تبدیلی

طلعت شبیر  پير 26 مئ 2014

منزل پر پہنچنے کے لیے منزل کی جانب رُخ بھی بہت ضروری ہے۔اگر آپ کراچی کو منزل جان لیں اور پشاورکی ٹرین میں سوار ہوجائیں تونہ صرف سرمائے اور وقت کے زیاں کا ارتکاب کریں گے بلکہ لمحہ بہ لمحہ منزل سے بھی دُور ہوتے جائیں گے۔

کسی بھی محبِ وطن پاکستانی کے لیے یہ امر اِس قدر تکلیف دہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست ستر برس کی ہوا چاہتی ہے اور حالات ایک غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر برس بہت زیادہ لمبی عمر تصور نہیں ہوتے لیکن فعال طبقات اور اہلِ فکر و نظر کے لیے یہ امر ضرور پریشانی کا باعث ہونا چاہیے کہ کیا پاکستان اپنے سیاسی،معاشی اور معاشرتی اہداف کے حصول کے لیے دُرست سمت میںسفر کر رہا ہے؟ ساٹھ ستر برس بہرحال قوموں کی زندگی میں مسافت اور منزل کی سمت طے کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔دُرست سمت میں پیش قدمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی دُرست منزل کے چناؤ کا فیصلہ۔

پاکستان تاریخ کے نہایت اہم اور فیصلہ ساز موڑ پر آن کھڑا ہے۔وہ تمام قوتیں جو پاکستان کو ایک عظیم مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں اور بد قسمتی سے وہ قوتیں جن کے مفادات ایک کمزور اور غیر متوازن ریاست سے وابستہ ہیں باہم مقابل ہیں۔پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں موافق اور مخالف قوتوں کا ایسے سر گرمِ عمل ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن اِس صورتِ حال میں یہ ضروری ہے کہ وہ قوتیں جو پاکستان کے استحکا م کی خواہاں ہیں وہ اپنی ترجیحات کو دُرست کریں۔

قریب قریب تمام سیاسی قوتوں اور اداروں کا اِس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ پاکستان کی تمام اندرونی اور بیرونی مشکلات کا حل اِس میں ہے کہ موجودہ نظام میں ہر سطح پر کچھ جامع تبدیلیاں لائی جائیں جو عام آدمی کے معاشی اور معاشرتی معاملات سے لے کر اداروں کی حدود و اختیارات تک ہر معاملے پر مرکوز ہوں اور پاکستان کوصحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانے میں ممد ہوں۔

شاید اِسی لیے گزشتہ سالوں میں تبدیلی کی اصطلاح ایک ایسے نعرے کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی بازگشت ملک کے طُول وعرض میں سُنائی دے رہی ہے۔ تمام سیاسی اور سماجی تنظیموں، سول سوسائٹی اور ادارے بشمول میڈیا میں تبدیلی کے ایجنڈے پر متفق ہیں لیکن اِس کے خدوخال پر مبہم ۔کیونکہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا تبدیلی کے حصول کے لائحہ عمل کا زاویہ مختلف ہے۔ پاکستان میں تبدیلی کی لہر بلاشبہ نئی ہے لیکن یہ کوئی اچھوتا خیال بھی نہیں ہے کیونکہ یہ political developmentکے نام سے ترقی یافتہ دُنیا میں عشروں سے رائج ہے۔

اِس وقت پاکستانی منظرنامہ دوبڑے نظریاتی گروہوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ ایک اسٹیٹس کو یعنی موجودہ نظام کو جاری رکھا جائے اور دوسرا انٹی اسٹیٹس کو یعنی موجودہ نظام میں معشیت،معاشرت اور گورننس کی مد میں غیر معمولی تبدیلیا ں لائی جائیں ۔یہ دونوں نظریاتی گروہ اپنے اپنے منشور میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ تبدیلی کو اِس وقت رائے عامہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اور کوئی بھی قوت خواہ وہ سیاسی مذہبی یا سماجی ہو وہ خود کو رائے عامہ سے نہ تو الگ رکھ سکتی ہے اور نہ اُس کے خلاف جا سکتی ہے۔جو قوتیں اسٹیٹس کو کی قوتوں کے طور پر سامنے ہیںوہ بتدریج تبدیلی کی بات کرتی ہیں اور جو انٹی اسٹیٹس کو قوتیں ہیں وہ نظام میں فوری بڑی تبدیلیوں کی خواہاں ہیں۔

تبدیلی دو طریقوں سے ممکن سمجھی جاتی ہے۔ انقلابی عمل اور ارتقائی عمل۔انقلاب لغوی معنوں میں ایک سخت گیر اصطلاح ہے اور بہت سارے ذمے دار راہ نما یا افراد جب اِس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو اُن کا مطلب میرے خیال میں وہ نہیں ہوتا جو اِس اصطلاح کا مفہوم ہے۔وہ اِس اصطلاح کو اِستعمال کر کے اپنے موقف کو پُرزور انداز میں بیان کرنے کی سعی کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قوت ،جماعت یا گروہ اگر آئین میں موجود کچھ شقوں پر عمل درآمد چاہتی ہے تو وہ حقیقت میں انقلاب نہیں بلکہ آئین میں پہلے سے دیے گئے طریقہ کار پر عمل درآمد کا ایشو ہے۔ اِسی طرح اگر بجلی کے نظام میں تین سو میگا واٹ شامل ہو گیا ہے تو یہ انقلاب کیونکرہو سکتا ہے۔

انقلاب کی ضمن میں دانشوروں کی رائے مختلف ہے ۔ کچھ کا خیال ہے پاکستان کے معروضی حالات فوری طور اس لُغوی انقلا ب کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ انقلاب کے لیے چند بہت ضروری محرکات کا ہونا لازم ہو تا ہے جو کم از کم اِس وقت موجودنہیں ہیں اور اِس ضمن میں انقلابِ فرانس کی مثال دینا تاریخ کی سمجھ نہ ہونے کے مترادف ہے۔ چند دانشور یہ خیال کرتے ہیں کہ پاکستانی مزاجا انقلابی نہیں ہیں اِس لیے انقلاب یہاں ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔لیکن کچھ کی رائے ہے کہ یہ موقف بھی اِس لیے زیادہ مستند نہیں کہ انقلاب اپنے تمام جملہ عناصر کو خود متحرک کرتا ہے۔

تبدیلی کا دوسرا راستہ ارتقاء ہے۔ارتقاء مرحلہ وار نشوو نما اور بتدریج تبدیلی کا نام ہے۔مثبت تبدیلی مزاجا ارتقائی ہوتی ہے اور یہ اجتماعی طور پر عمل پذیر ہوتی ہے۔ معاشرے میں بہت ساری تبدیلیاں بیک وقت ہو رہی ہوتی ہیں۔لوگوں کا سیاسی و سماجی شعور ، معاشرتی حقوق و فرائض کا ادراک ، قومی ذمے داریوں کا احساس بہتری کی طرف جاتے ہوئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور یہی عوامل ریاستی اداروں کی تشکیل و تعمیرمیںاہم ہوتے ہیں۔

اگر کوئی یہ کہے کہ پا کستان میں تبدیلی آچکی ہے تو یہ بات ارتقاء کے تناظر میں ٹھیک ہے کہ کسی چیز کا ادراک اور شعور ہونا بھی ارتقائی عمل کا ایک اہم جزوہے اوراِس کے بعد مرحلہ وار ادارے اور افراد کچھ اُصول و ضوابط اور اخلاقیات کے تحت آجاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ میڈیا کو ایک بے لگام ادارہ سمجھتے ہیں اور یہ کسی حد تک دُرست بھی ہے لیکن رفتہ رفتہ شعور ،اُصول و ضوابط اوررفتہ رفتہ نمو پاتی اخلاقیات کے زیرِاثر ادارے اپنی مناسب حدود و قیود اور مقام پر واپس لوٹ جاتے ہیں۔اداروں کا مزاج اور افراد کے رویے بتدریج تشکیل پاتے ہیں۔یہ کسی انقلاب کی صورت میںبھی نقطہ ِ آغاز سے شروع ہوتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی حد تک انقلاب بھی آخرکار ارتقاء کے عمل کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔

تبدیلی ایک خوبصورت اصطلاح ہے لیکن یہ راتوں رات ممکن نہیں ۔اِس کے لیے ایک صبر آزما جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تبدیلی کبھی سُرعت سے نہیں آئے گی اور اگر آئے گی تو اپنے اندر بہت سے سقم ساتھ لائے گی۔ اِس لیے ضروری ہے کہ معاشرے اور ریاست میں مثبت تبدیلی کے لیے سوچ رکھنے والے لوگ ادراک کریں اور اِس کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ایک خاکہ ترتیب دے کر مسلسل جدوجہدکریں اور چونکہ تبدیلی کسی ایک خاص جماعت یا گروہ پہ مرکوز نہیں ہوتی اِس لیے معاشرے اور ریاست کے تمام عناصر کو ہر سطح پر افراد کو متحرک کرنا ہو گا۔ چونکہ تبدیلی کا تعلق افراد کے رویے کی تبدیلی سے بھی ہے اِس لیے اِس عمل کو بتدریج تکمیل پانا ہو گا۔

ایک بات بہرحال طے ہے کہ مثبت اور پائیدار تبدیلی ایک ارتقائی عمل کے ذریعے سے آئے گی۔ اور ارتقائی عمل اپنی کئی صورتوں میں ظہور پذیر ہے۔ملکی حالات میں مایوسی کا تسلسل اور بہت سے معاملات میں ابہام ضرور ہے لیکن یقینی طور پر قطعی نااُمیدی بھی د ُرست نہیں۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ منزل کی جانب رُخ کے لیے ہر فرد کاکردار اتنا ہی اہم ہے جتناکسی بھی قومی سطح کے راہ نما کا۔معاشرے اور ریاست میں مثبت تبدیلی کے حصول کی ذمے داری رہنما کے سُپرد کر کے سو جانے والا فرد منزل سے لمحہ بہ لمحہ منزل سے بھی دُور ہو جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔