آٹھ مسائل

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 24 مئ 2014

عظیم صوفی شاعر بھگت کبیرکہتا ہے کہ تمہارا محبوب تمہارے اندرہے اور تمہار ادشمن بھی تمہارے اندر ہے ۔ جب ہم اپنے چاروں طرف نظریں اٹھا کے دیکھتے ہیں تو ہمیں ہرطرف آدمی کا شکار آدمی ہی نظر آتا ہے۔ حضرت حاتم اصم ؒ کو جب اپنے مر شد حضرت شفیق بلخی ؒ کی خدمت میں رہتے ہوئے 33 برس گذرگئے تو ایک دن حضرت شفیق بلخی  ؒنے ان سے پو چھا حاتم تمہیں میرے پاس رہتے ہوئے کتنا عرصہ ہوگیا عرض کی 33 برس ۔ پھر پو چھا تم نے اس عرصے میں کتنے مسائل حل کیے عرض کی حضرت 8 مسائل ۔

حضرت شفیق بلخی ؒ نے فرمایا اتنی طویل مدت اور صرف آٹھ مسئلے، معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری عمر رائیگاں گئی ۔ حضرت حاتم  ؒنے عرض کی کہ اے استاد محترم میں جھوٹ بولنے سے طبعتاً نفرت کرتا ہوں فی الواقع میں صرف آٹھ مسائل ہی حل کرسکا ہوں ۔ حضرت شفیق بلخی  ؒنے فرمایا اچھا وہ کون سے آٹھ مسائل ہیں ذرا میں بھی سنوں ۔ حضرت حاتم  ؒنے عرض کی پہلا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ایک شخص کسی خاص شے کو محبوب رکھتا ہے جو تادم مرگ اس کے ساتھ رہتی ہے جب اس کا رشتہ حیات منقطع ہوجاتا ہے تو وہ اپنی محبوب شے سے جدا ہو جاتا ہے لیکن میں نے حسنات کو اپنا محبوب بنا لیا ہے جو مرنے کے بعد بھی میرے ساتھ رہیں گی ۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک آیت پر غورکیا اور اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پانے کی عادت ڈالی یہاں تک کہ میں حق تعالیٰ کی اطاعت میں راسخ ہوگیا۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر حسد کرتے ہیں چنانچہ میں نے اس بارے میں حق تعالیٰ سے رہنمائی چاہی تو اس کے کلام میں یہ پایا ’’ ہم نے تقسیم کیا ہے لوگوں میں ان کی ضروریات معاش کو ‘‘  اس حکم الہی کو میں نے ذہن نشین کر لیا اور حسد سے یکسر کنارہ کش ہو گیا جب قسمت اللہ کے یہاں ہے تو پھر خلق سے عداوت کیسی۔

چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ میں نے ہر شخص کو دیکھا کہ وہ کسی نہ کسی چیز پر بھروسہ کرتا ہے کوئی مال پر بھروسہ کرتا ہے کوئی زمین پر کوئی تجارت پر کوئی ہنر پر کوئی صحت پر کوئی آدمی پر لیکن جب میں نے اللہ کا کلام دیکھا تو اس میں یہ پایا ’’ جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہے ۔‘‘ پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے حسب و نسب ، مال متاع اور جاہ منصب پر نازاں ہیں میں نے ان چیزوں پرغورکیا تو محض بے کار معلوم ہوئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے‘‘ چنانچہ میں نے تقویٰ اختیار کیا حق تعالیٰ کے نزدیک بہتر قرار پائوں۔

چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہر شخص روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے اور ایسے ایسے کام کر گزرتا ہے جو نا جائز ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے ’’ کوئی جاندار نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو‘‘۔ ساتواں مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ جس شخص کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے وہ اس کو سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے اور مقدور بھر اس کی حفاظت کرتا ہے لیکن جب میں نے کلام اللہ کو دیکھا تو اس میں یہ پایا ’’ تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ سب ختم ہوجائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا ‘‘۔

آٹھواں مسئلہ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں، میں نے جب کلام الہی کی طرف رجوع کیا تو اس میں یہ پایا ’’ شیطان تمہارا دشمن ہے اس کو دشمن سمجھو ‘‘  حضرت شفیق بلخی  ؒنے یہ سن کر فرمایا اے حاتم  ؒ اللہ تجھ پر فضل کر ے میں نے تمام کتب سماوی پر غور کیا تو ان سب کی اصل یہ ہی آٹھ مسئلے پائے ہیں دوسرے سب مسائل ان ہی آٹھ مسئلوں کی شاخیں ہیں ۔

جو ناتھن گلوور بھی یہ ہی نتیجہ نکالتا ہے کہ ہمیں اپنے اندر چھپے ہوئے کچھ دیوئوں کو سختی سے اور واضح طریقے سے دیکھنے کی اور انہیں پنجرے میں بند کرنے اور پالتو بنانے کے طریقوں اور ذرائع پر غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ جب کہ عظیم فلسفی اپیکسٹیٹ  متنبہ کرتاہے کہ ’’ ہمیں اپنے جسم سے ورم ، پھوڑے اور رسولیاں دور کر نے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کر نے کی زیادہ فکر وکوشش کرنی چاہیے ۔‘‘ دیکھا گیا ہے کہ اکثر ساری عمر بیت جاتی ہے لیکن ہمیں زندگی کے اصل فلسفے کے متعلق علم ہی نہیں ہو پاتا اور جب علم ہوتا ہے تو آخری منظر سامنے ہوتا ہے یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے اصل فلسفے کو ساری عمر سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یا پھر زندگی سمجھانے سے گریزاں رہتی ہے یا پھر ہم سمجھ کر بھی سمجھ نہیں پاتے ہیں دونوں ہی صورتوں میں نقصان عظیم آدمی کو ہی ہوتا ہے۔

بات اصل یہ ہے کہ ہمارا دشمن ہم سے زیادہ مضبوط اور طا قتور ہے جو ہم سب کے اندر بیٹھا ہوا ہے ہم سب اس معاملے میں یکساں ہیں آپ کے عمل سے یہ معلوم ہوتا رہتا ہے کہ آپ اپنے اندر موجود محبوب کی مان رہے ہیں یا اپنے دشمن کی سن رہے ہیں۔ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ہمارے لیے سوچنے کی بات تو کچھ اور ہونی چاہیے تھی مگر ہمیں سوچنا کچھ اور پڑ رہا ہے آج افسوس وہی کچھ ہو رہا ہے جس کا خدشہ پہلے روز ہی سے موجود تھا۔ آج پھر سازشوں ، کشیدگی ،ِ محاذ آرائی کی جیت ہو رہی ہے اور سکون، اعتماد، اتفاق، اتحاد، مفاہمت کو بری طرح سے مات ہو رہی ہے یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ امیدیں پروان بھی نہیں چڑھنے پائیں کہ دم توڑ رہی ہیں جب سے ہمارے حکمران اقتدارمیں آئے ہیں ان کے اقدامات کی وجہ سے ملک کا بڑے سے بڑا بے وقو ف بھی اپنے آپ کو اچھا خاصا عقل مند ثابت کر نے میں کامیاب ہوچکا ہے۔

صحیح کہتے ہیں کہ سمجھ داری کی ایک حد ہوتی ہے لیکن بے وقوفی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور جب کوئی بے وقوف اپنے آپ کو سمجھ دار ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جائے تو پھر خیر کی کبھی خیر نہیں ہوسکتی لیکن ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ظاہر ہے ہمارے حکمران اسی سماج کی پیداوار ہیں، جس کو ان ہی آٹھ مسائل نے بری طرح سے جکڑ رکھا ہے ۔اب ہم کریں تو کریں کیا، جائیں توجائیں کہاں ، کیا ہم ہمیشہ خسارے میں رہیں گے کیا خسارہ ہمارا مقدر بن گیا ہے۔

کیا ہمیں ہمیشہ عقل سے پیدل افراد ہی نصیب ہونگے ۔ کیا کبھی ہمارا سماج حضرت حاتم  ؒ کی طرح آٹھ مسائل کو کبھی حل کر نہیں پائے گا کیا ہمیں کبھی سمجھدار ، دانش مند افراد کی حکمرانی نصیب ہو نہیں پائے گی، کیا ہم اپنے اندر موجود دیوئوں کو کبھی پنجرے میں بند اور انہیں پالتو بنا نہیں پائیں گے ،کیا ہم ہمیشہ اسی طرح ہی بھٹکتے اور ٹھوکریں کھاتے پھریں گے ۔کیا خدا کبھی بھی ہماری نہیں سنے گا۔ایسا ہو نہیں سکتا۔ہماری بھی سنی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔