قصور کس کا ہے

شبنم گل  جمعرات 29 مئ 2014
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

میں نے جب دنیا کو دیکھنا اور محسوس کرنا شروع کیا تو میرے اردگرد پھول، چاند، ستاروں، سورج، بادل، پرندوں کی دنیا تھی۔ یہ دنیا مہربان، عطا کرنے والی اور خوبصورت تھی۔ جس میں نفرت، غصے، تعصب و بدلہ لینے کا کوئی رجحان نہیں تھا۔ یہ تتلی کے پروں جیسی سبک رفتار اور پھولوں کی مہک جیسی سرشار زندگی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ دھیرے دھیرے پھر ایک نئی دنیا میرے سامنے تھی۔ جس میں مسائل کی بھرمار تھی۔

عمل اور ردعمل کی یہ دنیا، جس میں لوگ سبب یا جواز ڈھونڈتے تھے یا پھر ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے۔ یہ دنیا ہمیشہ سراپا سوال دکھائی دی کہ آخر قصور کس کا ہے؟ وہ کون ہے جس نے سکون کی ندی میں انتشار کا پہلا کنکر پھینکا تھا۔ یہ دنیا عجیب تھی اسباب و اثرات کی دنیا، جس میں رویے پر تغیر اور سوچ میں ٹھہراؤ نہیں ملتا۔

حقیقت یہ ہے کہ انفرادی مسائل ہوں یا اجتماعی، کہیں بھی حل نہیں ملتا سوائے تکرار کے۔ یہ انسان کے ذہن کے شور کی دنیا ہے، جہاں باہر کی آوازیں منقطع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے جو Victim Syndrome مظلومیت و بے بسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں، لامتناہی راستوں پر بھٹکتے رہتے ہیں۔ جہاں منزل کا تصور سراب دکھائی دیتا ہے۔

یہ تصور خود انحصاری کی سوچ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ لوگ خود کو بے بس و بے اثر محسوس کرتے ہیں یہ بااثر طبقوں کا مخصوص ہتھکنڈا ہے، جو ہمیشہ پسماندہ طبقوں کی ناسمجھی کے زینے سے چڑھتے ہوئے کامیابی کے آسمان کو چھوتے ہیں۔ مظلومیت کے احساس میں مبتلا طبقے معاشرے میں انتشار پھیلا دیتے ہیں۔

بعض اوقات مظلومیت بھی اکثر دفاعی ردعمل کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انا و نرگسیت کا کھیل ہے، اپنی ذات سے محبت کی انتہا! سگمنڈ فرائڈ کہتا ہے کسی بھی تضاد کا دفاع کرنے کے لیے انا لاشعوری طور پر دفاعی میکانیت استعمال کرتی ہے۔ سیاست میں بھی الزام تراشیوں کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ یہ منفی رجحان اب قومی مزاج بن چکا ہے۔ جسے مرر نیورون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چھوت کی بیماری جیسے ہوتے ہیں۔ یہ چھوت کی بیماری کی طرح ہوتے ہیں اور خوب پھلتے  پھولتے ہیں۔

یہ Mirror Neurons مرر نیورونز (نیورون سیل ہے جو نروس سسٹم کا اہم جزو ہے، یہ دفاع کا پیغام جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتا ہے) بالکل اسی طرح سے ہے کہ جیسے ایک بچے نے منہ چڑایا تو دوسرا بھی جوابی طور پر وہی حرکت کرے گا۔ اس رویے میں سوچ و سمجھ برائے نام ہی ہوتی ہے۔ یہ رجحان سطحی رویوں سے جنم لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے منفی رویوں کی فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ جو بوئیں گے وہی کاٹیں کے مصداق منافع کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ منفی رویے یا ناپسندیدہ رجحان تکرار سے کبھی حل نہیں ہوتے۔

یہ سوجھ بوجھ، عقل اور منطقی دلیل سے انجام کو پہنچتے ہیں۔ مگر جھوٹی تعریف کا زہر پلا کر احساس برتری کے پل باندھ دیے جاتے ہیں۔ اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اسے جھوٹی شان اور ستائش کا زہر پلا دو وہ صفحہ ہستی سے خودبخود مٹ جائے گی۔ یہ نقصانات اٹھاتے سالہا سال گزر گئے مگر ہماری آنکھ نہ کھل سکی۔ ماضی کے تجربوں سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ جب کہ منفی رویے اور زندگی کے تضادات اور حادثے انسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ دکھ شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ انسان میں ہمدردی، برداشت، سمجھ اور عفو و درگزر جیسے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔

معاشرے میں انفرادی یا اجتماعی طور پر مظلومیت و بے بسی کی یہ چھاپ نفی کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ Denial (نفی و انحرافی) ایک ایسا رویہ ہے، جو انسانی قدروں کو جڑ پکڑنے نہیں دیتا۔ انفرادی سوچ کی ترویج کرتا ہے۔ یہ رویے ذاتی مفاد، سوچ، احساس اور رویے کی پرچار کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی نفی اور جھٹلانے کے باعث مسائل کا حقیقت پسندانہ اور منطقی حل نہیں مل پاتا۔

موجودہ حالات میں وکٹم سنڈروم کا رجحان جو معاشرتی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ جس کی رو سے فرد اپنی تکالیف، محرومیاں اور قربانیاں کیش کراتا ہے۔ اور خوب شور مچا کر لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ رویہ اپنی بدحالی کا صلہ یا ستائش زبردستی حاصل کرتا ہے۔ اس رجحان کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ ڈرامہ ہے جو اینٹی کلائی میکس پر ختم ہوتا ہے۔ اور جس میں بہروپیے کی نشاندہی کبھی نہیں ہو پاتی۔

اس طرح کے متضاد مسائل جب نسل در نسل چلتے ہیں تو یہ منفی رویے موروثی طور پر ایک نسل دوسری نسل کو منتقل کرتی ہے۔ احساس محرومی اور عدم تحفظ کا شکار لوگ ہمیشہ ایک ایسی صورت حال پیدا کرتے ہیں، جہاں وہ توجہ کا مرکز بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جسے نفسیات کی رو سے Attention seeking deficit disorder کہتے ہیں۔ یہ منفی رویہ ایک بچہ بھی اپنا لیتا ہے، جسے والدین نظر انداز کرتے ہیں۔ بیوی کی لڑائی کے پس منظر میں بھی یہ عدم توجہی کی شکایت ہوتی ہے۔ منفی رویے خطرے کی گھنٹی جیسے ہیں، جن کا سدباب وقت پر ہونا ضروری ہے۔ جس کا واحد حل ڈائیلاگ، موثر گفتگو یا بات چیت ہے۔

معاشرتی زندگی سے لے کر ایوان سیاست تک ہر شخص دوسرے کی شکایت اور برائیاں بیان کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں الزام تراشیوں کے موسم ہمیشہ سرسبز رہتے ہیں۔ ایک ڈرامائی انداز میں پیش ہونے والی مظلومیت درحقیقت پس پردہ کئی پوشیدہ محرکات کی حامل ہے۔ جس کے پیچھے ذاتی ذمے داری کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔ بقول کسی مفکر کے یہ خود  رحمی منشیات کی طرح بری عادت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ جو وقتی خوشی دیتی ہے اور مظلوم کو حقیقت سے بہت دور لے جاتی ہے۔

ذاتی ناکامی، محرومی و مایوسی کا الزام دوسروں کے کھاتے میں ڈال دینے والے حالات کے بھنور سے شاذ و نادر ہی باہر نکل پاتے ہیں۔ اگر حقیقت پسند ہو کر دیکھا جائے تو ناکامی کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ شکایت کرنے والے لوگ ذاتی تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ خود احتسابی کا جوہر نہیں رکھتے۔ اور زندگی ایک ہی دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل پاتا۔ اگر انسان مان لے کہ بدترین حالات پیدا کرنے میں کہیں اس کا بھی ہاتھ تھا تو یہ سوچ اصلاح کی طرف پہلا قدم ہو گی۔

مسائل کا منطقی تجزیہ اور اس منفی رجحان سے علیحدگی اختیار کر لینے سے ذات کی کھوئی ہوئی خود اعتمادی بحال ہوتی ہے اور مسائل کا حل مل جاتا ہے۔ ایک حکایت گوش گزار ہے۔ ایک رات چور نے کھڑکی سے مکان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی لہٰذا چور گر گیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ چور عدالت میں گیا اور مالک مکان کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔ مالک مکان کی جواب طلبی ہوئی تو اس نے کہا کہ یہ میرا نہیں بلکہ بڑھئی کا قصور ہے، جس نے ناقص سامان سے کھڑکی بنائی ہے۔

بڑھئی نے اپنا دفاع کرتے ہوئے سارا قصور راج پر ڈال دیا۔ راج کو بلایا گیا تو اس نے کہا یہ یہاں سے گزرنے والی عورت کی غلطی ہے جس کی طرف میرا دھیان گیا تو عمارت میں نقص رہ گیا۔ وہ عورت عدالت میں پیش ہوئی اور وضاحت کی کہ اس وقت میں نے ایک دیدہ زیب گائون پہن رکھا تھا۔ قصور رنگ ریز کا ہے کہ اس نے ایسے اشتہا آمیز رنگ کیوں استعمال کیے۔ جج نے حکم دیا کہ رنگ ریز کو پیش کیا جائے۔ جب رنگ ریز آیا تو وہ شخص اس عورت کا شوہر اور بذات خود چور نکلا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔