ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں

اوریا مقبول جان  جمعرات 29 مئ 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

’’ایک چھوٹا سا بیج بویا گیا اور اس کے پھل سے ہم آج فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ عدالتی زبان کی تبدیلی تھی۔ فارسی کی جگہ انگریزی رائج کر دی گئی۔ ہندوستان کی تعلیم کو مغربیت کا رنگ دینے کے لیے یہ لازمی امر تھا۔ بظاہر یہ تبدیلی معمولی معلوم ہوتی تھی اور اس کے نتائج بھی معمولی نظر آتے تھے، لیکن مسلمانوں نے اس تبدیلی پر سخت احتجاج کیا اور فی الواقع یہ ان کے لیے سخت تباہ کن تبدیلی تھی‘‘۔ یہ الفاظ کتھرین میو (Katherine Mayo) کی کتاب ’’مدر انڈیا‘‘ سے ہیں۔

یوں تو یہ خاتون 27 جنوری1867 کو امریکی ریاست پنسلوینیا میں پیدا ہوئی لیکن وہ ایک ایسی سیاسی مورٔخ تھی جو دنیا بھر پر سفید فام اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ لوگوں کے اقتدار کی خواہشمند تھی۔ اس کے نزدیک برطانوی گورے اینگلو سیکسن پروٹسنٹ عیسائی ہیں اور ان کا اقتدار دنیا پر قائم رہنا چاہیے۔ وہ امریکا میں غیر سفید افراد کے داخلے کے خلاف تھی۔ اس نے امریکا سے فلپائن کی آزادی کی شدید مخالفت کی۔ وہ صرف اپنی تحریروں تک ہی نسل پرست نہ تھی بلکہ اس نے نیو یارک کے گرد و نواح میں مضافاتی پولیس کے قیام میں سرگرم حصہ لیا۔

اس پولیس کا مقصد امریکا میں مزید لوگوں کی آمد پر کنٹرول کرنا تھا اور مزدوروں میں جو حقوق کے جنگ کی تحریک چل رہی تھی اس پر قابو پانا شامل تھا۔ کتھرین میو اپنے اندر کے تعصب کو بالکل نہیں چھپاتی تھی اور وہ یہ سمجھتی تھی کہ دنیا میں کالے اور دیگر غیر گوری اقوام کے لوگ کسی بھی قسم کی تحریک چلائیں یا بغاوت پر آمادہ ہوں تو یہ پیدائشی طور پر حق حکمرانی رکھنے والے برطانوی گوروں کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ اس کی کتاب ’’مدر انڈیا‘‘ اس تصور کی بنیاد پر لکھی گئی تھی کہ ہندوستان کو آزاد نہیں کرنا چاہیے۔ ان لوگوں میں حکومت کرنے، ترقی کے لیے آگے بڑھنے اور دنیا پر چھا جانے کی کوئی اہلیت نہیں۔ ان کے اندر اختلافات اسقدر ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔ اس لیے انھیں آزاد نہیں کرنا چاہیے۔

اس کتاب پر بہت ہنگامے ہوئے، اس کو لوگوں نے جلایا بھی اور ساتھ میں کیھترین کا پتلا بھی نذر آتش کیا۔ یہ کتاب  1927ء میں شایع ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت عثمانیہ کو توڑ کر مسلم امہ کو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا چکا تھا اور ہندوستان ہی وہ واحد خطہ تھا جہاں سے مسلمانوں کی مرکزیت یعنی خلافت کے لیے ایک جاندار تحریک اٹھ چکی تھی۔ یہ برصغیر میں انگریزوں کے اقتدار کے بعد پہلی سیاسی تحریک تھی۔

اس ہنگامے میں یہ کتاب آئی اور اس کے خلاف پچاس سے زیادہ کتابیں یا کتابچے تحریر کیے گئے۔ گاندھی جیسے شخص نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس کا کام معاشرے کے گٹروں کے ڈھکن کھول کر دنیا کو بتاتا تھا کہ اندر کتنی بدبو ہے۔ کتھرین میو دنیا پر گورے لوگوں کی حکومت کا اپنا یہ خواب سلامت لے کر 9اکتوبر 1940ء کو اس دنیا سے چلی گئی۔ اس کی زندگی میں برصغیر پاک و ہند پر برطانیہ کا پرچم ہی لہراتا رہا۔

کتھرین میو کے تعصب اور نسل پرستی پر تنقید کرنے والے آپ کو ہزاروں مل جائیں گے لیکن اس کے بدترین مخالفین نے بھی اس پر تاریخی بددیانتی کرنے یا حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کا الزام نہیں لگایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ’’مدر انڈیا‘‘ میں ایک متعصب گورے کے اندر کا سچ کھول کر بتا دیا اور اس کے نزدیک کسی قوم کو غلام بنانے، اس کی صلاحیتوں کو ختم کرنے اور اس کو اپنے گھر اور ماحول سے بیگانہ کرنے کا سب سے آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ ان کو تعلیم اس زبان میں  دینا شروع کر دو جو گورے کی زبان ہے۔ آپ اپنی زبان میں کسی دوسرے ملک کی تہذیب و معاشرت کی کہانیاں کتنی تفصیل سے کیو ں نہ پڑھیں، آپ ان سے مرعوب نہیں ہو سکتے، آپ ان کے رنگ میں نہیں رنگ سکتے۔

لیکن جیسے ہی آپ اسکول میں داخل ہوتے ہی، تمام علوم کسی غیر کی زبان میں حاصل کرنے لگیں تو آپ کے دماغ کے تصوراتی ماحول میں جو نقشہ ایک فلم کی طرح تیار ہوتا ہے وہ آپ کا زندگی بھر کا خواب بن جاتا ہے۔ یہاں دو بچوں کی مثال لے لیتے ہیں۔ ایک وہ ہے جو اپنی زبان میں سرسوں کے کھیت، حقے کی گڑ گڑ، چکی کی گھرِ گھرِ، بیلوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی آواز، مؤذن کی اذان، قطار میں کھڑے چاول کی پنیری لگاتے لوگ اور بانسری، ڈھول اور سارنگی جسے سُروں کی کہانیاں اپنی کتابوں اور اپنی زبان میں پڑھتا ہے۔

ان کہانیوں میں اسے اپنی خاک سے جنم لینے والے ہیرو بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ دوسری جانب کتھرین میو کے خوابوں کی دنیا والا بچہ ہے جو اسی کی مطلوبہ زبان انگریزی میں اسکول میں گڈ مارنگ سے دن شروع ہوتا ہے اور کہانیوں میں ایک ایسے ماحول کی تضاد پر اپنے ذہن پر فلم کی طرح نقش کرنے لگتا ہے جو اس کے لیے خواب کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ انگوروں کی فصل پکنے اور شراب کشید کرنے کے رقص پڑھتا ہے، اس ماحول میں چیری کے پھول ہیں۔ بڑے بڑے کرسمس والے درخت ہیں۔ سانتا کلاز ہے۔ برفانی مجسمے ہیں۔ سنڈر یلا ہے جو ماں سے جھوٹ بول کر گھر سے نکلتی ہے۔

سات بونے اور سنووائٹ ہے۔ ان سب کرداروں کا ایک لباس، ماحول اور معاشرہ ہے۔ دو مختلف معاشرے دو مختلف ذہنوں میں فلم کی طرح نقش ہو رہے ہیں۔ سرسوں کے کھیت کا معاشرہ اور چیری کے پھولوں کا معاشرہ۔ ایک خواب ہے جسے اس بچے نے کبھی چھو کر نہیں دیکھا ہوتا لیکن وہ تمام عمر اس خواب کو سینے سے سجائے رکھتا ہے۔ لیکن دوسرا معاشرہ ایک حقیت ہے، اس کے اردگرد کا ماحول ہے۔ یہ ماحول اسے اپنے اردگرد نظر آتا ہے لیکن یہ کسی نرسری کی نظم میں نہیں، کسی کردار کے بچوں کی کتابوں کے قصے میں نہیں، کسی آفاقی اور زمینی ہیروز کے تصور میں نہیں۔

دنیا کے کسی مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں یہ دو معاشرے اور دو گروہ نہیں ہوتے بلکہ کسی غیر کی زبان میں علم حاصل کرنے والا گروہ تو سرے سے ہی وجود نہیں رکھتا۔ دنیا کے کسی ملک نے آج تک کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کر کے ترقی نہیں کی۔ لیکن جن پسماندہ اور محکوم قوموں نے ایسا کیا ان کے افراد آپ کو ان غیر ملکوں میں اپنی صلاحیتوں کو بیچتے نظر آئیں گے۔ فرانس میں افریقی ممالک کے لوگ اور انگلینڈ میں اس کی زیر تسلط علاقوں کے لوگ۔ یہ لوگ کتھرین میو کے غیر ملکی زبان تعلیم میں دیکھے گئے بچپن کے خوابوں میں زندہ رہتے ہیں اور اس ماحول کے سحر میں گرفتار ہوتے ہیں۔

اسی لیے انھیں اپنے گاؤں، اپنی مٹی، اپنے کھیت اجنبی لگتے ہیں۔ دھوتی والا جاہل اور داڑھی والا شدت پسند محسوس ہوتا ہے۔ برقعے والی فرسودہ اور اسکرٹ والی ترقی یافتہ نظر آتی ہے۔ یہ اوّل تو اپنے خوابوں کی دنیا کے ماحول کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں اور وہاں جا کر آباد ہو جاتے ہیں۔ نہ ہو سکیں تو اپنے گھر، ماحول اور طرزِ زندگی کو ویسا ہی بنانے کی کوشش ضرور کرتے رہتے ہیں۔ گاؤ تکیے سے صوفے، رنگین پلنگ سے ڈبل بیڈ، قتلمے سے پیزا، اور شلوار سے جینز تک کے سفر میں انھیں ایک لمحے کے لیے شرمندگی نہیں ہوتی۔

ایک غیر زبان کی کہانیوں میں ابتدائی دس سالہ زندگی گزارنے کے بعد ان لوگوں کی زبان پر ایک ہی فقرہ ہوتا ہے ہم ’’انگریزی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے‘‘ اور پھر آہستہ آہستہ ان کی زندگیوں سے اپنا سارا ماضی ایسے محو ہو جاتا ہے کہ انھیں کچھ احساس تک نہیں ہوتا۔ جس قوم سے اس کا ماضی چھین لیا جائے وہ ایک بے زمین اور بے علاقہ قوم بن جاتی ہے۔ اس کے ذہین ترین افراد ان پرندوں کی طرح ہوتے ہیں جنھیں کوئی بھی خرید کر اپنے علاقوں کی زینت بنا لیتا ہے۔ بچپن میں پڑھا ہوا خوابوں کا جزیرہ ان کے لیے کشش کا باعث ہوتا ہے۔

وہ واشنگٹن ہو یا لندن، پیرس ہو یا برلن کسی بھی جگہ جائیں تو انھیں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں ہم عین اس خواب کے ماحول میں آ گئے جو ہم نے بچپن میں اسکول میں پڑھا تھا اور وہ  ماحول کبھی ہمیں ہمارے اردگرد نظر نہیں آتا تھا۔ یہ ہے ان قوموں کا مستقبل جو ماضی سے ٹوٹ جاتی ہیں اور حال ان کا یہ کہ ٹوکریوں میں ایسے بچے سجائے بیٹھی ہوتی ہیں جنھیں دوسروں کی زبان میں علم، تربیت اور تہذیب سکھائی جاتی ہے اور مستقبل تو تاریک ہوتا ہی ہے۔ دنیا خریدار ہے اور ہم اپنی ذہین اولادیں بیچنے والے۔ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔