آپریشن اور مذاکرات ایک ساتھ، نتیجہ کیا نکلے گا؟

شاہد حمید  بدھ 28 مئ 2014
اصل معاملہ یہ درپیش ہے کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ پس پردہ ہو رہا ہے اس لیے ان معاملات کو اب عیاں بھی کرنا چاہیے۔  فوٹو : فائل

اصل معاملہ یہ درپیش ہے کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ پس پردہ ہو رہا ہے اس لیے ان معاملات کو اب عیاں بھی کرنا چاہیے۔ فوٹو : فائل

پشاور: طالبان اور حکومت کے درمیان جب سے مذاکراتی سلسلہ منقطع ہوا۔

اس وقت سے نظر آنا شروع ہوگیا تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہونے والا ہے کیونکہ مذاکرات کے حوالے سے جو صورت حال بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی وہ بن نہیں پا رہی تھی اور مختلف مقامات پر دہشت گردی کی کاروائیوں کا سلسلہ جاری تھا جبکہ اس میں ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت نے اپنی جانب سے بیوروکریٹس پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس میں سیاسی انداز میں معاملات کو آگے بڑھانے والے شامل نہیں تھے جبکہ دوسری جانب طالبان کی مذاکراتی کمیٹی بھی ان ڈائریکٹ طریقہ سے معاملات چلا رہی تھی کیونکہ طالبان کا کیس پیش کرنے والی کمیٹی جن شخصیات پر مشتمل تھی وہ شخصیات براہ راست طالبان کے ساتھ منسلک نہیں ہیں اور وہ مختلف سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہاتھ ہوتے معاملات ڈیل ہو رہے تھے جس کی وجہ سے مشکلات اور مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے جس کے نتیجہ میں آج صورت حال یہ ہے کہ اگرچہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی سلسلہ باقاعدہ طور پر ختم نہیں ہوا تاہم وزیرستان میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے کارروائی بھی شروع کردی گئی ہے جس کی وجہ سے بیک وقت مذاکرات کا سلسلہ بھی موجود ہے اور کاروائیاں بھی جاری ہیں جس سے پوری قوم کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ گئی ہے اور اس کنفیوژن کو اور کوئی نہیں بلکہ حکومت ہی دور کر سکتی ہے۔

مرکزی حکومت کو اس موقع پر یقینی طور پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ یہ بات واضح ہوسکے کہ طالبان اور حکومت کے درمیاں مذاکراتی عمل ٹوٹنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ اور ایسے کیا حالات تھے کہ جن کی وجہ سے حکومت مذاکرات کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائیاں شروع کرنے پر مجبور ہوئی ؟پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے علاوہ حکومت کو سیاسی جماعتوں کا اجتماع بھی منعقد کرنا ہوگا تاکہ اس سیاسی اجتماع میں اگر حکومت اور حکومتی ادارے اپنی بات سامنے رکھتے ہیں تو اس کے ساتھ طالبان کی نمائندگی کرنے والے مولانا سمیع الحق اور پروفیسر محمد ابراہیم بھی اپنی بات سب کے سامنے رکھیں تاکہ دونوں جانب کی بات سامنے آسکے اور اگر یہ بات واضح ہو جائے کہ مذاکراتی عمل کو مزید جاری نہیں رکھا جاسکتا اور عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی ضروری ہے تو اس صورت میں اسی انداز میں بھرپور آپریشن ہونا چاہیے جس انداز کا آپریشن سوات میں سکیورٹی فورسز نے کیا تھا تاکہ عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن ہوسکے لیکن اگر حکومت اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے تمام تر صورت حال سامنے پیش کرنے کے باوجود سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مذاکرات کو ایک اور موقع دینا چاہیے اور اس سے حکومت اور سکیورٹی ادارے بھی اتفاق کرتے ہیں تو اس صورت میں مذاکرات کو موقع ضرور ملنا چاہیے۔

مذکورہ بالا دونوں آپشنز کا استعمال حکومت نے ہی کرنا ہے اور یقینی طور پر حکومت اس تمام تر صورت حال پر غور بھی کر رہی ہوگی لیکن اصل معاملہ یہ درپیش ہے کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ پس پردہ ہو رہا ہے اس لیے ان معاملات کو اب عیاں بھی کرنا چاہیے تاکہ قوم بھی یہ جان سکے کہ کیاہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ؟

مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ایک ہی صفحہ پر تھیں تاہم مبینہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے اب جس طریقہ سے تحریک انصاف میدان میں نکلی اور ایک کے بعد پنجاب کے دوسرے شہر میں میدان سجا رہی ہے اس سے یقینی طور پر اب پرانی والی صورت حال برقرارنہیں رہی ہوگی ، اس صورت میں تحریک انصاف کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی جانب سے رستم شاہ مہمند جنھیں اس مذاکراتی عمل کا بڑی ابتداء سے حصہ بنایا گیا تھا آیا وہ اب بھی اس عمل میں شامل ہیں یا پھر وہ اس سے الگ ہوگئے ہیں کیونکہ تحریک انصاف نے اس بارے میں اپنی صورت حال واضح نہیں کی، نہ ہی مذاکرات اور کاروائیاں ساتھ ،ساتھ چلنے کے بارے میں تحریک انصاف اپنی بات سامنے لاسکی ہے کہ اس صورت حال میں وہ کیا کہتی ہے اور یقینی طور پر اس حوالے سے صرف تحریک انصاف اکیلی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کی اتحادی جماعت اسلامی بھی شامل ہے جس کا اس سارے عمل میں انتہائی اہم کردار ہے کیونکہ جماعت اسلامی ہی کے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم شروع سے اس مذاکراتی عمل کا حصہ اور طالبان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

اس لیے موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی کہ وہ اب کہاں کھڑی ہے؟ اس حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رکھی جا سکتی ہے کہ اگر مرکزی حکومت ، مرکز کی سطح پر سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کرنے سے کنی کتراتی ہے تو اس صورت میں تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کو پہل کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر اکھٹا کرنا چاہیے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں براہ راست مذاکراتی عمل میں شامل تھیں اس لیے ان پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔