مودی کا مُوڈ تو بننے دیجیے

طلعت حسین  جمعـء 23 مئ 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

مجھے یاد ہے کہ جب امریکا میں پہلی مرتبہ ایک کالے کو صدر بنایا گیا ( امریکی خود بلیک کو بلیک ہی کہتے ہیں ، لہذا لفظ کالا معیوب نہیں) تو دنیا کے مختلف کونوں میں خواہ مخواہ کی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ افریقہ کے مختلف ممالک میں بچوں اور بچیوں نے بھنگڑے ڈالنے شروع کر دیے یا کم از کم امریکی میڈیا نے ان کو بھنگڑے ڈالتے ہوئے دکھایا۔ یوں لگتا تھا کہ بارک اوباما نہیں ان کے ماموں منتخب ہو گئے۔ پاکستان میں بھی خواہ مخواہ خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اچھے بھلے تجزیہ نگار بارک اوباما کو بارک حسین اوباما کہنے لگے۔

ان کا خیال تھا کہ یہ موصوف کا ہلکا سا مذہبی رنگ شاید اس کو امریکا اور دنیا اسلام (جس سے ان کی مراد پاکستان تھی) کے تعلقات کو کسی نئے مقام پر لانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات نے خاص موقع بنا دیا ہے۔ ہمارے ملک میں موجود ایک مخصوص طبقہ جو خود کو لبرل کہتا ہے لیکن عادات فسطائیت والی رکھتا ہے، بھی خوشی سے پھول کر کُپا ہوگیا۔ جارج ڈبلیو بش کی حرکتوں کی وجہ سے اس طبقے کے سیاسی دادا جان یعنی واشنگٹن کی دنیا میں جو بدنامی ہوئی تھی ان کے خیال کے مطابق اب دوبارہ سے نئے صدر کے ہاتھوں عزت میں تبدیل ہو جائے گی۔ مگر ہوا سب کچھ اس کے برعکس۔

بارک اوباما نے جارج ڈبلیو بش کی طاقت پر مبنی پالیسی کو افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ہمارے خطے میں بے دریغ پھیلا دیا۔ ڈرون کا استعمال معمول کی بات بن گیا۔ اتنے حملے کیے کہ جارج ڈبلیو بش معصوم نظر آنے لگا۔ جنگوں کا خرچہ اتنا بڑھا دیا کہ گزرے ہوئے ادوار میں دفاعی اخراجات اجتماعی طور پر چھوٹے نظر آنے لگے۔ مسلمان دنیا میں نہ امن قائم ہوا نہ افریقہ کے کالوں کو کوئی خاص رعایت ملی۔ وہی اسرائیل، وہی جنگ کا اسرافیل اور اپنے خود سے چنے ہوئے دشمنوں کے لیے عزرائیل۔ مگر حق کی بات کی جائے تو قصور بارک اوباما کا نہیں ہے۔ وہ اپنے ملک کا صدر ہے۔ وہ اپنے ملک کی پالیسیوں کو لولے لنگڑے ممالک کی خواہشات کے تابع نہیں کر سکتا۔ وہ وہی کرے گا جو اس نے کیا۔ جس پر امریکا میں اتفاق رائے سے فیصلہ ہوگا۔

دنیا کی توقعات کیا تھیں اس سے اُس کو کوئی غرض نہ تھی۔ باہر والے اس کو کیسے دیکھ رہے تھے اس سے کسی قسم کی دلچسپی نہ تھی۔ اصل مسئلہ ہم لوگوں کا تھا جو امریکا میں ہونے والی تبدیلی کو اپنی گلی میں آنے والی ایک تصوراتی ڈولی بنا بیٹھے۔ جس خوشی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اس پر شادیانے بجانے لگے۔ اس وجہ سے توکہتے ہیں کہ محکوم اور احمق میں کم ہی فرق ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال نریندر مودی کی جیت کے بعد سامنے آ رہا ہے۔ وزارت خارجہ جس کو دیکھ کر عمومی تاثر یہ ملتا ہے کہ اس میں سے توانائی طویل عرصے پہلے خارج ہو چکی ہے۔ اب دوبارہ سے متحرک نظر آ رہی ہے ۔ لمبی لمبی میٹنگز میں بڑے بڑے افسر سر جوڑے ہندوستان کی طرف سے آئے ہوئے دعوت نامہ کو بار بار پڑھ رہے ہیں۔

وزیر اعظم کا دفتر مختلف زاویوں سے یہ جا نچنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس موقع کو کس طرح ایک زور دار سفارتی کارروائی میں تبدیل کیا جائے۔ ہر کوئی اس دعوت نامے کے بعد پاکستان بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ خاص کا م کرنا چاہتا ہے۔ مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ مشغولیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے انتخابات ہندوستان میں نہیں پاکستان میں ہوئے ہیں۔ یا پھر ایسے کہ جیسے نریندر مودی پاکستان کے آئین کے تحت حلف وفاداری لینے والے ہیں۔ میں اس جوش کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ہندوستان نے دعوت نامہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بھیجا۔ سارک ممالک اور اس کے علاوہ دنیا کے دوسرے نمایندگان حکومت اور ریاست کو ایسے ہی دعوت نامے ارسال ہوئے ہیں۔ لہذا پاکستان کے لیے کوئی خصوصی اہتمام نہیں کیا گیا۔

ہاں وزیر اعظم نواز شریف کے لیے دعوت نامے کو کسی خاص عطر میں ڈبو دیا گیا ہو تو مجھے اس کا کوئی خاص علم نہیں۔ ویسے ما ضی کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نریندر مودی عطر میں کم اور خون میں دلچسپی زیادہ رکھتا ہے۔ دوسرا معاملہ اس موقع کی مناسبت کا ہے۔ مناسبت ہندوستان کے لیے زیادہ ہے اور ہمارے لیے کم۔ جلد بازی میں دی گئی دعوت پر عموماً ریاستیں مثبت رد عمل کا اظہار نہیں کرتیں۔ کوئی ملک دوسرے کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ اس کے چلانے والے اتنے ہی فارغ بیٹھے ہیں کہ ایک اشارے پر جہاز پکڑیں گے اور میزبانی کا شرف بخشنے کے لیے آن موجود ہوں گے۔ کبھی کبھار پروٹوکول کی اس بندش کو توڑا بھی جاتا ہے مگر یہ اس صورت میں جب حالات سنگین ہوں اور ان کو سدھارنے کا موقع غیر معمولی۔ ہندوستان کے حوالے سے اس مرتبہ ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا۔

ایک تقریب منعقد ہو رہی ہے جس میں سب مہمانوں کے لیے ایک جیسی کرسیاں لگیں گی۔ جہاں تک رہی بات موقع سے فائدہ اٹھانے کی تو یہ نام نہاد ’’موقع‘‘بے ساز آواز ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت نے تو ابھی دفتر میں بیٹھنا بھی شروع نہیں کیا، پاکستان سے متعلق پالیسی مرتب کرنا تو دور کی بات ہے۔ پالیسی بننے سے پہلے ہی موقع کیسے بن گیا۔ اس قسم کا جادو کتابوں میں رنگ جماتا ہے۔ حقیقی زندگی میں نہیں۔ مگر نریندر مودی اور ان کی جماعت پاکستان سے متعلق کیا کہتی اور کرتی رہی ہے۔ اگر اسی کو پالیسی گردانا جائے تو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو دلی کا رُخ کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچنا ہو گا۔

انتخابی مرحلہ میں نامزد وزیر اعظم نریندر مودی نے جنرل راحیل شریف کے اس بیان پر شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا۔ جنرل راحیل شریف نے کشمیر کو مقبوضہ علاقہ اور پاکستان کے لیے اہم ترین معاملہ کے طور پر بیان کیا تھا۔ ہندوستان کے نامزد وزیر اعظم کانگریس کی حکومت سمیت تمام حکمرانوں پر پاکستان سے نرمی برتنے کا الزام بھی لگا تے رہے ہیں۔ اگر جوہری جنگ کی دھمکی دینا نرمی ہے تو نریندر مودی کی لغت میں سختی کیا ہے۔ ساٹھ فی صد تباہ کن عسکری اثاثے پاکستان کے خلاف استعمال کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ اگر اس کو دوستانہ اور محتاط پالسی کہا جا رہا ہے تو آنے والے دنوں میں ہونے والی صف آرائی کے بارے میں آپ کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔

پاکستان کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہندوستان کے نامزد وزیر اعظم تمام تر انتخابی مینڈیٹ کے باوجود ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ہیں۔ ان کا وہ ماضی جس نے گجرات کے قبرستانوں میں ہزاروں میتوں کا اضافہ کیا، پچاس سال پرانا نہیں بلکہ حالیہ ہے۔ وہ کبھی اس پر نادم نہیں ہوئے بلکہ ایک انٹرویو میں تو انھوں نے اپنی خفت کو کچھ ایسے بیان کیا کہ سوال پوچھنے والا شرمندہ ہو گیا۔ مسلمانوں کی جانوں کے زیاں پر محسوس کی جانے والی تکلیف کو پِلّے کے کار کے نیچے حادثاتی طور پر آ جانے کی زحمت سے تشبیہ دی۔ ان کے کام اور افکار اُن کی شخصیت اور ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ عناصر اس پالیسی کا حصہ بھی بنیں گے جو انھوں نے ابھی ترتیب دینی ہے۔

میاں محمد نواز شریف اور ان کے ضرورت سے زیادہ وفادار اور قریبی حلقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نریندر مودی کو طاقت میں آ جانے دیجیئے۔ وہ کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا کر سکتا ہے  یہ سب کچھ سامنے آنے دیجیئے۔ خواہ مخواہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہندوستان سے آیا تو کیا ہوا ہے تو عام سا دعوت نامہ۔ افریقہ کے ان بچوں کی طرح بے موسمی عید نہ منائیں جو انھوں نے بارک اوباما کے صدر بننے پر منائی تھی۔ پاکستان ایک بڑا اور اہم ملک ہے۔ اس کو سستی سفارتکاری سے گریز کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو ہندوستان کا دورہ نہیں کرنا چاہیے۔ فی الوقت انتظار اور صبر اس دعوت نامے کا بہترین جواب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔