انتقام کی انگیٹھی

آفتاب احمد خانزادہ  منگل 27 مئ 2014

چلوہمارے حکمرانوں اور خواتین کی ایک بات تو مشتر ک نکلی تازہ ترین برطانوی ماہرین کی تحقیق کے مطابق خواتین بولتی ہیں تو بس بولتی ہی رہتی ہیں۔خواتین ایک دن میں نسبتاً پانچ گھنٹے بے مقصد باتوں اورگپوں میں ضا یع کرتی ہیں۔ ایک عا م عورت نیند سے بیداری کے بعد ایک تہائی یا پانچ گھنٹے گپ شپ میں گذارتی ہے اوریہ ہی بات ہمارے حکمرانوں میں بھی ہے وہ بولتے ہیں تو بس بولتے ہی رہتے ہیں بے مقصد باتوں میں اپنا اور قوم کا وقت ضایع کیے جارہے ہیں وہ یہ بات تو ثابت کرنے میں کا میاب ہوگئے ہیں کہ وہ کام کے نہیں بلکہ باتوں کے شیر ہیں۔

ایک اور عادت میں بھی دونوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ ہے پہلے کرگزرنا پھر سو چنا اور اکثر کرتے ہی جانا اور بالکل نہ سو چنا پھر نتیجے میں ایسی فرصت کا میسر ہوجانا جس میں سو چنے کے علاوہ اور کچھ میسر نہ ہونا ۔ اس کے علاوہ ایک اور عادت بھی مشترکہ ہے اور وہ ہے اپنے علاوہ سب میں نقص کا پایا جا نا اور سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتے رہنا۔ اور ساتھ ساتھ ستائش پسند ہونا بھی دونوں میں بھی مشترک ہے ۔

دراصل ہمارا ذہنی رجحان ہی ہماری ہرچیز کا تعین کرتا ہے۔ امریکی فلاسفر ایمر سن کے الفا ظ میں ایک انسا ن وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سوچتا ہے اور اس سے مختلف وہ ہوبھی کیا سکتا ہے اگر ہم خوشی اور مسرت کے خیالات سو چیں گے تو ہم خوش اور مسرور رہیں گے اگر ہمارے خیالات افسردہ اورپژمردہ ہیں تو ہم پر بھی افسردگی اور پژمردگی محیط ہوجائے گی۔ بزدلانہ خیالات ہمیں بزدل اور ڈرپو ک بنا دیں گے، بیمارخیالات ہمیں بیمار بنا دیں گے اگر ہم ناکامی کے متعلق سو چیں گے تو ہم یقیناً  ناکام رہیں گے اگر ہم اپنے آپ پر ترس کھاتے رہیں گے تو ہر کوئی ہم سے گریز کرے گا ہم سے دو ر بھا گے گا۔

اور اگر ہم سارا وقت انتقام کے بارے میں سو چتے رہیں گے اور الجھنوں کا تانا با نا بنتے رہیں گے تو ہم چارلس ڈارون کے ’’ مہیب اژدہوں ‘‘ کے ریورٹر پیدا کرنے کے سو اکچھ نہیں کرسکیں گے اور یہ اژدہے ہمیں کھوکھلا کردیں گے اور ہماری قوت ارادی اور قوت عمل کو تبا ہ کردیں گے ۔اور یہ کچھ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ نارمن ونسنٹ پیل نے کہا ہے ’’ آپ وہ نہیں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو آپ سو چتے ہیں ‘‘ ہمارے سامنے سب سے بڑا اہم واحد مسئلہ صحیح قسم کے خیالات کا انتخاب ہے اگر ہم یہاں کا میاب ہوجائیں تو ہم اپنے سارے مسائل کو نہایت آسانی اور خو بی کے ساتھ نبٹا سکتے ہیں لیکن اگر ہم یہاں ناکام ہوجائیں تو ہم اپنے ساتھ سب کو لے ڈوبتے ہیں۔

مملکت روم کے حکمران اور فلسفی مارکس ادری لی اس نے اسے آٹھ الفاظ میں سمو دیا ہے ہماری زندگی ہمارے خیالات سے بنتی ہے کیونکہ پھر انھی خیالات سے ہمارا عمل بنتاہے ۔ آج ہمارے ملک میں انتشار بداعتماد ی کادیو جو منہ پھاڑے کھڑا ہے یہ اسی ہی بیمار اور انتقامی خیالات کی پیداوار ہے جس نے صرف ایک سال میں دیو کی شکل اختیار کر لی ہے اب یہ دیو کسی کے قابو میں نہیں ہے نہ ہی ان کے قابو میں ہے جنہوں نے اسے جنم دیا ہے ۔ جب ہم اپنے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں تو ہم انھیں اپنے اوپر غالب آنے کا موقع دیتے ہیں انھیں ہماری نیند ہماری اشتہا ، ہمارے خون کے دبائو ہماری صحت اور ہماری عقل پر مسلط ہونے کاوسیلہ مل جاتا ہے ہماری نفرت سے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا البتہ ہمارا انتقامی جذبہ ہمارے شب و روز کو جہنم میں تبدیل کردیتا ہے۔

جب تم بدلہ لینے کے در پے ہو تے ہو تو کسی دوسرے کے بجائے خود اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہو ۔ بدلہ لینے کی کوشش سے آپ کو کئی اعتبار سے نقصان پہنچ سکتاہے ۔ جر یدہ ’’ لا ئف ‘‘ نے لکھا تھا کہ اس سے آپ کی صحت بھی تباہ ہوسکتی ہے خون کے دبائو کے مریض عموما نفرت کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہو تے ہیں دل کی تمام بیماریاں اسی جذبے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ نفرت کی وجہ سے ہم اپنے کھانے سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔

اور پھر جب ہمارے دشمنوں کو یہ معلوم ہوجاتاہے کہ ان سے ہماری نفرت خود ہمیں چو س رہی ہے ہماری قوتیں سلب کررہی ہیں ہمیں اعصاب زدہ بنا رہی ہیں ہماری صورت بگاڑ رہی ہے ہمیں اختلا ج قلب میں مبتلا کررہی ہیں اور شا ید ہماری زندگی بھی گھٹا رہی ہے تو کیا وہ خوشی سے تالیاں نہیں بجا تے ہونگے ۔جیساکہ شیکسپئر نے کہا ہے ’’ اپنے دشمن کے لیے انگیٹھی اتنی گرم نہ کرو مبادا کہ یہ خود تمہیں ہی جلا ڈالے۔‘‘  نیویارک کے سابق میئر ولیم جے گے نور کی یہ ہی پالیسی تھی اشتعال انگیز اخبارات نے ان کی پگڑی اچھالی اور ایک دیوانے نے تو ان پر گولی بھی چلا دی ۔ جب وہ اسپتال میں پڑے اپنی زندگی کے لیے جدو جہد کررہے تھے انھوں نے کہا میں ہر شام ہر شخص کو معا ف کر دیتا ہوں ۔

آئیے ہم ’’ مطالعہ قنو طیت ‘‘ کے مصنف عظیم جرمن فلسفی شو پنہا ر کی طرف رجوع کریں وہ زندگی کو بیکار، لایعنی اورتکلیف دہ سمجھتا تھا جب وہ چلتا تھا تو اس کی رگ رگ سے مایوسی اور اداسی ٹپکا کرتی تھی لیکن اپنی قنو طیت اور مایوسی کی گہرائیوں سے شو نہار نے چلا کر کہا حتی الامکان ہمیں کسی شخص کے ساتھ بھی دشمنی اور عناد نہیں برتنا چاہیے۔ برنر ڈبر وچ جو چھ امریکی صدور ولسن ، ہارڈنگ ، کولج، آئزن ہاور، رو زویلٹ اور ٹرو مین کا مشیر رہ چکا ہے پوچھا گیا آپ کبھی دشمنوں کے حملوں سے پر یشان ہوئے ہیں۔

انھوں نے جواب دیا ’’ مجھے کوئی شخص ذلیل یا مضطرب نہیں کر سکتا میں کسی کو ایسا نہیں کرنے دونگا‘‘۔ کوئی شخص مجھے اور آپ کو بھی ذلیل اور مضطرب نہیں کر سکتا  تا وقتیکہ ہم خود اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں، لاٹھیاں اور پتھر بلا شبہ ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہیں لیکن الفاظ کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔اس بات کا تو اب سب کو احسا س ہوگیاہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے نا سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ اور اب تو سمجھانے والوں نے بھی توبہ کرلی ہے ۔

حکمرانو! اگر آپ کو ذرا بھی فرصت مل جائے تو دیکھ لینا کہ جو انتقام کی انگیٹھی آپ نے گرم کی تھی وہ انگیٹھی اب تمہیں خو د کو جلانے والی ہے تم کسی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے اگر کسی کو نقصان پہنچے گا یا پہنچ رہا ہے تو وہ تم خود ہی ہو ۔ وقت تمہارے ہاتھ سے نکل رہاہے ، تمہارے حریف خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں اور سب کے سب مکمل نقصان کے منتظر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔