شکل مومناں اور کرتوت

مختار علی اعوان  پير 26 مئ 2014
زمین سے اُگ پڑنے والے تین جُہل زادوں کی خباثت۔ فوٹو: فائل

زمین سے اُگ پڑنے والے تین جُہل زادوں کی خباثت۔ فوٹو: فائل

مانسہرہ: 12 مئی کا دن اس بچی (پ) پر بہ ظاہر ہنستا مسکراتا طلوع ہوا تھا لیکن اس کی نحوست دن کے 12 بجے کے قریب اس وقت ظاہر ہونا شروع ہوئی جب وہ پرچہ دے کر اپنی دوست (الف) کے ساتھ امتحانی سنٹر (اسکائی انٹرنیشنل اسکول) سے نکلی۔

دونوں چلتے چلتے غالباً پیپروں کی ہی باتیں کر رہی تھیںکہ اچانک وہ ہوگیاکہ ۔۔۔۔ جس تس نے سنا، سن نہ سکا۔ واقعے کی تفصیل پرچے میں درج کرائے گئے ’پ‘ کے بیان کے مطابق کچھ یوں ہے:-

’’ 12 مئی کو دن کے 12 بجے میں امتحانی سنٹر نکل کر ’الف‘ کے ساتھ گھرجا رہی تھی کہ راہ میں قاری نصیر اپنی کالے شیشوں والی سیاہ کرولا ہائبرڈ کے پاس کھڑا تھا، جس کا نمبر AG-447 ہے، اس کے ساتھ حسین جان بھی تھا، ’الف‘ نے مجھے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا، میں نے انکار کردیا مگر اس نے زبردستی مجھے گاڑی میں دھکیل دیا اور خود بھی بیٹھ گئی، قاری نصیر ڈرائیونگ سیٹ پر اور حسین جان اگلی سیٹ پر بیٹھا، دروازے لاک کر دیے گئے اور گاڑی شاہ راہ ریشم سے بالا کوٹ روڈ کی طرف روانہ ہوگئی، میں نے احتجاج کیا لیکن قاری نے اونچی آواز میں میوزک لگا دیا۔

بالا کوٹ روڈ پر ایک جگہ پولیس دیکھ کر نصیر نے گاڑی واپس موڑلی اور آگے چل کر ایک جگہ روک لی، میں نے دیکھا کہ گاڑی کی ڈکی سے فیضان (عرف فیضی) برآمد ہوا اور پچھلی سیٹ پر ’الف‘ کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اب قاری نے ایبٹ آباد کا رخ کیا اور غازی کوٹ کے مقام پر ڈرائیونگ سیٹ حسین جان کے حوالے کرکے پچھلی سیٹ پر آیا اور پھر مجھ پر مجرمانہ حملہ کردیا، قلندر آباد پہنچ کر فیضان عرف فیضی نے یہ ہی خباثت دہرائی، اس دوران گاڑی ایبٹ سآباد APS اسکول تک پہنچ گئی، جہاں سے ملزموں نے واپس مانسہرہ کا رخ کیا اور ہمیں اتار دیا، یہاں ہمیں آنسو بہاتا دیکھ کر چند افراد نے پولیس کو موقع پر طلب کرلیا‘‘۔

واقعہ کی خبر ملتے ہی مانسہرہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ پولیس نے ڈی پی او خرم رشید کی خصوصی ہدایت پر رات چار بجے سے پہلے تینوں ملزموںکو گرفتار کرلیا۔ پہلے تو یہ ا فواہ پھیلی کہ ایک دولت مند صراف نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مذکورہ حرکت کی ہے لیکن 13 مئی کو صبح 11 بجے ڈی ایس پی ذوالفقار جدون نے پریس کانفرنس میں بتایاکہ قاری نصیر نے کاوش خان کے نام سے جیولری شاپ کے وزیٹنگ کارڈ بنوائے ہوئے تھے؛ مختلف کمپنیوں کی 22 سمیں، 3 قیمتی موبائل، 25 لاکھ روپے کی گاڑی اور ہزاروں ڈالر الگ اس سے  برآمدہوئے، ایک موبائل فون میں 20 فحش فلمیں بھی تھیں۔

ملزم عرصے سے معصوم لڑکیوں کو درندگی کا نشانہ بناتا آرہا تھا، دولت مند خواتین کو بلیک میل کرکے پیسے بھی وصول کیا کرتاتھا۔ قاری نصیر بچپن ہی سے جنسی بے راہ روی کا شکار ہے، نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں، جیولرز کے وزیٹنگ کارڈ اور جیب میں رکھے ڈالر وغیرہ اس کے ہتھیار تھے۔ وہ کوئی معصوم لڑکی شکار کرتے اور پھر اسی کے ذریعے مزید لڑکیاں پھانستے، یہ گینگ ان کی فحش فلمیں بناتا اور پھر ان کے ذریعے مزید لڑکیوں کو گھیرتا اور بلیک میل کرتا۔

اطلاع کے مطابق مسماۃ الف کا بھی ریمانڈ لیا گیا ہے۔ ملزموں کو جب عدالت میں پیش کیا جارہاتھا تو ہزاروں بپھرے ہوئے لوگوں نے ان پر سیاہیاں پھینکیں، ان پر تھوکا، نوجوانوں نے گندے انڈے اور سڑے ٹماٹر مارے۔ اس موقع پر قاری کے چیلوں کی آنکھیں تو جھکی ہوئی تھیں مگر ’’قاری خبیث‘‘ ڈھٹائی سے لوگوں کو دیکھتارہا، ایک موقع پر وکلا نے ان بھیڑیوں پر جھپٹنے کی بھی کوشش کی مگر پولیس نے انتہائی مشکل سے انہیں بکتر بند گاڑی میں ڈال کر نکالا۔

ریمانڈ کے چاروں دن خطرے کے پیشِ نظرملزموں کو مانسہرہ پولیس لائن میں رکھا گیا۔ اتوار 18 مئی کو انہیں سخت سیکیوریٹی میں میجسٹریٹ آن ڈیوٹی عامر علی آفریدی کی عدالت میں پیش کیا گیا، اس موقع پر میڈیا اور غیر متعلقہ افراد کو سڑک سے ہٹا دیا گیا مگر اس کے باوجود عدالت کے باہرلوگوں نے ملزموں کے خلاف نعرے لگائے، قریب ہی پولیس گرائونڈ میں کھیلتے چھوٹے بچے ڈنڈے، وکٹیں، بیٹ اور پتھر اٹھائے عدالت کے باہر پہنچ گئے اور ’’عزت کے لٹیروں کو پھانسی دو! پھانسی دو!‘‘ کے نعرے لگانے لگے۔

عدالت نے مزید ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر ملزم پولیس کے حوالے کر دیے۔ عوام کے پرزور احتجاج پر ملزموں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ بھی کیا گیاتھا، جس پر 19 مئی کو ایبٹ آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دس روزہ الگ جسمانی ریمانڈ دیا گیاہے۔ فی الوقت موبائل اور سمز کی رپورٹ کا بھی انتظار کیا جا رہاہے۔ شہریوں نے خبردار کیا ہے کہ قاری نصیر اور اس کے ساتھیوں کو پھانسی سے کم سزا دی گئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے، ان کا کہنا ہے کہ گینگ ریپ کے جرم میں اگر سیکیولر بھارت میں چھے افراد پھانسی چڑھائے جا سکتے ہیںتو اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں بھی ایسا ہو سکتاہے۔

مقامی لوگ قاری نصیر کو دیکھ کر حیرت کرتے تھے کہ نئے ماڈل کی گاڑیوں میں گھومنے والے اس قاری کے خاندان کو چند سال پہلے گدھا تک نصیب نہیں تھا۔ ایکسپریس کو معلوم ہوا ہے کہ اس قاری اور اس کے خاندان نے بھی مضاربہ اسکینڈل میں لوگوں سے بھاری رقوم بٹوری ہیں، سادہ لوگ ان کی داڑھیوں اور نمازوں کے فریب میں بآسانی آ جاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے افراد کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جہالت زادے اپنی ماؤں کے پاک بطنوں سے پیدا نہیں ہوئے بل کہ ازخود زمین سے اُگ پڑے ہیں، اسی لیے شہوات کی غلظت میں لتھڑے یہ لوگ بہن، بیٹی، ماں جیسے رشتوں کی تقدیس کا ادراک نہیں رکھتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔