کاکروچ فارمنگ؛ چین میں تیزی سے اُبھرتی صنعت

ندیم سبحان  پير 26 مئ 2014
کاکروچوں کے پروں میں سیلولوز جیسا ایک مادّہ بھی پایا جاتا ہے جو دواؤں اور کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔  فوٹو : فائل

کاکروچوں کے پروں میں سیلولوز جیسا ایک مادّہ بھی پایا جاتا ہے جو دواؤں اور کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

 چین میں کاکروچ  پالنے  کا کاروبار ( کاکروچ فارمنگ) تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔

43 سالہ وینگ فیومنگ چین میں (  اور غالباً  دنیا بھر میں) کاکروچوں کا سب سے بڑابیوپاری ہے۔ وینگ نے چھے فارم ان حشرات کے لیے مختص کر رکھے  ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق  ایک کروڑ کاکروچ موجود ہیں۔

وینگ کاکروچوں کو تیار ہوجانے  کے بعد ادویہ ساز اداروں  اور بناؤ سنگھار کی اشیاء ( کاسمیٹکس ) بنانے والی کمپنیوں کو فروخت کرتا ہے۔ ان کمپنیوں کے لیے یہ کیڑے پروٹین کے حصول کا سستا ذریعہ ہیں جو ان کی مصنوعات کا اہم جزو ترکیبی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پروں میں سیلولوز جیسا ایک مادّہ بھی پایا جاتا ہے جو دواؤں اور کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

چین میں کم از کم پانچ ادویہ ساز کمپنیاں روایتی دواؤں کی تیاری میں کاکروچوں کا استعمال کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ چین اور جنوبی کوریا میں گنج پن، ایڈز اور سرطان جیسے امراض کے علاج میں کاکروچوں کی افادیت پر تحقیق بھی جاری  ہے۔ دونوں ممالک  کے تحقیقی اداروں نے کاکروچ  کی طبی افادیت  پر تحقیقی مقالے بھی شائع کیے  ہیں۔

کاروباری نقطۂ نظر سے امریکن کاکروچ زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ یہ سرخی مائل بھورا کاکروچ ہوتا ہے جس کی لمبائی  ڈیڑھ انچ تک ہوتی ہے۔ کاکروچ فارمنگ کتنا نفع بخش کاروبار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا  ہے کہ پچھلے چار برس کے دوران ان حشرات کی قیمت میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔

وینگ نے 2010ء میں کاکروچ فارمنگ  شروع کی تھی۔ اس وقت  ایک پونڈ مرُدہ کاکروچوں کی قیمت دو امریکی ڈالر کے مساوی تھی جو اب 20 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ روایتی ادویہ بنانے والی کمپنیاں خشک کاکروچ خرید کرن ان کا سفوف بنالیتی ہیں جسے ذخیرہ کرلیا  جاتا  ہے۔ اور پھر حسب ضرورت استعمال میں لایا جاتا ہے۔

وینگ کا کہنا ہے کہ پہلے پہل اس نے سور پالنے کا سوچا تھا، مگر اس میں منافع کی شرح  بہت کم تھی لیکن کاکروچ فارمنگ  میں صرف 20 یوآن ( 3.25 ڈالر )  کی سرمایہ کاری کرکے 150 یو آن (11 ڈالر ) کمائے جاسکتے ہیں۔

چین میں اس وقت کاکروچوں کی افزائش کے ایک سو کے لگ بھگ فارم موجود ہیں اور ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا  ہے کیوں کہاب زیادہ سے زیادہ لوگ اس نفع بخش کاروبار کی طرف متوجہ  ہورہے ہیں۔ تاہم  اس نئی صنعت سے گذشتہ برس اگست سے پہلے تک چینیوں کی اکثریت ناواقف تھی۔ یہ کاروبار اس وقت عوام الناس کی توجہ کا مرکز بنا  جب صوبہ جیانگ سو میں واقع ایک فارم سے حادثاتی طور پر لاکھوں کاکروچ نکل کر قرب و جوار کی آبادیوں  میں داخل ہوگئے۔ اس واقعے کو چینی ذرائع ابلاغ میں نمایاں کوریج  ملی اور اس کے ساتھ ہی یہ نفع بخش کاروبار بھی لوگوں کے علم میں آگیا۔

لڑکپن میں وینگ کو کیڑے مکوڑے پکڑنے کا شوق چرایا چناں چہ اس نے بھونرے اور بچھو پکڑنے شروع کردیے۔ یہ دونوں حشرات بھی روایتی چینی ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ بعد میں وینگ نے باقاعدہ ان کی فروخت شروع کردی۔ وہ بچھو اور بھونرے پالتا تھا اور فروخت  کردیتا تھا۔ ایک بار بھونروں کے انڈوں سے لاروے نکلنے شروع ہوئے تو وینگ نے دیکھا کہ ان میں سے نصف کے لگ  بھگ لال بیگ تھے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ بھونروں کے انڈوں میں کسی طرح لال بیگ کے انڈے بھی شامل  ہوگئے تھے۔ وینگ کو احساس ہوا کہ کاکروچوں کی ’ پرورش ‘ کرنا بہت ہی آسان ہے۔

پھر جب اسے معلوم  ہوا کہ یہ بھونروں اور بچھوؤں سے زیادہ منافع بخش ہیں تو اس نے باقاعدہ  کاکروچ فارمنگ شروع کردی۔ اس کاروبار کے لیے کچھ زیادہ سرمایہ بھی درکار نہیں تھا۔ وینگ نے صرف کاکروچوں کے انڈے خریدے، ایک متروک  مرغی خانہ کرائے پر حاصل کیا۔ کاکروچوں کی افزائش نسل کے لیے درکار ماحول پیدا کرنے کی غرض سے اس میں مناسب تبدیلیاں کیں اور کاروبار کا آغاز ہوگیا۔ کاکروچوں کو عام  گھریلو مویشیوں جیسی بیماریاں لاحق نہیں ہوتیں۔ یہ سبزی خور ہوتے ہیں اور گلی سڑی سبزیاں ان کی مرغوب غذا ہوتی  ہیں۔ وینگ کچرے کے ڈھیر میں سے گلے سڑے آلو  اور لوکی کے چھلکے لے آتا ہے جو قریبی ریستوراں وہاں پھینک دیتے ہیں۔

دوا ساز اور کاسمیٹک کمپنیوں کو فراہم کرنے سے پہلے  کاکروچوں کی ’ تیار فصل ‘ کو کھولتے ہوئے پانی  میں ڈالا جاتا ہے اور مرے ہوئے کاکروچوں کو دھوپ میں  خشک کرلیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے مرچیں سوکھنے کے لیے دھوپ میں رکھ دی جاتی ہیں۔

کاکروچ فارمنگ  کا دائرہ وسیع ہونے کے باوجود چین میں اب بھی یہ ایک’  خفیہ ‘ صنعت ہے۔ اس  صنعت سے وابستہ  افراد آبادیوں سے دور کاکروچ فارم قائم کرتے ہیں اور ان کی تشہیر سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا یہ خیال  ہے کہ لوگ اس بات کو پسند نہیں کریں گے کہ ان کے آس پاس کاکروچوں کی افزائش کی جارہی ہے۔ ایک اور وجہ  یہ ہے کہ کچھ ادویہ ساز کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کے اس ’ خفیہ جزو ترکیبی‘ کو ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔

دوسری جانب حکومت نے بھی انھیں رعایت دے رکھی ہے مگر وینگ کا خیال ہے کہ اگر  اس صنعت کو بہت زیادہ توجہ ملی یا کاکروچ فارمز کو رہائشی علاقوں میں منتقل کیا گیا تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔