پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

رئیس فاطمہ  ہفتہ 24 مئ 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

مولانا عبدالسلام نیازی کا ذکر خیر اکثر اپنے والد محترم اور بڑے ماموں سید محمود علی سے بچپن میں بہت سنا تھا۔ لیکن یہ تذکرہ ایسا ہوتا تھا جس میں گھر کے تمام افراد دلچسپی لیتے تھے۔ کم عمر ہونے کے باوجود میں بڑی توجہ سے یہ تمام باتیں سنتی تھی اور ذہن کے کسی گوشے میں وہ محفوظ ہوتی جاتی تھیں۔ لب لباب اس گفتگو کا یہ نکلتا کہ مولانا عبدالسلام نیازی اپنی وضع قطع اور مزاج کے اعتبار سے ایک بالکل ہی منفرد آدمی تھے۔ ان کے بارے میں سب سے زیادہ جو بات کہی جاتی تھی وہ یہ کہ مزاج کے اکھل کھرے، بے حد صاف گو، بغیر لگی لپٹی رکھے جو دل میں ہوتا تھا اس کا برملا اظہار کر دیتے تھے۔

بڑے سے بڑے آدمی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بہت بڑے عالم دین۔ اور یہ کہ ان پر اللہ کا کرم تھا۔ایسے اوصاف اللہ کی ذات ہی کسی انسان کو عنایت کرتی ہے۔ انسان خود سے انھیں اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا۔ سنا ہے کہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ لیکن کوئی ضرورت مند ان کے در سے خالی نہ جاتا تھا۔ بے انتہا رعب کے مالک۔ غصہ ان کی ناک پہ رکھا رہتا تھا۔ مزاج کے جلالی تھے۔ لیکن بغیر کسی وجہ کے انھیں غصہ نہیں آتا تھا۔ دلی میں ان کے جاہ و جلال اور تبحر علمی کے چرچے عام تھے اور خلق خدا انھیں جانتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ مولانا عبدالسلام نیازی کے متعلق شاہد احمد دہلوی کا مضمون پڑھا جو کہ دراصل ان کا خاکہ تھا۔ اور جب یہ سطریں نظر سے گزریں۔ مولانا نے ساری دنیا کا علم چاٹ رکھا تھا۔ ہر علم سے خدا کا وجود ثابت کر دیتے تھے، یہاں تک کہ علم موسیقی سے بھی۔ حافظہ غضب کا پایا تھا۔ ہر کتاب انھیں ازبر تھی۔ یہاں تک کہ بعض کتابوں کے صفحے تک بتا دیتے تھے کہ فلاں صفحے پر دیکھو، یہ عبارت ملے گی اور فلاں صفحے پر یہ عبارت ملے گی۔ اور واقعی ایسا ہوتا تھا۔

ان کے مزاج میں درشتی بہت تھی اس لیے اپنی شاگردی میں مشکل ہی سے کسی کو قبول کرتے تھے، مگر جس کو انھوں نے پڑھا دیا وہ پارس بن گیا‘‘ پھر آگے اسی خاکے میں شاہد صاحب نے ان کے ’’دست غیب‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے کہ ایک بار انھوں نے حیدر آباد دکن کے بلاوے پر جلال میں آ کر کہا کہ اگر وہ انھیں اپنی دولت سے مرعوب کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اس کی ضرورت نہیں۔ اور پھر عثمان نامی نوجوان سے کہا کہ وہ مچان پہ رکھی بوری اٹھا لائے۔ عثمان بوری لایا تو کہا کہ اس میں جو کچھ ہے وہ نکال دو۔ عثمان نے بوری میں ہاتھ ڈالا تو نوٹوں کی گڈیاں نکلتی رہیں اور ڈھیر لگ گیا۔

نواب صاحب کا آدمی تھر تھر کانپنے لگا اور جانے کی اجازت چاہی تو مولانا عبدالسلام نیازی نے فرمایا:

’’جا اپنے نظام سے کہہ دے ہم کسی کے پاس جایا نہیں کرتے‘‘۔

بعد میں عثمان اور رمضان کے جی میں لالچ آئی اور دونوں نے بوری میں سے دو تین نوٹوں کی گڈیاں پار کرنی چاہیں تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بوری تو بالکل خالی تھی۔ اس واقعے کے چشم دید گواہ استاد رمضان نے یہ واقعہ خود شاہد صاحب کو سنایا تھا۔ جو 1967ء تک زندہ تھے اور کراچی میں رہتے تھے۔ اس خاکے نے تو آتش شوق کو مزید بھڑکا دیا اور پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ پھر دلی میں ڈاکٹر خلیق انجم سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھی بہت سی باتوں کی تصدیق کی۔ ان کا خاکہ میں بہت پہلے ہی پڑھ چکی تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے پرانی دلی کی ان گلیوں اور محلوں کی بھی نشاندہی کی جہاں مولانا رہتے تھے یا پائے جاتے تھے۔ اب مجھے ایک عجیب جستجو مولانا نیازی کے بارے میں پیدا ہو گئی، ان کے بارے میں جو بھی مضمون ملتا وہ میں ضرور پڑھتی۔ مجموعی طور پر بہت پراسرار شخصیت تھی مولانا کی۔ جوشؔ صاحب نے ’’یادوں کی برات‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔ پھر نصراللہ خاں نے اپنے شخصی خاکوں میں مولانا کا کیا خوب خاکہ لکھا ہے۔ آخری مضمون جو ان کے بارے میں پڑھا وہ جناب مسعود حسن شہاب کا تھا جو ’’الزبیر‘‘ کے خاکہ نمبر میں شائع ہوا تھا۔ مسعود صاحب دلی میں مولانا کے شاگرد بھی رہے۔ پھر تقسیم کے بعد بہاولپور آ گئے اور یہاں علم و عرفان، ادب اور صحافت کے چراغ روشن کرتے رہے۔

مولانا مودودی اور ان کے بھائی ابوالخیر مولانا عبدالسلام نیازی کے ہونہار شاگرد تھے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض نہایت قابل اور صاحب علم شخصیات صرف کتابوں کے صفحات اور لوگوں کے تذکروں تک محدود رہ جاتی ہیں اور پھر وقت کی گرد ایسی نابغہ روزگار شخصیات کو جلد فراموش کر دیتی ہیں۔ لیکن مجھے از حد خوشی ہوئی یہ جان کر کہ کچھ اور بھی دیوانے ابھی باقی ہیں، جو ایسی شخصیات کو اس لیے سامنے لاتے ہیں کہ ہر نسل کا اپنا ایک قرض ہوتا ہے جو اسے ادا کرنا چاہیے۔

سو مولانا نیازی پر لکھے جانے والے تمام مضامین کو بڑی محنت اور کاوش کے بعد راشد اشرف صاحب نے جمع کیا۔ اور بہاولپور سے ڈاکٹر شاہد حسن رضوی نے ان مضامین کو کتابی شکل میں لانے کا نیک فریضہ اس لیے انجام دیا کہ مولانا عبدالسلام نیازی جو واقعی ہر قسم کے لالچ اور ذاتی شہرت سے کوسوں دور تھے۔ ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی، لیکن وہ ڈاکٹر شاہد حسن کے والد کے استاد تھے۔ اور انھوں نے مسعود حسن شہاب دہلوی کی شادی پہ سہرا بھی لکھا تھا۔ دونوں حضرات کی کاوشوں سے بہت سے ایسے مضامین بھی پڑھنے کو ملے جو اس سے پہلے کبھی نظر سے نہیں گزرے۔ وہ واقعی حقیقی درویش اور مجذوب تھے۔

بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کوئی بہت ہی پراسرار شخصیت تھے۔ کیونکہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے۔ عجیب لوگ تھے جو اپنے علم و فضل کا چرچا پسند نہیں کرتے تھے۔ آج کیسے ’بابے، پیر، فقیر، سید اور شاہ صاحب۔ مارکیٹ میں موجود ہیں جنھیں حکمرانوں اور صاحبان اقتدار کے ذاتی جہاز لینے جاتے ہیں۔ اور وہ اپنے ’’کمالات‘‘ کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں عبدالسلام نیازی جیسے بے نیاز لوگ بھی موجود ہیں، جنھوں نے خود کو کبھی محراب و منبر کے قابل نہیں سمجھا۔ بھلا کتنے لوگ ہوں گے جو ان کے بارے میں جانتے ہوں گے؟ شاید چند ایک پڑھے لکھے اور بس۔۔۔۔!

یہ خیال رہے کہ مولانا کا انتقال 1966ء میں ہوا تھا۔ وہ کوئی تاریخ  قبل از مسیح کی ہستی نہیں تھے جو گمنامی میں گم ہو گئی۔ سماع سے بہت لگاؤ تھا، جمال پرست بھی تھے، موسیقی سے وابستہ غریب لوگوں کی دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ وہ بڑے نڈر انسان تھے 1947ء میں جب دلی میں فسادات ہوئے تو مسلمان ہندو اکثریتی محلوں سے نکل گئے۔ ان کی منہ بولی بیٹی اور داماد بھی پاکستان چلے گئے۔ لیکن مولانا اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ شرنارتھی اور فسادی خالی گھر دیکھ کر قبضہ کر لیتے تھے۔

مسلمان گھرانوں کی اکثریت جان بچانے کی خاطر بھرے پرے گھر چھوڑ کر پاکستان آ گئی۔ ان کے خالی مکانوں پر قبضہ ہونے لگا کہ ضرورت کا ہر سامان وہاں موجود تھا۔ ایک دن چار سکھ تلواریں لے کر اوپر آ گئے کہ ایک مسلمان بڈھا اکیلا رہتا ہے۔ خدا جانے کیا ہوا کہ ان چاروں کی نظر جوں ہی مولانا پر پڑی ان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کر سکے اور معافی مانگتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان پر دو تین بار فسادیوں نے حملہ کر کے گھر خالی کرانے کی کوشش کی۔ مگر حملہ آور جوں ہی مولانا کی کڑک دار آواز سنتا اور ان کی طرف دیکھتا۔ اگلے ہی لمحے وہ بھاگ کھڑا ہوتا۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔