کشمکش

بابر ایاز  ہفتہ 24 مئ 2014
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں جمہوریت ابھی ارتقاء کے مراحل میں ہے طاقت کے بڑے اداروں میںگہرے تضادات کا پیدا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارے ہاں جمہوریت ابھی نئی نئی ہے اس لیے طاقت کے مختلف مراکز کے درمیان کھینچا تانی میں ہُلڑ ہو رہی ہے اور ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالا جا رہا ہے۔یہ صورتحال تمام جمہوریت پسندوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ کئی بار نو زائیدہ جمہوریت کو قتل کیا جا چکا ہے۔ موجودہ تنائو کو اسی پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔

جمہوریت، سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے اعلیٰ ترین سیاسی ڈھانچے کے طور پر وجود میں آئی ہے۔آزادی ،جو عوام تک پہنچتی ہے ، وہ پوشیدہ مفادات رکھنے والے طاقت ور حلقوں کے درمیان اختیارات کی مسلسل کشمکش کا نتیجہ ہے۔ بعض گروہ میڈیا میں اور سڑکوں پر بے ضرر گروپوں، سیاسی جماعتوں اور ایسی تنظیموں کی حمایت حاصل کر رہے ہیں جن پر قانوناً پابندی عائدہے۔ عوام کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ کس طاقت ور لابی کی کامیابی سے انھیں زیادہ گنجائش حاصل ہو گی اور اُن کے حقوق کا دائرہ وسیع ہو گا۔

پہلے ہم میڈیا کی بات کرتے ہیں، بہتر ہے کہ اپنے اوپر تنقید سے آغاز کیا جائے۔ پہلا سبق: ذمے دار صحافت اُسی وقت ممکن ہے جب میڈیا سے وابستہ لوگ کسی بھی واقعے کی خبر دیتے ہوئے،خواہ وہ کتنا ہی ہولناک کیوں نہ ہو ،اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور معروضیت کو اہمیت دیں۔دوسرے لوگوں کے لیے معروضیت کو سامنے رکھنا آسان ہوتا ہے مگر دانشمندی کا اصل امتحان اُس وقت ہوتا ہے جب خود میڈیا پر الزام ہو؛ دوئم، صحافیوں کو ایجنسیوں اور مذہبی و نسلی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ ایک با وقارحد تک فاصلہ رکھنا چاہیے۔یہ گروپ اور ایجنسیاںکسی بڑی خبر کا ذریعہ بن سکتی ہیں مگر صحافیوں کو اپنی آزادی اور مقصدیت کو برقرار رکھنا چاہیے۔

عام طور سے یہ طاقت ور عسکریت پسند گروپ اور ایجنسیاں اپنے ساتھ بے وفائی کرنیوالوں سے بہت سخت رویہ اختیار کرتی ہیں۔مجھے سی آئی اے کی یہ اصطلاح یاد آ رہی ہے کہ ’’ جڑ کو ہی فنا کر دو‘‘ طاقتور حلقوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وقت بدل چکا ہے اور اب تنقید سے بالاتر ہونے کا دعویٰ ممکن نہیں رہا۔وہ عدالتوں میں یہ دیکھ چکے ہیں اور میڈیا میں بھی سُنتے رہتے ہیں۔ میڈیا اور اعلیٰ عدلیہ حکمرانوں کو بھی معاف نہیں کرتے اس لیے کوئی بھی طاقتور ادارہ تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ وہ لا تعداد خبریں اور کتابیں پڑھنی چاہئیں جن میں سی آئی اے پر تنقید کی گئی ہے۔

دُور جانے کی ضرورت نہیں ’’ رنگ دے بسنتی‘‘ اور ابھی حال ہی میں ’’ مدراس کیفے‘‘ جیسی بھارتی فلمیں دیکھ لینا کافی ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ جس پر عوام کو غور کرنا چاہیے یہ ہے کہ آزادی ِ اظہار کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے اور آزادیِ صحافت اس کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں عدم تحمل ہر لمحے بڑھ رہا ہے اور مذہبی عسکریت پسندوں کی طرف سے ،اُن لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے جو اُن کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ اس قسم کے واقعات سے حکمرانوں کی آنکھیں کھُل جانی چاہئیںاور انھیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح ایک ایسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں اختلاف ِ رائے اور استدلال مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ماحول میں گھُٹن بڑھ رہی ہے۔

اب یہ اعتراف کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک بیمار ریاست ہے جسے بچانے کی ضرورت ہے۔ایک غیر حکومتی تنظیم ،پاکستان ویمن فائونڈیشن فار پیس(Pakistan Women Foundation for Peace) نے حال ہی میں ’’ بیمار پاکستان کو بچائیں‘‘ کے عنوان سے کراچی میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔اس سیمینار میںمیری گزارش یہ تھی کہ پاکستان کو بچانے کی جانب پہلا قدم یہ اعتراف ہے کہ ریاست’’ بیمار‘‘ ہے۔بیمار کا لفظ’’ ناکام‘‘ کے مقابلے میں بہتر متبادل ہے اور اس کے بعد ہمیں صرف مرض کی علامتوں پر ہی قابو نہیں پانا بلکہ تشخیص کرنی ہے کہ بیماری کے اصل اسباب کیا ہیں۔

تشخیصی جانچ اور علامات کچھ اس طرح ہیں۔ Legatum Prosperity Index میں درج ِ ذیل حوالوں سے پاکستان کا شماربہت نیچے ہے: قانون کی حکمرانی؛ اسٹیٹ سیکیورٹی؛ قومی ہم آہنگی؛ اسمارٹ پاور (مُلک کی نیک نامی) صحت اور آبادی پر کنٹرول۔انڈیکس میں درج ذیل پانچ اشاروں کے حوالے سے پاکستان کا شماراوسط درجے میں ہے: گورننس؛ اقتصادی ترقی؛ جمہوریت؛ شخصی آزادی؛ اور نیشنل ریسورسز مینجمنٹ۔

پاکستان ایک ’’ ناکام‘‘ ریاست نہیں بلکہ خرابی ’’ آخری حد‘‘ کو چھُو رہی ہے۔Legatum Prosperity Index میں شامل142 ملکوں میں پاکستان 132 ویں نمبر پر ہے چند سال قبل ہم107 ویں نمبر پر تھے۔اب مختصراً اُن خارجی محرکات پر ایک نظر ڈالیے،جو بیمار پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں : امریکا، بھارت، افغانستان اور ایران پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے اور اسی طرح پاکستان بھی اِن ملکوں پر بھروسہ نہیں کرتا ۔جب تک پاکستان دوسروں کے معاملات میں مداخلت بند نہیں کرتا اور اپنے عوام کے لیے ایک فلاحی ریاست کی تعمیر پر توجہ نہیں دیتا،یہ اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔

داخلی طور پر فوج ‘the bloody civilians’ حکومتوںپر اعتماد نہیں کرتی، سیاستدان فوج پر اعتماد نہیں کرتے ، عدلیہ سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتی ،بد گُمانی کا یہ احساس دونوں طرف ہے؛چھوٹی قومیتیں،مرکز اورصوبائی حکومتوں پر اعتماد نہیں کرتیں اوراسٹیبلشمنٹ چھوٹی قومیتوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ایسا کیوں ہے؟اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ پاکستان کو کیا بیماری کھائے چلی جا رہی ہے ۔یہ ’’ کیوں‘‘ اہم ترین سوال ہے۔بہت سے محرکات مل کرکسی ملک کی سیاسی،سماجی اور معاشی راہ کا تعین کرتے ہیں۔یہ محرکات مذہبی انتہا پسندی میں خطرناک اُبھارکی بھی وضاحت کرتے ہیں۔ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مسلمانوں نے جو ہندوستان کی ایک چھوٹی سی اقلیت تھے کس طرح 650 برس تک برصغیر کے بیشتر حصے پر حکومت کی اور پھر کس طرح اچانک اُن کی یاد داشت بحال ہو گئی اورانھیں احساس ہو گیا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں۔

جب ہندوستان نے خود مختار حکومت کی طرف پیش قدمی کی تو مسلمانوں کا مطالبہ یہ تھا کہ انھیں ملازمتوںاورمسلم اقلیت والے صوبوں کی اسمبلیوں میں زیادہ حصہ دیا جائے اور مسلم اکثریتی علاقوں میں مزید خود مختاری دی جائے۔یہ مطالبات سیکولر نوعیت کے تھے۔یہ مطالبات آگے بڑھتے رہے اور مسلم قوم کے لیے علیحدہ مادر ِ وطن کے دعوے تک جا پہنچے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ (AIML) نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اور خاص طور سے 1937 کے الیکشن میںشکست کے بعد ، مذہب کو استعمال کیا۔چنانچہ وہی چیز جسےAIML کے مقاصدکے حصول کے لیے ’’ ذریعے‘‘ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔آج پاکستان کو نیم جاں کر رہا ہے ،اور انتہا پسندی،عدم برداشت اور دہشت گردی کے ہاتھوں لوگ نقصان اٹھا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔