ہم تو ہیں ہی نا شکرے…

شیریں حیدر  ہفتہ 24 مئ 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بھلا ہو ہمارے حکمرانوں کا جو کہ اپنی تیسری اننگ کھیل رہے ہیں اور ’’ کھل کر‘‘ کھیل رہے ہیں، کسی خوف کی تلوار ان کے سروں پر نہیں، صدر محترم یوں ہی انھوں نے ’’ ماڑے سے ‘‘ تاڑے ہیں۔ ہاں تو ذکر ہو رہا تھا ہمارے حکمرانوں کا، انھوں نے تو ہم پر بہت سے احسانات کیے ہیں، مثلاً موٹر وے کو ہی لے لیجیے… ہمیں چاہیے نا کہ اسے استعمال کریں، اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ ہم تو ہیں ہی نا شکرے، بجائے ان کا شکریہ ادا کرنے اور ان کے ’’ تحفے ‘‘ کو استعمال کرنے کے شکوے شکایات کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اس میں ان کا کیا قصور کہ ہم ان شہروں میں پیدا ہوئے، ان میں ہمارے والدین اور خاندان ہیں… جو کہ موٹر وے پر نہیں آتے، سارا قصور تو ہمارے شہر گجرات جیسے شہروں کا ہے نا جو کہ موٹر وے سے فاصلے پر ہیں اور ہمیں مجبوراً براستہ جی ٹی روڈ آنا پڑتا ہے۔

کھدا ہوا اسلام آباد ہر روز دیکھ دیکھ کر جب لاہور کی حدود میں داخل ہوئے تو پہلی نظر اسی میٹرو بس پر پڑی جو کہ خالم خولی یا پھر اپنے پیٹوں میں دو دو ، چار چارمسافروں کو بٹھائے اپنی منازل کی طرف رواں دواں نظر آئیں، چل تو رہی ہیں نا، حکمرانوں نے کہا تھا کہ روزانہ پونے دو لاکھ مسافر ان پر سفر کر سکیں گے… اب حکمرانوں کا کیا قصور؟ سارا قصور تو ان لوگوں کا ہے جو یا تو اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں یا اگر سفر کر بھی رہے ہیں تو اپنی اپنی گاڑیوں پر، عام بسوں پر، ویگنوں پر ، ٹیکسیوں اور رکشوں پر… بلاشبہ یہ سب لدی ہوئی نظر آئیں، بھئی جب ان لوگوں کو اس راہ جانا ہی نہیں جو کہ میٹرو بس کا راستہ بنتا ہے تو وہ کیوں میٹرو بسوں میں بیٹھیں؟

راوی کا پل… اس پر ساری گاڑیاں حسب معمول ٹریفک کے ایک طویل جام میں پھنسی ہوئی تھیں، بیس منٹ تک کا وقت لگ گیا، اس میں وہ میٹرو بسیں بھی کھڑی تھیں جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ غالباً سترہ منٹ میں پورا سفر طے کر لیتی ہیں!!! پل پر وہ ہماری طرح ہی بے بسی سے کھڑی ہوئی سوچ رہی تھی کہ کیا کریں۔ پل پار کیا اور رنگ روڈ پر داخل ہوئے تو نظر آیا کہ نیچے مٹی کے پہاڑ کھڑے ہیں، اب جانے اس رنگ روڈ پر جگہ جگہ کھدائی چہ معنی دارد؟ پوری تاریک رنگ روڈ ، جس پر بغیر بتیوں کے سائیکل بھی چلتے ہیں، رکشے بھی اور ٹریکٹر ٹرالیاں بھی، حادثات کی دعوت عام دیتے ہوئے…

سویرے حسب عادت اخبار اٹھایا تو شہ سرخی دیکھی، پاکستان میں پہلی میٹرو ٹرین چلانے کا معاہدہ… اب اس کی تفصیل سنیں، روزانہ ڈھائی لاکھ شہری سفر کریں گے، ٹریک 27  کلومیٹر طویل ہو گا اور اس میں سے 25.4کلومیٹر حصہ معلق ہو گا، ایسی میٹرو ٹرین دنیا بھر میں بہت سے ممالک میں چلتی ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اگر باہر کا سفر نہیں کیا تو فلموں ڈراموںمیں تو ضرور دیکھ رکھا ہو گا… بہر حال، وزیر اعلی پنجاب نے چین جا کر اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو کہ پاکستان اور چین کے درمیان طے پایا ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سب منصوبوں کی فزیبلٹی رپورٹ کون بناتا ہے؟ کون وزیر اعلی یا وزیر اعظم کو بتاتا ہے کہ ان کے ملک اور ان کے عوام کے لیے کیا اہم ہے؟ خدایا!!! پنجاب کے وزیر اعلی صاحب اور پنجاب ہی کے وزیر اعظم صاحب… ملک کے مسائل کو سمجھیں، کسی پڑھے لکھے شخص، کسی وزیر مشیر کی ضرورت بھی نہیں آپ کو، اپنے محلوں سے نکلیں، عام گاڑیوں میں ان راہوں پر سفر کریں جن پر عام آدمی سفر کرتا ہے۔

ایک دفعہ زمین پر قدم رکھیں تو علم ہو کہ قدموں تلے زمیں کیسی ہے۔ لاہور شہر سے آپ ذہنی اور جسمانی طور پر نہیں نکل سکتے تو کم از کم لاہور میں ہی کسی آئس کریم بیچنے والے سے پوچھ لیں،کسی رکشے والے سے پوچھیں، کسی مریض سے پوچھ لیں کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں۔آپ کو تو کسی منصوبے کی تکمیل کا ستائیس ماہ کا عرصہ چٹکیاں بجانے جتنا لگتا ہے نا، مگر پوچھیں اس سے جسے اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے کتنی سڑکوں کے گھماؤ پھراؤ کا سامنا ہر روز کرنا پڑتا ہے۔

خدارا… 1.6  ڈالر اس بے کار کے منصوبے پر خرچ کرنے کی بجائے اس سے بہتر کام کر لیں، کوئی اڑھائی لاکھ بندہ نہیں نکلنے والا ہر روز آپ کی یہ ٹرینیں استعمال کرنے کے لیے اور نہ ہی کسی کو آپ کے جانے کے بعد ان منصوبوں کی قدر ہو گی، یہ بھی علم نہیںکہ آپ ان منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا پائیں گے یا نہیں۔ ان منصوبوں سے کہیں اہم ہے کہ موجودہ اہم ترین شاہراہ یعنی جی ٹی روڈ کو ٹھیک کریں، دریاؤں پر موجود ان پلوں کو چوڑا کردیں جو کہ اہم ترین شہروں کے آغاز میں واقع ہیں اور ان شہروں میں داخلے کو گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔

جی ٹی روڈ پر ہر پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ٹال ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو کہ نہ جانے کن کی جیبوں میں جاتا ہے کیونکہ ان کی رسید فقط مطالبہ پر دی جاتی ہے۔ شہروں کی اندرونی سڑکوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے اور اس سے بڑھ کر ہمارے دیہات کی سڑکیں ہیں، ان کو تو بھول ہی جائیں کہ ان کی شنوائی ہو سکتی ہے کیونکہ دیہات میں رہنے والوں کو انسان کون سمجھتا ہے، انھیں فقط تب انسان سمجھا جاتا ہے جب ان سے ووٹ لینا ہوتے ہیں۔

اگر صرف کرنا ہی ہے تو یہ پیسہ تعلیم پر لگائیں، طبی سہولیات کو بہتر کرنے پر لگائیں، سڑکوں پر لگائیں، عوام کو بجلی اور گیس کی فراہمی پر لگائیں۔ اس کے لیے نئے منصوبے شروع کرنے کی نہیں، بلکہ پرانے اور موجودہ وسائل کو ہی بہتر کرنے کی ضرورت ہے، مگر شاید اس سے خبر نہیں بنتی، فیتے نہیں کٹتے، تختیاں نہیں لگتیں، کامیابیوں کے سہرے نہیں سجتے!!!!

اب لاہور میں رنگ روڈ کے نواح میں ہونے والی کھدائیاں جانے کس منصوبے کا حصہ ہے مگر اس سے وابستہ کوفت تو فقط ان لوگوں کے لیے ہے جو کہ اس کے متاثرین میں شمار ہوتے ہیں، مگر وہ لوگ احتجاج کے سوا کیا کر سکتے ہیں، ہمارے ہاں تو کسی کا احتجاج بھی رجسٹر نہیں ہوتا۔ جو لوگ اس سے ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں، خود سوزی یا کوئی ایسا اور سنگین اقدام کر لیں تو چار دن خبروں کا حصہ بنتے ہیں، اعلی حکام کی نظر میں آتے ہیں اور پھر اپنی نظر سے بھی گر جاتے ہیں۔

اپنے دامن میں سمیٹنے کی یقینا کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے، اپنے کارندوں کو، اپنے نمائندوں کو اور اپنے پارٹی کارکنوں کو بتائیں کہ فلاح کا مطلب عام آدمی کی فلاح ہے، عوام ہیں تو اس پر حکمرانوں کا وجود ہوتا ہے۔ کوئی حکمران اینٹوں اورگارے سے بنے گھروں کا ہوتا ہے ، سڑکوں اور گلیوں کا نہ کنکریٹ کی بلند و بالا عمارتوں کا، حکمران وہ جو عام آدمی کے مسائل سے آشنا ہو، ان کے دکھ اور درد کو سمجھتا ہو، اس کا احساس رکھتا ہو، اس کے حل کے لیے سر توڑ کوشش کرتا ہو اور جب کوشش خلوص نیت سے کی جاتی ہے تو کبھی ناکام نہیں ہوتی۔

اگر آپ کے وزیر مشیر مصروف ہیں یا انھیں عام آدمی کے مسائل کا ادراک نہیں تو کچھ ان سے کم عقل لوگوں سے رابطہ کرلیں، عام لوگوں سے مل لیں، دکانداروں سے، ٹرانسپورٹرز سے، خواتین کے وفود سے، بھتہ خوری کا شکار ہونے والوں سے اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے۔ کم از کم آپ کو سچی تصویر مل جائے گی مسائل کی، آپ کو علم ہو گا کہ سب اچھا نہیں ہے، پھر آپ کی مرضی پر منحصر ہے کہ آپ عام آدمی کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں یا پھر اس طرح جانا چاہتے ہیں کہ… جن کی داستاں بھی نہیں ہے داستانوں میں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔