبے شروع کیے جیسے میٹرو بس، زراعت وغیرہ تو اس سے لوگوں کو روزگار ملا ۔ مگر حکومت نے یہ سب قرضے لے کر شروع کیا، جس کا بوجھ عوام ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ اس وقت ویلیو ایڈیشن کی ضرورت ہے۔ اسی طرح عورتوں کے شعبے میں بہتری کی ضرورت ہے۔

لوگوں کو ٹریننگ دے کر روزگار مہیا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے معاشی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ حکومت کو آئی ٹی اور انڈسٹری جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ اس سے بتدریج بہتری آنا شروع ہو گی۔ حکومت قرضے لینے کے بجائے ملک سے پیسہ اکٹھا کرے۔ حکومت دبئی کی طرز پر پالیسی بنائے، دو سال کے لیے ٹیکس پر چھوٹ دے اس سے لیگل ، گرے اور بلیک اکانومی رجسٹرڈ ہوجائے گی اور پھر ٹیکس وصول کیے جائیں۔ عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کم ، نوٹ چھاپنا بند، تیل اور گیس کی قیمتوں میں کمی کرنا ہوگی۔

 ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی (ماہرِاقتصادیات)
موجودہ مالی سال میں حکومت کئی اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ جی ڈی پی کی شرح فی الحال 4.1 فی صد ہے، جس میں مالی سال کے اختتام تک مزید کمی کی توقع ہے۔ ٹیکس وصولیاں ہدف سے 200 ارب روپے کم رہی ہیں اور بجٹ خسارے کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا جاسکا۔ حکومت کا زور ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھانے پر ہے، اس کے باوجود براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے۔ افراطِ زر ہدف سے زیادہ رہا ہے۔ دوسری طرف آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔ یہ سب حکومت کی بڑی ناکامیاں ہیں۔ صحت کے لیے جی ڈی پی کا 2 فی صد مختص کیا جانا چاہے۔

ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے سے سالانہ 8500 ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عاید کیا جائے۔ جنرل سیلزٹیکس کی شرح پانچ فی صد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ پیٹرولیم لیوی ختم کردینی چاہیے۔ اس سے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت بیس روپے نیچے آجائے گی۔ کم از کم تنخواہ 14500 روپے مقرر کی جائے۔ منافع بخش اداروں کی نج کاری کسی طور مناسب نہیں۔ کچھ ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں، جن میں حکومت 25 فی صد، مقامی صنعت کار 35 فی صد اور بقیہ 40 فی صد سرمایہ کاری بیرون ملک مقیم پاکستانی کریں۔ ان منصوبوں کا انتظام و انصرام مقامی صنعت کاروں ہی کے ہاتھ میں ہو۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو مائیکرو فنانس سے منسلک کردینا چاہیے۔

عالمی مالیاتی ادارے جن کی شرائط ہمارے ہاں بھوک اور افلاس کا ایک اہم سبب ہیں

ہماری معیشت دگرگوں حالات کی واضح تصویر پیش کر رہی ہے اور اس کی وجہ اندرونی وبیرونی قرضوں کا وہ بوجھ ہے جو ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ معاشی نمو کی شرح آبادی کی شرح نمو کے برابر ہے۔ گویا در حقیقت معیشت کی افزائش صفر ہے۔ اس صورت حال اور عوام کی معاشی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ ہماری حکومتوں کے معاشی فیصلوں اور میزانیہ بنانے میں عالمی مالیاتی اداروں کا عمل دخل ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک سے قرضے لے رکھے ہیں، جب کہ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے چارٹروں پر دستخط کیے ہوئے ہیں، لیکن اگر یہ قرضے اور چارٹر کے تحت کیے گئے معاہدے عوام کو بھوک اور افلاس کی وجہ سے خودکشیوں اور اپنے بچوں تک کو بیچنے پر مجبور کردیں تو ایسے قرضوں اور معاہدوں کا کیا فائدہ۔

دوسری طرف آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کی اقتصادی اور معاشی پالیسیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چوتھی سہ ماہی کے لیے 55 کروڑ ڈالر کے ’’آسان شرائط‘‘ پر قرضے کی منظوری دے دی ہے، جب کہ میڈیم ٹرم ڈیٹ مینجمنٹ حکمت عملی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 جون 2014 ء تک پاکستان کے ذمہ غیرملکی قرضہ 72 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ 2013-14 ء کے مالی سال کے دوران پاکستان کے ذمے 3 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہیں۔

یہ ادائیگیاں صرف ایک بیرونی قرض خواہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( IMF ) کے حوالے سے ہیں، جب کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB)، ورلڈ بینک اور دیگر قرض خواہوں کو ادائیگیاں بھی کرنا ہوں گی۔ 14000 ارب روپے کا اندرونی قرضہ اس کے علاوہ ہے۔ قرضوں کا یہ جال جس میں پاکستانی معیشت کا دم گھٹتا جارہا ہے، ہماری حکومتوں اور ملکی معیشت کی بہتری کے ذمے دار اداروں کی مسلسل نااہلی کی وجہ سے ہے۔ حکومتیں اپنے مالی وسائل میں اضافہ کرنے یا حدود میں رہ کر خرچ کرنے کے بجائے قرضوں پر قرضے لیتی چلی آئی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان قرضوں کے سود کی ادائیگی اب بڑا قومی خرچ بن چکی ہے۔

پاکستان کی معیشت کو اگلے کئی برس تک قرضوں کی جکڑ سے نجات نہیں ملنے والی۔ اس دوران واجب الادا قرضوں کے لیے حکومت کو مزید کئی سخت فیصلے کرنا پڑسکتے ہیں، جو کہ مالیاتی اداروں اور بینکوں سے نئے قرضے لینے یا مزید سخت شرائط پر پہلے سے موجود قرضوں کی مدت میں اضافہ کروانے کی صورت میں ہوسکتے ہیں۔ اس دوران قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی معیشت پر دباؤ رہے گا، کیوں کہ پاکستان کے تقریباً گیارہ کھرب روپے کے ملکی قرضوں کی میعاد تقریباً اگلے دو سال میں پوری ہوجائے گی۔ اس طرح مجموعی طور پر رواں سال کے دوران پاکستان کی مالیاتی ضروریات مجموعی ملکی پیداوار کے 36 فیصد تک پہنچ جاتی ہیں۔

اس طرح معاشی اعتبار سے اگلے کم از کم دو برس کے لیے پاکستان کو دنیا کا مجبور ترین ملک قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔پاکستانی حکومتوں کی طرف سے قرضوں کے یہ پہاڑ قانونی اعتبار سے بھی قابل اعتراض ہیں، کیوں کہ 2006 ء کے فسکل ریسپانسیبلٹی اینڈ ڈیبٹ لیمیٹیشن ایکٹ (FRDL) میں یہ طے کردیا گیا تھا کہ داخلی یا خارجی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے تجاوز نہیں کرے گا، لیکن روزِ اول ہی سے پاکستان کی حکومتیں اس قانون کی خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہیں۔ ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ترقی کی رفتار رو بہ زوال ہے اور نیچے سے اوپر تک تہہ در تہہ مسائل کے انبار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرضے کی رقم کا بڑا حصہ ترقی کے بجائے ان مقاصد پر خرچ ہوجاتا ہے جن کا ترقیاتی سرگرمیوں سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔

پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی وہ شرائط ہیں، جن میں پاکستانی معیشت اس بری طرح جکڑی ہوئی ہے کہ اس کی اندرونی قوت نمو تقریباً قریب المرگ ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا پہلا راہ نما اصول اور حکومت کی پہلی ترجیح اس کے اپنے عوام کی خوشحالی ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ بدقسمتی سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے جس طرح کی پالیسیاں پاکستان جیسے ممالک پر مسلط کرتے ہیں اس کا نتیجہ ایسی ہی بھوک اور افلاس کی صورت میں نکلتا ہے، جس سے آج کل پاکستان کے عوام دوچار ہیں۔

اس ضمن میں سب سے بڑی مشکل آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے معاشی پالیسی سازی کے عمل کو آزاد کرانا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی تعمیر ِنو کے لیے پاکستان کو ان سب اداروں کو معاشی پالیسی سازی کے عمل سے خارج کرکے اپنی معاشی ترجیحات کو از سرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ پرائیوٹائزیشن ایک تباہ کن عمل ہے۔ خاص طور پر وہ پرائیوٹائزیشن جس میں غیرملکی کارپوریشنز پاکستان کی صنعتوں پر اجارہ داری حاصل کرلیں۔ ایسی پرائیوٹائزیشن نہ صرف پاکستان کی معاشی سیکیوریٹی بلکہ پاکستان کی دفاعی سیکیوریٹی کے لیے بھی خطرناک ہے۔

اگر ہم ڈی پرائیوٹائزیشن کرنا چاہیں بھی تو اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹیں مذکورہ عالمی اداروں ہی کی طرف سے کھڑی کی جائیں گی، لیکن زمینی حقائق کے پیشِ نظر پاکستان کو ہر حال میں ان رکاوٹوں کو عبور کرنا چاہیے۔ اِن فوری اقدامات کے بعد پاکستان کو طویل المدتی اقدامات کرنا ہوں گے جن میں بجٹ بیلنس کرنا، شہروں اور دیہات کی تنظیم نو، نئے سماجی ڈھانچے کی تشکیل، تعلیم، صحت، نقل وحرکت کے شعبے کی تنظیم نو اور صنعت و زراعت کو جدید اصولوں کے مطابق ڈھالنا شامل ہیں۔ ان اقدامات سے پاکستان کی معیشت تعمیر نو کے راستے پر گامزن ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کی شرائط دیکھنے میں بڑی سیدھی سادی لگتی ہیں، لیکن ان کی پیچیدگیاں عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ قرض خواہ سب سے پہلے اپنے قرضے کی واپسی یقینی بنانے کی کاوشیں کرتا ہے۔

اسی پالیسی کے تحت آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ حکومت بجلی پر دی جانے والی سبسڈی فی الفور ختم کردے، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جائے، جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا جائے، یعنی وہ اقدامات جو ’’مرے کو مارنے‘‘ کے مترادف ہیں۔ پاکستان کے لیے قومی پیداوار اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کے ذریعے مجموعی وصولیوں میں اضافے کی حکمت عملی اختیار کرنا لازمی ہے، تاکہ ایک طرف سرکاری اخرجات کم ہوں تو دوسری طرف ٹیکس آمدنی میں اضافے کے ذریعے بجٹ خسارے کو قابل قبول سطح پر لایا جاسکے، تاہم موجودہ حالات میں ہماری معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے نہیں بلکہ دھکا لگا کر چلانے کے لیے بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لینے کی کڑوی گولی نگلنا ہی پڑے گی ، پھر قرض دینے والا ’’بَنیا‘‘ اپنی شرائط بھی منوائے گا اور پھر وہی منحوس چکر جاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔