’’بھارت سے معاشی تعاون کا مطلب سیاسی جھگڑوں پر مؤقف بدلنا نہیں‘‘

عظیم نذیر  جمعـء 30 مئ 2014
تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں، مودی نے موڈ بدلا تھا تو بھارت کو اس کا چہرہ دکھایا جاتا۔  فوٹو : شہباز ملک

تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں، مودی نے موڈ بدلا تھا تو بھارت کو اس کا چہرہ دکھایا جاتا۔ فوٹو : شہباز ملک

نواز شریف کے دورہ بھارت کے متعلق ایکسپریس فورم میں مختلف طبقہ فکرکے افراد نے اظہار رائے کرتے ہوئے ملے جلے خیالات کا اظہار کیا۔

ان افراد کا کہنا تھا کہ بھارت سے تعلقات برابری کی سطح پر ہونے چاہئیں۔ ہمارا مسئلہ غربت ہے اور وہ پیسے سے ختم ہوگی اس لئے تجارت ضرور کرنی چاہئے تمام مسائل مذاکرات سے حل ہونے چاہئیں کیونکہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ نواز شریف کے دورے سے مذاکرات کی بحالی ہوئی اور امن کی راہ ہموار ہوئی ہے عوام کی اس سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو جو چارج شیٹ دی ہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہے جب مودی نے موڈ بدل لیا تھا تو بھارت کو اس کا چہرہ دکھایا جاتا۔

نوازشریف نے کشمیر اور پانی کی بھی بات نہیں کی انہوںنے دورے کی دعوت کو صرف اپنی ذات کا معاملہ سمجھا اور سیاسی جماعتوں یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا بھارت سے تجارت سے پاکستان کا بہت نقصان ہو گا‘ معیشت بہتر کرنی ہے تو چین‘ ایران‘ ترکی اور افغانستان سے تجارت بڑھائیں‘ ٹیکس وصولیوں کا نظام بہتر کریں‘ زرعی ٹیکس لگائیں اپنے وسائل درست طور پر استعمال کریں ‘ بھارت سے تجارت اس کا ایشو ہے یہ پاکستان کا ایشو نہیں ہے‘ بھارت کے ساتھ تجارت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم سیاسی تنازعات پر اپنا مؤقف تبدیل کرلیں گے ۔

چین نے بھارت کے ساتھ اپنی تجارت بے تحاشا بڑھائی لیکن سیاسی تنازعات پر اپنا مؤقف برقرار رکھا ‘ پاکستان کا بھی بھارت کے ساتھ چین جیسا ماڈل ہونا چاہئے۔ نواز شریف نے اپنا سارا فوکس معاشی بہتری پر رکھا اور کشمیر اور دیگر تنازعات کی بات نہیں کی کیونکہ بھارت ابھی دیگر پرانے اور پیچیدہ مسائل پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اگر گھمبیر مسائل کے حل کی طرف پیشرفت نہ کی گئی تو باقی معاملات پر بات کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ ایکسپریس فورم شرکائے میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ قارئین کی نظر ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (ماہربین الاقوامی امور،پرنسپل ٹاؤن شپ کالج)

بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اب بھارت میں حکومت اور قیادت تبدیل ہوئی ہے۔ بی جے پی ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے ۔ نواز شریف بھارت سے تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں لیکن منموہن سنگھ کی حکومت جانے والی تھی اس لئے اس سے بات شروع نہیں کی گئی۔ نریندر مودی نے نواز شریف کو حلف برادری کی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی تو موجودہ حالات میں اس دعوت کو قبول کرنا مشکل فیصلہ تھا لیکن نوازشریف نے یہ مشکل فیصلہ کیا کیونکہ ان کی کوشش تھی کہ برف پگھلے لیکن بھارت کی جانب سے نرم رویہ نہیں دکھایا گیا۔

مودی نے اپنی الیکشن مہم پاکستان کے خلاف چلائی ان کاسارا سیاسی کیریئر پاکستان کے خلاف ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام بھی ان کے کھاتے میں ہے ۔ توقی یہی کی جا رہی تھی کہ مودی کے آنے سے پاک بھارت تعلقات اچھے نہیں ہوں گے لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی کو اینٹی مسلم یا اینٹی پاکستان مہم چلانے پر مینڈیٹ نہیں ملا بلکہ انہیں گجرات کو اکنامک ماڈل بنانے کا فائدہ ہوا وہاں بے تحاشا سرمایہ کاری ہوئی‘ بیروزگاری کا خاتمہ ہوا‘ یہی چیز الیکشن میں ان کی فتح کا سبب بنی کیونکہ گانگریس دور میں بھارت کی اکنامک گروتھ 4 فیصد رہ گئی تھی وہاں کے کارپوریٹ سیکٹر نے مودی کی اقتصادی پالیسیوں کے سبب ان کے ا لیکشن میں بے تحاشا پیسہ لگایا دونوں ملکوں میں غربت‘ بیروزگاری اور جہالت ہے۔

اقتصادی بہتری دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔ اس صورت میں نواز شریف نے اپنا سارا فوکس معاشی بہتری پر رکھا اور کشمیر پر رویہ نرم رکھا کیونکہ بھارت سردست دیگر ایشوز پر بات کرنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر‘ سیاچین اور سرکریک جیسے پیچیدہ ایشوز ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کا پانی روکنا اور بلوچستان میں دخل اندازی جیسے مسائل بھی موجود ہیں ان سب مسائل کا یکدم حل ہو جانا مشکل کام ہے اس لئے اکنامک ایشوز کو سٹریٹیجک ایشوز سے الگ کر کے تجارت پر فوکس کیا گیا۔

دونوں طرف سے ڈائیلاگ شروع کرنے کا فیصلہ انتہائی اہم ہے جس میں تمام ایشوز پر بات ہو گی ۔ بات آگے بڑھنی چاہئے لیکن پانی کا مسئلہ اور دخل اندازی گھمبیر مسائل ہیں اگر یہ حل نہ کئے گئے تو باقی معاملات حل کرنے کا خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ دونوں ممالک کو اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی۔ سب سے زیادہ غربت ساؤتھ ایشیا میں ہے دنیا میں یورپی یونین کی مثال سامنے رکھنی چاہئے کہ تمام ممالک آپس میں لڑتے رہتے تھے پھر انہوں نے امن معاہدے کئے اکنامک پر فوکس کیا اور بارڈر کھول دیئے جس کے بعد ا ن کے حالات میں انتہائی مثبت تبدیلی آئی اس طرح چین نے بھی تمام تنازعات پس پشت ڈال کر ملک کی معاشی صورتحال بہتر بنانے پر پوری توجہ دی حتی کہ تائیوان سے بھی جھگڑا نہیں کیا بلکہ اپنے آئین میں ترمیم کی اور لکھا کہ چین کبھی تائیوان کو طاقت کے بل پر حاصل نہیں کرے گا بلکہ ایک وقت آئے گا کہ تائیوان خود چین کے ساتھ مل جائے گا جس طرح ہانگ کانگ مل گیا۔

اسی طرح بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر جو مودی کے ساتھ ہے سرحدوں پر امن و امان چاہتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جا سکے اس لئے سرحدوں پر امن و امان بھارت کی مجبوری ہو گی اور مودی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ صرف مسلمانوں کے خلاف رہیں گے کچھ درست نہیں لگتا کیونکہ انتخابی مہم اور حکومت کے درمیان سوچ اور گفتگو کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے اسے بائی پاس نہیں کیا جا سکتا فوج بھی یہی چاہتی ہے کہ بھارت سے تعلقات معمول پر رہیں کیونکہ وہ مغربی بارڈر پر بھی مصروف ہے اور اندرون ملک طالبان کے خلاف بھی برسر پیکار ہے کوئی بھی حکومت کشمیر کو نظر انداز نہیں کر سکتی لیکن یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہو چکا ہے کہ جب بھی اس مسئلہ پر بات شروع ہوتی ہے تو یہ جلد ہی رک جاتی ہے کیونکہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کرنا چاہتا ۔ نواز حکومت نے کشمیر کا مسئلہ اسی طرح رکھ کر بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کا سوچا ہے کہ جب ڈائیلاگ شروع ہو گا تو تمام ایشوز پر بات ہو گی تاہم اکثر مذہبی جماعتوں کا مسئلہ کشمیر پر مؤقف انتہائی سخت ہے۔

پاکستان اگر بھارت سے مذاکرات اور تجارت کرنا چاہتا ہے تو بال اب مودی کی کورٹ میں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنی لچک دکھاتے ہیں اور کیا ریسپانس دیتے ہیں دونوں طرف سے اس بات کا اعادہ خوش آئند ہے کہ دونوں کاکہنا ہے کہ وہ دہشتگردی کے لئے اپنی زمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ مودی کے سپورٹر سرمایہ دار ہیں ان کا بھی مودی پر دباؤ ہو گا کہ پاکستان سے تجارت کی جائے۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے پانی روکنے پر پاکستان کے کسانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ بھارت اس معاملے میں اگر اپنی پالیسی تبدیل کر لیتا ہے تو تعلقات بہتر ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

مودی نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 370 ختم کرنے کی جو بات کی ہے اس سے کشمیر میں آزادی کی تحریک تیز ہو سکتی ہے پاکستان میں بھی مسئلہ کشمیر پر بھارت کی مخالفت میں تیزی آئے گی جس سے نواز حکومت کو مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ ایسا ہونے سے غیر جانبدار طاقتیں بھی مخالف ہو جائیں گی اس لئے یہ سوچ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو سٹیٹس کو پر رہنے دیں اور دیگر معاملات بہتر کریں۔

ڈاکٹر فریدپراچہ (لیڈر جماعت اسلامی)

نواز شریف کے دورہ بھارت کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ سارا فائدہ مودی اٹھا گئے جبکہ نواز شریف کے معاملات زیرو پر چلے گئے۔ مودی نے پاکستان کی توہین کی اور چارج شیٹ ہاتھ میں تھما دی میں سمجھتا ہوں مودی نے دعوت نہیں دی تھی بلکہ طلبی کی تھی۔ کیا مودی کو یہ نظر نہیں آتا کہ بھارت کی 8 لاکھ فوج کشمیر پر قبضہ کئے بیٹھی ہے کشمیر میں آزاد میڈیا کو جانے نہیں دیا جاتا ان کے اپنے صحافی بھی کشمیر کے متعلق کچھ لکھیں تو انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔

پاکستان کا مؤقف کہ کشمیرمیں رائے شماری کرالی جائے وہ تو بھارت مانتا نہیں وہ اقوام متحدہ کی قرار داد سے بھی راہ فرار اختیار کرتا ہے ہمارے دریاؤں کا پانی بھی بھارت نے روک رکھا ہے۔ کشمیر میں پاکستان آنیوالے دریاؤں پر ڈیم بنا ئے جا رہے ہیں۔پانی کا رخ موڑا جا رہاہے‘ سیاچن پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سیاچن موت کی وادی ہے دونوں اطراف سے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے افواج بے رحم موسم کے رحم و کرم پر ہیں پھر سرکریک کا معاملہ ہے۔ غرض بھارت نے پاکستان کی تباہی کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے لئے چارج شیٹ کا تعلق ہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہے پاکستان میں جو تخریب کاری اور دہشتگردی ہو رہی ہے اس میں 70 فیصد را کا ہاتھ ہے اس کے ثبوت اور شواہد بھی موجود ہیں وہ بھارت کو پیش کئے جانے چاہئیں۔ نواز شریف بھارت کی کارستانیوں کی فائل اپنے ساتھ کیوں نہیں لے کر گئے۔ جب مودی نے موڈ بدلا تو انہیں وہ فائل پیش کی جا تی انٹرنیشنل میڈیا پر یہ بات آتی انہیں اگر تنازعات کی لسٹ نہیں بھی دینی تھی تو کم از کم پریس کو ہی بتا دیتے لیکن نواز شریف تو اتنا بھی نہیں کر سکے۔

فرید پراچہ نے کہا انٹرنیشنل معاملات میں کلچر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن نواز شریف نے مغربی لباس پہنا ‘ انگریزی میں بات کی جس پریقینا تاثر درست نہیں ملا ۔ نواز شریف کو پاکستانی لباس پہننا اور اردو میں بات کرنی چاہئے تھی۔ مودی کا پورا کیریئر مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بات کرتے گزرا ہے۔ اگر ان کا مستقبل کے لئے مزاج کا اندازہ لگائیں تو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے آرٹیکل 370 ختم کرنے کی بات پہلے ہی دن شروع کر دی وہ آگے آگے کیا نہیں کریں گے۔ نواز شریف کو چاہئے تھا کہ بھارت جاتے ہوئے تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیتے لیکن انہوں نے مودی کی دعوت کو صرف اپنی ذات کا معاملہ بنا لیا اور کوئی متفقہ فیصلہ نہیں کیا گیا نہ ہی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا کیونکہ یہ صرف ان کی ذات کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ تھا اور انہیں دورہ بھارت کے متعلق کوئی متفقہ فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔

جہاں تک بھارت میں اقلیتوں سے سلوک کا تعلق ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں 32 ہزارمسلم کش فسادات ہوئے‘ مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی‘ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگایا گیا‘ سکھوں کے گولڈن ٹیمپل کے ساتھ کیا ہوا۔ عیسائیوں کے گرجے جلائے گئے انہیں بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ہم اگر تجارت کی بات کرتے ہیں اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں یہ بھارت کا ایشو ہے اور پاکستان سے تجارت کا سارا فائدہ اسی کو ہو گا کیونکہ اس طرح کی تجارت سے ہماری زراعت تباہ ہوجائے گی ‘ کسان بھوکے مر جائیں گے‘ محنت کش بیروز گار ہو جائیں گے اور ہم اپنے دشمن کو معاشی فائدہ پہنچا رہے ہوں گے۔

تجارت بھارت کا ایشو ہے ہمارا نہیں۔ اگر ہم نے اپنی معاشی حالت بہتر کرنی ہے تو ہمیں چین‘ ایران‘ افغانستان اور ترکی سے اپنی تجارت بڑھانی چاہئے ‘ ٹیکس کا نظام بہتر بنایا جائے امیروں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے‘ زرعی ٹیکس لگایا جائے‘ لوٹی ہوئی دولت ملک میں لائی جائے‘ بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کیا جائے ہمیں اپنے ملک کے وسائل کو صحیح طور پر استعمال میں لانے کی ضرورت ہے اگر ہم یہ سب اقدامات کرلیں تو ہمیں بھارت سے مصنوعی تجارت کی ضرورت نہیں ہو گی جس کا فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہو گا۔

فواد چودھری (سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بھارت سے تعلقات بہترکرنا چاہتی ہیں اس کی بڑی وجہ زمینی حقائق ہیں کیونکہ پڑوسی تبدیل نہیں کیے جاسکتے بھارت سے قریبی تعلقات ملک کے سیاسی مستقبل کیلئے اہم ہیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے دو پہلو یعنی معاشی اور سیاسی ہیں۔

معاشی پہلو زیادہ اہم ہے کیونکہ اس کا حجم اتنا بڑا ہے کہ امریکہ اور چین بھی اسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ بھارت کے چین کے ساتھ شدید سرحدی تنازعات ہیں اس نے چین کے ساتھ جنگ بھی لڑی لیکن اس وقت ان کے آپس میں قریبی تجارتی تعلقات ہیں۔ بھارت کے ساتھ معاشی تعاون کایہ مطلب نہیں کہ سیاسی تنازعات پر مؤقف بدل لیں گے چین نے بھی سیاسی تنازعات پر اپنا مؤقف برقرار رکھا لیکن معاشی میدان میں چین سے پارٹنر شپ کی پاکستان کا بھی یہی ماڈل ہونا چاہیے۔

اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم نواز شریف کا بھارت جانے کا فیصلہ درست نظر آتا ہے لیکن انہیں چاہیے تھا کہ وہ اس دورے کے متعلق پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے اور خاندان کے افراد کو ساتھ نہ لے کر جاتے کیونکہ حسین نواز کا پاکستان کے وفد میں کوئی کام نہیں تھا اگر اس کی بجائے وزیراعظم دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندے اپنے ساتھ لے کر جاتے تو بھارت کو یہ پیغام جاتا کہ وہ ایک طاقتور وزیراعظم ہیں۔ لیکن چھوٹے چھوٹے کاروباری مقاصد کے لیے وزیراعظم نے یہ اہم موقع گنوادیا۔

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو نواز شریف کایہ دورہ سرکاری نہیں تھا بلکہ خیرسگالی تھا۔ دونوں ملکوں نے اچھے تعلقات کی ابتدا کی ہے۔ کشمیر اور دیگر مسائل پر درجنوں مذاکرات ہوچکے ہیں۔ 2007ء میں ہم مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قریب پہنچ چکے تھے امید ہے کہ نرم بارڈر پالیسی سے مسئلہ کشمیر حل ہوسکے گا۔

سردار رمیش سنگھ اروڑا (سکھ رکن پنجاب اسمبلی)

نواز شریف کے دورہ بھارت سے دنیا کو ایک کلیئر پیغام گیا ہے کہ ہم ہمسائیوں سے برابری کی بنیاد پر تعلق چاہتے ہیں۔ اس دورے سے یہ پیغام بھی ملا ہے کہ ہم بھارت سے جنگ نہیں چاہتے کیونکہ جنگ مسائل کاحل نہیں۔ تعلقات بحال ہونے چاہئیں اور تمام مسائل مذاکرات کی ٹیبل پرحل کیے جائیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بھارت سے مذاکرات کا جو سلسلہ رکا ہوا تھا وہ سیکرٹری خارجہ کی سطح پر بات چیت کے ذریعے دوبارہ بحال ہوجائے گا۔ یہ بات بھی بہت اچھی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار کسی پاکستانی وزیراعظم نے بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔

آنے والے دن برف پگھلنے کارخ متعین کریں گے اور مستقبل میں جو بھی بات ہوگی وہ برابری کی بنیاد پر ہوگی۔ مودی نے ماضی میں جو کچھ کیا اس پر پاکستان کے یقینا تحفظات ہیں لیکن یہ بات بھی دیکھنی ہوگی کہ ماضی میں انہوں نے جو کچھ کیا وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے کیا۔ حکومت اور اپوزیشن میں فرق ہوتا ہے۔ جب وہ وزیراعظم کارول لے کر چلیں گے تو پھر انہیں یقینا ایک مختلف سوچ اپنانی ہوگی کیونکہ جب تک خطے میں امن نہیں ہوگا ترقی بھی رکی رہے گی۔

پاکستان میں اقلیتوں کا کوئی مسئلہ نہیں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، بیروزگاری اور جہالت ہے۔ یہ مسائل حل کرنے کیلئے پیسے کی ضرورت ہے اور پیسہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں تجارت ضرور کرنی چاہیے اور تجارت خطے کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ہمیں بھارت کے ساتھ تجارتی معاملات آگے بڑھانے چاہئیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے سب سے پہلے پاکستان کے مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پنجاب اسمبلی میں باباگورونانک کا جنم دن سرکاری طور پر منانے اور اس دن عام تعطیل کی قرارداد پیش کی ہے۔ اس قرارداد کو اسمبلی نے منظور کرلیا ہے۔ پاکستان میں سب افراد کیلئے یکساں مواقع موجود ہیں۔ صرف آپ میں صلاحیت ہونی چاہیے۔ نفرت انگیز اور شرانگیز کمینٹس پاس نہیں کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں تمام مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اکا دکا واقعات تو دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن جب سے پاکستان بنا ہے اس کے متعلق منفی پراپیگنڈہ جاری ہے جسے بند ہونا چاہیے۔

کانجی مل (ہندو رکن پنجاب اسمبلی)

نواز شریف کا بھارت جانا خطے کیلئے اہم اور خوشگوار پیش رفت تھی۔ اس دورے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ خطے کے لوگوں کی اس سے بڑی توقعات وابستہ ہوگئی ہیں۔ بھارت سوا ارب آبادی کا ملک ہے وہاں پاکستان کیلئے ایک بڑی منڈی موجود ہے۔

تجارت پیشہ افراد کی بھارت سے تجارت شروع ہونے سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ چین اور بھارت کو دیکھیں دونوں میں جنگ بھی ہوئی اور سرحد کشیدگی ابھی تک موجود ہے لیکن ان کی تجارت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں ایسے خاندان آباد ہیں جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں خاص طور پر چولستان راجھستان میں بسنے والے لوگ اس دورے سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزا پالیسی نرم ہوجائے اور ان کی آپس میں آسانی سے میل ملاقات کے راستے کھلیں۔

جہانگیر حنیف (کونسلرسکاٹش نیشنل پارٹی)

مجھ سمیت ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آنی چاہیے اور اس کے ساتھ دوستی ہونی چاہیے تاکہ ہم اچھے ہمسائے بن سکیں، دوستی کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں مگر اس چیز کا بھی خیال رکھیں کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔

اگر ہم نے ان کے ساتھ فری ٹریڈ شروع کرلی تو وہ چند سال میں ہماری انڈسٹری پر قبضہ کرلیں گے۔ بھارت میں بڑے بڑے صنعتی گروپ ہیں جو اگر چاہیں تو پاکستان کو انڈسڑی پر آسانی سے قبضہ کرسکتے ہیں۔

صرف ایک لکشمی متل گروپ کے اثاثے 21 بلین ڈالر کے ہیں جبکہ پاکستان کا کل قرض 65 بلین ڈالر ہے اگر وہ چاہیں کہ پاکستان کی صنعت پر انہوں نے قبضہ کرنا ہے تو آسانی سے کسی بھی پاکستانی صنعت پر قبضہ جماسکتے ہیں۔

اس کے علاقہ وہاں ٹاٹا، برلا جیسے بڑے گروپ بھی ہیں مگر ہمارے ہاں ان کے مقابلے کا کوئی بڑا گروپ نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کرسکے اسلئے اگر تجارت ہو تو وہ برابری کی سطح پر ہونی چاہیے کہ جتنے کی چیزیں وہ ہمارے ہاں بھیجیں اتنے کی ہی ہم بھی وہاں بھیجیں۔ دوسرا یہ کہ بھارتی کلچر ہمارے ہاں بہت عام ہوچکا ہے اسے بھی روکنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔