ہمارا استاد کون ہے؟

راؤ منظر حیات  جمعـء 23 مئ 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ملک کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو پاکستان سے باہر آ کر پہلے دس منٹ میں ہو جاتا ہے۔ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں بلکہ یوں کہیئے کہ کیوں ترقی نہیں کرتیں، اس کا جواب بھی آپکو فوراً مل جاتا ہے۔ میں پیرس جاتے ہوئے چار دنوں کے لیے ابو ظہبی رکا ہوں۔ یقین فرمائیے! ہر سوال کا جواب مل چکا ہے۔ بلکہ اب تو گمان ہوتا ہے کہ جواب جاننے اور ملنے کے بعد ایک افسوس سا ہے۔ دل پر غبار آ چکا ہے۔ یاالہی! ہم ترقی کی دوڑ میں اتنا پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔ کون سا عفریت ہے جو ہمیں جکڑ چکا ہے اور ہلنے نہیں دے رہا۔ میں اکثر ملک سے باہر آتا رہتا ہوں اور ہر بار زیادہ دکھ سے سوچتا ہوں کہ آخر یہ فرق اتنا تیزی سے بڑھ کیسے رہا ہے۔

میں ہوٹل میں آٹھویں منزل پر ٹھہرا ہوں۔ ابوظہبی کا بہت سا حصہ دور دور تک نظر آتا ہے۔ ہر طرف خوبصورت اور دیدہ زیب عمارتوں کا ایک طومار ہے۔ روشنیوں کی ایک لہر ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ پورے پاکستان میں اس ہوٹل کے برابر کا ایک بھی ہوٹل نہیں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں کوئی بھی ہوٹل اس معیار اور قرینے کا موجود نہیں ہے۔ چالیس منزلہ ہوٹل کو بنے ہوئے ایک سال کے قریب وقت ہوا ہے اور یہ بلکل نیا تعمیر شدہ ہے۔

اس کا کرایہ بھی ہمارے فور یا فائیو اسٹار ہوٹلوں سے قدرے کم ہے۔ اس ہوٹل کی طرح کے اَن گنت ہوٹل اس ملک اور شہر میں قدم قدم پر موجود ہیں۔ سیاحوں کی سہولت کے لیے ان کا کرایہ بہت مناسب رکھا گیا ہے۔ غیر ملکی ہزاروں کی تعداد میں ہر روز آتے ہیں۔ فٹ بال کا بین الاقوامی مقابلہ 2020ء میں منعقد ہو گا۔ اور اب اس کی حکومت درجنوں نئے ہوٹل بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس مقابلے کے لیے لاکھوں نئے سیاح یہاں آئینگے اور ان کا انتظام ابھی سے کیا جا رہا ہے۔

یو۔ اے۔ ای سات مختلف ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے۔ ابو ظہبی اس میں وسائل کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔ تجارت اور سروس سیکٹر میں دبئی ان تمام ریاستوں میں ممتاز نظر آتا ہے۔ ابو ظہبی اور دبئی کے کلچر اور نفسیات میں بھی قدرے فرق معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ تمام ایک دوسرے کو ترقی کے میدان میں سہارا دیتے ہیں۔ ان کا آپس میں معاشی مقابلہ ہے۔ اس ملک میں پاکستانی تیرہ سے چودہ لاکھ کے لگ بھگ کی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو گا کہ اس ملک کو اس عظیم سطح پر پہنچانے میں ہمارے محنت کش لوگوں کا ہاتھ ہے۔ یہ افراد ہر شعبہ میں کام کرتے ہوئے نظر آئینگے۔ محنت مزدوری سے لے کر ہر میدان میں آپکو پاکستان کے لوگ ملیں گے۔ آپ اس ملک کی ہریالی کی طرف نظر دوڑائیں، یہ تمام کام ہم لوگوں کی محنت کا ثمر ہے۔

آپ تعمیراتی شعبے کو دیکھیں، ہر کرین پر پاکستانی کام کر رہا ہے۔ بلکہ یہاں کہا جاتا ہے کہ ہر مشکل کام صرف اور صرف پاکستانی ہی کر سکتا ہے۔ بُرج خلیفہ اس ملک کی سب سے بلند قامت عمارت ہے۔90 منزلیں بنانے کے بعد دنیا سے آئے ہوئے تمام محنت کشوں سے خوف کی وجہ سے کام کرنا چھوٹ جاتا تھا۔ بلندی کے ڈر سے کام رکنے کے قریب تھا۔ یہ صرف اور صرف ہمارے محنت کشوں کی بہادری تھی کہ انھوں سے اس عمارت کو 90 ویں منزل سے اٹھایا اور اس کے بعد اس کو دنیا کا عظیم ترین شاہکار بنا دیا۔ انکی، اس بہادری کو یو۔ اے۔ ای کے مزدوروں اور وزیر اعظم تک نے سراہا۔ وہ آج تک ہمارے مزدوروں کے جذبے کے قدردان ہیں۔ تمام سڑکیں، عمارتیں، باغ، ائرپورٹ یعنی ان کی ہر ہر چیز پر ہمارے ملک کے شہریوں کی چھاپ موجود ہے۔

میں مستقل طور پر کبھی ملک سے بھی باہر نہیں رہا۔ اس بنا پر میں غریب الوطنی کو شدت سے محسوس نہیں کر پاتا۔ یہاں ہر جانب پاکستانی اس کثرت سے موجود ہیں کہ اپنے ملک کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں تو معلوم ہو گا اپنے وطن کے لیے از حد پریشان اور رنجیدہ ہیں۔ تیس تیس سال سے یہاں موجود لوگ آج بھی ہر وقت اپنے ملک کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر تو یہاں موجود ہیں مگر ذہنی طور پر آج بھی پاکستان کے کسی شہر یا گائوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے یہاں رہنے والے لوگ بخدا زیادہ پاکستانی محسوس ہوئے ہیں۔ ابراہیمی ہوٹل ابو ظہبی کی الیکٹر اسٹریٹ میں واقع ہے۔

وہاں مجھے ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ ہوٹل سوات سے تعلق رکھنے والے خان زمان کا ہے۔ یہ شخص اپنے ملک سے عشق کرتا ہے۔ خدا نے اس کو اس کی محنت کے عوض بہت نوازا ہے۔ اس کے کئی ہوٹل، ریسٹورنٹ اور دیگر کاروبار دبئی سے لے کر شارجہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھے سفارت خانے کے ایک افسر نے بتایا کہ وہ ہر سال دو ملین ڈالر یعنی بیس کڑوڑ روپیہ تنخواہ کے طور پر اپنے عملہ کو دیتا ہے۔ مجھے دیکھنے میں وہ ایک سادہ سا انسان لگا۔ مگر اس کی کاروباری صلاحیت قابل رشک ہے۔ یہ ملک اسطرح کے لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ تمام لوگ شدید محنت کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے ہیں۔

خان زمان اب چیمبر آف کامرس کا الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ اس الیکشن میں حصہ لینے والا واحد پاکستانی تاجر ہے۔ اس تقریب میں میری ملاقات بہت سے لوگوں سے ہوئی۔ اس میں شاعر اور ادیب بھی شامل تھے۔ طارق بٹ صاحب نے جس محبت اور جذبے سے اپنی کتاب “عشق لازوال” پیش کی میں اسے بہت عرصے تک یاد رکھوں گا۔ یہ کتاب قائد اعظم اور علامہ اقبال پر ایک نئی طرز کی ادبی تحقیق ہے۔ بٹ صاحب نے یہ کتاب ایک مقامی ادبی تنظیم “مجلس قلندران اقبال” کے قورم سے شایع کی ہے۔

مجھے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے باہم ملاقات کا موقع ملا۔ ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، تاجر سبھی یہاں موجود تھے۔ ایک اور بات جو بہت اہم ہے کہ یہاں مختلف ممالک سے آئے ہوئے مسلمانوں میں کافی حسن سلوک ہے۔ مجھے کیرالہ سے آئے ہوئے کچھ نوجوان ملے۔ انھیں پاکستان کا زیادہ شعور نہیں تھا۔ مگر وہ ہندوستان کی  سیاست اور مودی کے وزیر اعظم بننے پر بات کرنے سے کافی کتراتے تھے۔ انڈیا کے جنوبی حصوں سے لوگ یہاں بہت تعداد میں مصروف کار ہیں۔

حکومتی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کا شعور بہت سنجیدہ ہے۔ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں اور لوگ خوشحال ہیں۔ اسکول آف گورنمنٹ ہمارے ملک کے اسٹاف کالج کی سطح کی سرکاری درسگاہ ہے۔ دبئی میں یہ اسکول مقامی افسروں کی ٹریننگ کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ اسکول ایم ۔ بی۔ اے کی یونیورسٹی ڈگری دیتا ہے۔ اور اس کی انتظامیہ ہر وقت اپنے سرکاری افسروں کو بین الاقوامی سطح پر پہنچانے میں مصروف ہے۔

مگر ان کے اور ہمارے مسائل میں بہت فرق ہے دبئی کی پولیس کے مطابق کوئی ایسا جرم نہیں ہے جسکو تین یا چار دن میں معلوم نہیں کر سکتے۔ بلکہ ایک سینئر اہلکار نے مجھے بتایا کہ انھوں نے غیر ملکی سطح کے مشکل جرائم بھی معلوم کیے ہیں۔ دبئی انتظامیہ کی تمام توجہ اب تجارت اور گڈ گورننس پر مرکوز ہے۔ وہ اب گورننس سے آگے نکل کر Complete Goverenance کی طرف جا چکے ہیں۔ اگر اپنے ملک میں ہم اس طرف توجہ کریں تو ہمارے لیے یہ ایک انتظامی ماحول بن سکتا ہے۔

یو۔اے۔ای کا میڈیا ہمارے ملک کے میڈیا سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے اخبارات کسی سنسنی خیز خبر کو اس طرح شایع نہیں کرتے جس طرح ہمارے ملک میں عام سا رواج ہے۔ حکومتی میڈیا کو لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ایک تہذیب یافتہ دلچسپی ہے۔ مجھے یہاں کے سب سے پرانے اخبار کے ایڈیٹر نے بتایا کہ حکومتی سطح پر ابو ظہبی کو پریس  ایڈوائس یا دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عام لوگوں کے مسائل حکومت تک پہنچانے میں ان کا ایک کلیدی رول ہے۔ حکومت پر اس طرح کی مادر پدر آزاد تنقید بھی نہیں کی جاتی جو ہماری ہر سیاسی حکومت کا نصیب ہے۔ یہاں پر میڈیا کے ہر قابل ذکر صحافی کو پاکستان کے سیاسی اتار چڑھائو کا مکمل ادراک ہے۔

میڈیا کے علاوہ یہاں حکومتی سطح پر یہ سوچ بڑے عرصے سے موجود ہے کہ ان کے ہر عمل سے ان کا ملک متاثر ہوتا ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے حالات کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔ میں حیران ہوا، جب انھوں نے قدامت پسندی، فرقہ پرستی اور دہشت گردی پر، اس طرح تشویش کا اظہار کیا جیسے وہ ہمارے ملک کے شہری ہیں۔ وہ ہمارے ملک کو مفید مشورہ دیتے رہتے ہیں اور اپنے نظام کو مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ بقول انکے، ان کا ماڈل دنیا اسلام میں ترقی کی ایک سند ہے۔ ان کی حکومت ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً برابر کھڑی ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم دہائیوں کا سفر سالوں میں طے کرینگے۔ یہ پانچ یا دس سال کا مستقبل نہیں سوچئے بلکہ کئی صدیوں کا سفر تیزی سے طے کرنا چاہتے ہیں۔

آپ ان کی توانائی کی پالیسی ملاحظہ کریں۔ اس ملک کو اگلے سو سال توانائی کے کسی بحران کا سامنا نہیں کرنا ہے۔ پھر بھی یہ حکومت شخصی توانائی کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ یہ اپنے لوگوں کے وہ مسائل جو پورے ایک سو سال کے بعد آئینگے، ان کے متعلق بھی کام کر رہی ہے۔ ان کی حکومت نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ حکومت پاکستان کو تحفہ دیا۔ ہماری حکومت یہ طے نہ کر سکی کہ ہم نے وہ پلانٹ کہاں نصب کرنا ہے۔ مجبوری میں ان لوگوں نے وہ پلانٹ کسی افریقی ملک کو دے دیا۔ نا اہلی کی اس سے بڑھ کر مثال میں کیا دے سکتا ہوں۔ مگر یہ ہماری حکومتی نا اہلی کا قطعاً ذکر نہیں کرتے۔ مجھے یہاں کی ایک مقتدر سیاسی شخصیت کے ظہرانے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں اس کو مجلس کہا جاتا ہے۔ شاہی خاندان کی اس شخصیت نے تقریباً ساٹھ ستر مہمان مدعو کیے ہوئے تھے۔

آپ مہمان نوازی سے اندازہ لگائیے کہ میزبان کوشش کر رہا تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کی پلیٹوں میں خود کھانا ڈال کر دے۔ وہ انتہائی سادگی سے لوگوں سے بات چیت کر رہا تھا۔ ان مہمانوں میں مختلف ملکوں کے سرکاری ملازم، تاجر اور مقامی لوگ بھی موجود تھے۔ میزبان ہر شخص سے فرداً فرداً ملاقات کر رہا تھا۔ یہ ان کی سماجی زندگی کا ایک اہم جزو ہے۔ تمام اہم لوگ ہر شخص سے بغیر کسی جھجک کے ملتے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستانی افسر نے شہزادے سے اس کے ملک کی ترقی کی وجہ دریافت کی تو جواب صرف ایک تھا کہ ہم نے سب کچھ آپ کے ملک یعنی پاکستان سے سیکھا ہے۔ میں خاموش ہو گیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس مجلس کو درمیان میں چھوڑ کر چلا جائوں کیونکہ میں اپنے آپ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر ہم لوگ ابوظہبی کی ترقی کے قابل ہیں تو پھر ہماری غربت، جہالت، مفلسی اور عدم ترقی کا استاد کون ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔