زراعت پرآمدن ٹیکس نہ لینے کا تاثردرست نہیں، وزیر اعلیٰ سندھ

اسٹاف رپورٹر  منگل 27 مئ 2014
زرعی ٹیکس نظام میں ناہمواریاں درست کرنے کیلیے کمیٹی تشکیل،ترمیمی مسودہ پیش کرنے کی ہدایت فوٹو: فائل

زرعی ٹیکس نظام میں ناہمواریاں درست کرنے کیلیے کمیٹی تشکیل،ترمیمی مسودہ پیش کرنے کی ہدایت فوٹو: فائل

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سندھ صوبے میں زرعی ٹیکس سسٹم میں ناہمواریوں اور امتیازی طریقہ کارکی درستگی کی خاطرقوانین میں ترامیم کرنے کے لیے ڈاکٹرسکندرمیندھرو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور کمیٹی کوہدایات کی ہے کہ وہ کاشتکاروں کی نمائندہ تنظیموں اوردیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد قوانین میں ترامیم تجویزکرکے مسودہ سندھ اسمبلی میں پیش کریں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے زراعت پرآمدن ٹیکس نہ لینے والے تاثرکوردکرتے ہوئے کہا کہ زرعی  شعبے پرزرعی ٹیکس سمیت بہت سارے ٹیکس پہلے ہی لاگو ہیں اورلیے بھی جارہے ہیں لیکن ان کی میڈیامیں تشہیر نہیں ہوتی۔ ان خیالات کااظہارانھوں نے آج وزیراعلیٰ ہاؤس میں زراعت پرآمدن ٹیکس کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ زرعی شعبے پرسندھ لینڈٹیکس،زرعی آمدن ٹیکس، واٹر ٹیکس، ڈرینیج ٹیکس،لوکل سیزٹیکس اور زرعی ان پٹ کی مد میں دوسرے بلاواسطہ ٹیکس لاگو ہیں لیکن نہ توان کی میڈیا میں تشہیر کی جاتی ہے اورنہ ہی ان میں موجود ناہمواریوں کی اصلاح کی جاتی ہے یا اسے  صحیح طریقے سے وصول کیاجاتا ہے، ریونیو افسران نے بھی اس ضمن میں اپنا کردار نہیں نبھایا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ڈاکٹر سکندر میندھرو کو ہدایت کی کہ وہ موجودہ قوانین میں امتیازی تفریق کی نشاندہی کرکے انھیں ختم کرنے کیلیے انصاف پرمبنی ایسا ترامیم کا ڈرافٹ تیار کریں جس کے تحت آبادگاروں کو بھی ٹیکس کی سلیب(چھوٹ والی آمدن کی اوپری حد) رعایت اور دوسری سہولتوں کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے  چیف سیکریٹری سندھ اور ریونیو اتھارٹیزکو ہدایت کی کہ وہ اپنے ریونیوافسران کو درست ٹیکس وصولی کے لیے تیار رکھیں۔ اس موقع پر پارلیمانی امور کے صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے اجلاس کو بریفنگ میںبتایا کہ انھوں نے آبادگاروں کی مختلف تنظیموں کے  نمائندگان سے ملاقاتیں کیں جس کے نتیجے میں انھیں ٹیکس نظام میں بہت سی ناہمواریاں اور امتیازی قانون کا علم ہوا۔ انھوں نے بتایاکہ پنجاب میں زرعی آمدن ٹیکس کی چھوٹ کی حد کو80 ہزارسے بڑھاکر4 لاکھ روپے تک کیاگیا ہے جبکہ سندھ میں ابھی تک 80 ہزارہی ہے  جوکہ غیرمنصفانہ عمل ہے۔ اس طرح کئی ایسے دیگرایشوزہیں جنھیں انصاف کے تحت حل کرناہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔