بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی

محمد سعید آرائیں  ہفتہ 24 مئ 2014

نواز شریف حکومت سیاسی محاذ پر ایک بار پھر ماضی کی طرح ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے اور یہ سوال اب پھر ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کیا حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ یہی کچھ گزشتہ پی پی پی حکومت کے قیام کے بعد بھی ہوا تھا اور پی پی حکومت کو ایوان میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں تھی جب کہ32 فیصد ووٹ لے کر ایوان میں واضح اکثریت رکھنے والی موجودہ حکومت نے ابھی اپنی ایک سال کی مدت بھی پوری نہیں کی مگر سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہیں اور حکومت کی پوزیشن پہلے جیسی مضبوط نظر نہیں آرہی اور سیاسی پارٹیاں اور قوم بھی دو حصوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ماضی کے دو اہم حریف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی شدید مخالفت نہیں کر رہیں بلکہ وزیر اعظم کے پروگراموں میں سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی رہنماؤں کو اہمیت دی جا رہی ہے اور حال ہی میں وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں امن و امان سے متعلق جو اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں وزیر اعظم کے ایک طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری بیٹھے تھے۔ اس سے قبل بھی وزیر اعظم نواز شریف نے آصف علی زرداری کو وزیر اعظم ہاؤس مدعو کیا تھا جو حکومت مخالف سیاسی حلقوں خصوصاً تحریک انصاف اور عسکری حلقوں کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ اب ماضی کی طرح (ن) لیگ کی حکومت کی پیپلز پارٹی مخالف نہیں ہے اور اہم قومی معاملات پر سابق اور موجودہ حکمران اکٹھے ہیں۔

گزشتہ سال حکومت نے فوری طور پر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر مقرر کردیا تھا اور تحریک انصاف کو اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ گزشتہ سال جب (ن) لیگ کی حکومت قائم ہوئی تھی وہ کمزور نہیں تھی اور نہ وزیر اعظم نے کسی اور پارٹی سے ووٹ مانگے تھے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے نواز شریف کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اور نواز شریف خود کو یوسف رضاگیلانی کی طرح بلامقابلہ منتخب نہیں کرا سکے تھے اور (ن) لیگ کے امیدوار کو چوتھی بڑی پارٹی متحدہ، جے یو آئی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں اور آزاد ارکان نے بھی وزارت عظمیٰ کا ووٹ دیا تھا۔

ملک میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ وفاقی حکومت نے سندھ اور کے پی کے میں صوبائی حکومتوں کے قیام میں مداخلت نہیں کی تھی اور مولانا فضل الرحمن کی تجویز بھی مسترد کردی تھی اگر وزیر اعظم چاہتے تو کے پی کے میں تحریک انصاف حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ نواز شریف نے آزاد کشمیر میں پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا بھی ساتھ نہیں دیا تھا اور بلوچستان میں بھی اپنی حکومت بنانے کی کوشش نہیں کی تھی جو اچھی ابتدا تھی اور وزیر اعظم نے ابتدا ہی میں سیاسی کشیدگی سے گریز کیا تھا۔ وزیر اعظم بعد میں عمران خان سے بھی ملنے گئے اور کوشش کی کہ تینوں بڑی پارٹیوں کو حکومتیں کرنے کا موقعہ برقرار رہے اور ہر پارٹی اپنے منشور کے مطابق کام کرے۔ وزیر اعظم نے سندھ میں حالات بہتر رکھنے کے لیے متحدہ کے گورنر کو برقرار رکھا اور حال ہی میں جماعت اسلامی کے گورنر سندھ کو تبدیل کرنے کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔

سندھ کے مقابلے میں کے پی کے حکومت وزیر اعظم اور وفاقی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی اور شکایتیں کر رہی ہے کہ وفاقی حکومت تحریک انصاف کو اہمیت نہیں دے رہی اور عام انتخابات کے انعقاد کو ایک سال گزر جانے کے بعد بھی عمران خان انتخابی دھاندلیاں نہیں بھولے اور حال ہی میں انھوں نے اسلام آباد میں حکومت کے خلاف جلسہ کرکے شدید الزامات عائد کیے اور چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ پھر دہرایا۔

کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف جے یو آئی، اے این پی، پیپلز پارٹی پہلے ہی متحد ہوچکی ہیں جب کہ آفتاب شیرپاؤ کی پارٹی بھی تحریک انصاف سے ناراض ہے اور صرف جماعت اسلامی ہی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔

تحریک انصاف ماضی میں (ن) لیگ کے ساتھ پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ پر کڑی تنقید کرتی رہی ہے اور عمران خان متحدہ کے خلاف بھی اپنے سخت موقف پر قائم رہے ہیں مگر اب تحریک انصاف کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے اور اس کے رہنماؤں نے مسلم لیگ (ق) سے رابطہ کیا ہے اور وہ جلد ہی پیپلز پارٹی اور متحدہ سے رابطہ کریں گے جب کہ سندھ میں متحدہ اور پیپلز پارٹی پھر حکومتی حلیف بن گئے ہیں۔

تحریک انصاف اپنے صوبے کے پی کے میں اپنی اہم مخالف پارٹیوں جے یو آئی، اے این پی اور جمہوری قومی پارٹی کے قریب جانا نہیں چاہتی اور یہ تینوں پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کی حکومت ختم کرا سکتی ہیں اور شاید عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں کیونکہ ان کی حکومت اب تک کے پی کے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی ہے اور خود پی ٹی آئی میں بھی انتشار پیدا ہوچکا ہے۔ اگر کے پی کے کی حکومت تبدیل ہوئی تو عمران خان اس کا ذمے دار وزیر اعظم نواز شریف کو قرار دیں گے اور پھر کھل کر حکومت سے محاذ آرائی شروع کریں گے۔

وزیر اعظم نواز شریف عمران خان کے ساتھ محتاط رویہ رکھے ہوئے ہیں اور تحریک انصاف کی بجائے پیپلز پارٹی کو ساتھ لے کر چلنے میں آسانی محسوس کر رہے ہیں اور تحریک انصاف پر اعتماد نہیں کرنا چاہتے۔ سندھ میں متحدہ بھی اب تک وفاقی حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنی ہے اور وزیر اعظم نے متحدہ کا گورنر تبدیل نہ کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ متحدہ کو بھی ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ متحدہ کے خلاف اب تک عمران خان کا رویہ سخت ہے اور تحریک انصاف کراچی میں متحدہ کے مقابلے میں متبادل سیاسی قوت بن چکی ہے اور جماعت اسلامی بھی متحدہ کی مخالفت میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور ان دونوں جماعتوں کا اتحاد متحدہ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور جماعت اسلامی کے پی کے میں حکومتی حلیف ہے۔

سندھ میں خود مسلم لیگ (ن) کے رہنما وزیر اعظم کی مفاہمتی پالیسی سے خوش نہیں ہیں اور انھیں وزیر اعظم کی پی پی کو ساتھ رکھنے کی پالیسی پسند نہیں مگر تحریک انصاف کے باعث وزیر اعظم پیپلز پارٹی کو ناراض نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف حکومت کے خلاف جو وسیع اتحاد بنانا چاہتی ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکے گا کیونکہ اب تک پی ٹی آئی بھی متحدہ کی طرح تنہا اڑان کرتی رہی ہے اور اب اسے دوسری جماعتوں کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔