ہندوستان تاریخ کے دوراہے پر

اسلم خان  جمعرات 29 مئ 2014
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

ہندوستان ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے ایک ارب ہندوستانی دم سادھے اپنے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہندو قوم پرست مودی اقتصادی اصلاحات، معاشی خوشحالی اور عوام دوست حکومت کے مسحور کن نعروں کی گونج میں وزارت عظمی کی منزل تک پہنچے ہیں۔

وہ خوابوں کے سوداگر ہیں۔ خوش نما اور خوش رنگ خواب دکھا کر مدتوں بعد بی جے پی واضح پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مسلم کش رجحانات کے باوجود گجرات میں اقتصادی ترقی کا معجزہ کر دکھایا۔ خاص طور پر بجلی کے بحران پر قابو پاتے ہوئے صنعتی اور گھریلو استعمال کے لیے بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا۔ گجرات میں بجلی کی فراوانی نے ان کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ہو یا ہندوستان عوامی سہولیات کی فراہمی اور بجلی آیندہ کئی سالوں تک (Game Changer) کا کردار ادا کرتی رہے گی۔

پہلے سو دن میں نریندر مودی کو معاشی اور اقتصادی بحالی کے لیے بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے بینکوں کے 100 ارب ڈالر قرضے ڈوب چکے ہیں ان قرضوں کی وصولی کرانا ہو گی۔ افراط زر پر قابو پانا ہو گا۔ کالے دھن اور مافیا کے خلاف کارروائی کے لیے خصوصی سیل بنا دیا گیا ہے۔

ہندوستان اور نریندر مودی کی تقدیر کا فیصلہ پہلے100 دنوں میں ہو جائے گا۔ وہ جدید چین کے معمار ڈنگ ژیاؤ پنگ (Deng Xiaoping) کی طرح ہندوستان کی صنعتی ترقی اور معاشی خوش حالی کے خواب کو حقیقت میں بدل دیں گے یا پھر نظریاتی تطہیر کر کے ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھتے ہوئے ہندوستان کے قدموں کو واپس تاریکی اور اندھیروں کے سپرد کر کے پتھر کے دور میں دھکیل دیں گے۔

ڈنگ ژیاؤپنگ نے سخت گیر سوشلسٹ ریاست چین کی اقتصادی پالیسیوں کو تبدیل کر کے صنعتی انقلاب کا راستہ کھولا اور پھر ایک ملک دو نظام کا نظریہ پیش کر کے ہانگ کانگ کو واپس اپنی عملداری میں لے لیا لیکن ہندوستان اور چین کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نریندر مودی کے لیے فرسودہ انتظامی مشینری، قدامت پسند نظریاتی ساتھیوں اور آتش بجنگ اور تنگ نظر کارکنوں کے جلو میں اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد کوہ گراں سر کرنے سے بھی مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہو گا۔اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے، پیداوار کی سست روی ختم کرنے، غیر پیداواری اخراجات کم کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔

خارجہ پالیسی کے میدان میں مودی نے جنوبی ایشیائی رہنماؤں کو مدعو کر کے نیا باب کھول دیا ہے اب مودی کو امریکا اور چین سے تعلقات کو متوازن انداز میں بڑھانا ہو گا۔ اقلیتوں کے بارے میں جناب مودی کا رویہ بڑا افسوس ناک رہا ہے۔ انھیں بھارت کے وزیر اعظم کے طور پر اعتماد سازی اور تعلقات کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

ہندوستان کے لیے امن و امان اور اندرون ملک تحفظ بڑا پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے خاص طور پر ماؤ باغی پوری طاقت کے ساتھ حکومت کی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ماؤ باغیوں نے لوہے کی کانوں کے علاقے کو میدان جنگ بنا کر رکھ دیا ہے اور کان کنی کرنیوالے تمام سرکاری و غیر سرکاری چھوٹے بڑے اداروں کو بھتہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح مرکزی سرکار کے ریاستوں سے تعلقات کو بہتر بنانا ناگزیر ضرورت بن چکا ہے جس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہو گی۔تنگ نظر اور انتہا پسند کارکنوں کی ذہنی آسودگی کے ساتھ عالمی برادری میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا رُخ روشن نمایاں رکھنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہو گا۔

ویسے مودی جی نے اپنے قدیم اور فرسودہ ہندوتوا کے نظریے کو جدید ضروریات سے ہم آہنگ کر کے کمال کر دیا ہے وہ عالمی رہنماؤں کے خصوصی (IT Club) میں شامل ہیں جو ٹویٹر اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کی تمام سہولیات استعمال کرتے ہیں، نریندر مودی  لیزر لائیٹس کے ذریعے3D ٹیکنالوجی کا شہکار Hollogram استعمال کرنیوالے پہلے عالمی رہنما ہیں۔یہ جمہوریت کا کرشمہ ہے کہ نسل در نسل سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونیوالے نہرو خاندان کے سپوت راہول گاندھی کو گمنامیوں کی تاریکیوں میں دھکیل کر نچلی ذات کے تیلی خاندان کا چشم و چراغ آج ہندوستان کا وارث بنا ہوا ہے۔

’صرف تعلیم اور معاشی ترقی ہندوستان کو بچا سکتی ہے یہی میرا ایجنڈا اور منشور ہے تمام مسائل اور بیماریوں کا علاج معاشی ترقی کے اَمرت دھارے سے ممکن ہے‘ گجرات میں مودی نے خالی خولی نعروں کی بجائے اپنے دعوؤں پر عمل کر کے دکھایا تھا۔جب سارا ہندوستان تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا گجرات کے کارخانوں اور زرعی ٹیوب ویلوں کو 24 گھنٹے بجلی کی بلا تعطل سپلائی جاری تھی اس لیے جب انتخابی مہم کے دوران مودی یہ بلند و بانگ دعوی کرتے تھے کہ ہم ہندوستان کا شاندار مستقبل تحریر کریں گے خوشحال ہندوستان عالمی برادری میں اپنا اصل مقام حاصل کر کے رہے گا۔

ہم امن عالم اور استحکام کے لیے شانہ بشانہ چلیں گے تو رائے دہندگان نے آنکھیں بند کر کے ان تمام دعوؤں پر یقین کر لیا یہ بھی مودی ہیں جنہوں نے واشگاف اعلان کیا تھا کہ خارجہ پالیسی اپنے گھر کی دہلیز سے شروع ہوتی ہے ہم اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات کا آغاز کریں گے۔ ان کا واضح اشارہ پاکستان کی طرف تھا وہ ازلی حریف جس کے ساتھ صرف ایک حقیقی تنازعہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں موجود ہے اب اپنی پارلیمانی قوت اور (Street Power) کے ذریعے وہ اس تنازعہ کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت ختم کرانے کے لیے میدان میں آ گئے ہیں، کشمیر کو بھارت کا صوبہ بنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی مہم شروع کرنیوالے ہیں۔ نریندر مودی کو اس  بات کا بخوبی ادراک ہے کہ بھارت کے ہمسایوں کے ساتھ خراب تعلقات کا سب سے زیادہ فائدہ چین نے اُٹھایا ہے جو سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان میں نئی بندرگاہوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

مودی نے حلف برداری کی تقریب میں سارک سربراہان کو مدعو کر کے ترپ کا پتّا کھیلا تھا لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے تمام سیاسی اور غیر سیاسی تحفظات اور مخالفتوں کے باوجود اس میں شرکت کر کے نریندر مودی کو شاہ مات دے دی۔ اگرچہ انھوں نے روایتی طور پر ہمیشہ کی طرح کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی بجائے جامعہ مسجد دہلی اور لال قلعہ کے تفریحی دورے کو ترجیح دی۔

وزیر اعظم نواز شریف نے عالم فاضل صاحبزادی مریم نواز کی بجائے، غیر سیاسی مگر کاروباری بیٹے حسین نواز کو اپنے ہمراہ لے جانے کو ترجیح دی جب کہ شملہ معاہدے کے لیے جانے والے وفد میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے غیر سیاسی بیٹوں پر اپنی وارث ’پنکی‘ کو ترجیح دی تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو سرکاری وفد کے ہمراہ تھیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جناب نواز شریف اپنی سیاسی وراثت کے بارے میں گومگو کا شکار ہیں۔

نریندر مودی، ملنگ قسم کی شخصیت ہیں وہ سنیاسی بننا چاہتے تھے انھوں نے عین جوانی میں گھر سے بھاگ کر بن باس لیا وہ ہمالیہ کی ترائیوں میں اُتر گئے برف پوش چوٹیوں کی گھپاؤں میں مقید سادھوں اور سنتوں کی خدمت میں برس ہا برس بِتا دیے ۔ جب واپس آئے تو دل جمعی سے لاری اڈے میں چائے کے کھوکھے پر ’چھوٹے‘ کا کردار ادا کرتے رہے انھوں نے غربت کی تلخیوں کا ذائقہ چکھا ہے، کامل ایک دہائی تک گجرات میں مختار کل رہنے والے نریندر مودی آج بھی 6 مرلے کے مکان میں آسودگی سے رہتے ہیں کہ جوانی میں ہندوتوا کے پرچارک، در در کی ٹھوکریں کھانے والا نوجوان مودی فٹ پاتھ اور تھڑے پر ہی سو جایا کرتا تھا۔ وہ سادگی اس کے خون میں رچ بس چکی ہے۔ اب وہ سارے ہندوستانیوں کے نمایندہ ہیں جن میں 18کروڑ مسلمان بھی شامل ہیں جن کے قتل عام پر مودی نے مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی سے کام لیا تھا۔

برصغیر کے ڈیڑھ ارب باسیوں کی تقدیر کا براہ راست تعلق موسمی تغیرات اور مون سون کی بارشوں سے ہوتا ہے ہندوستان میں اقلیتوں کا گھمبیر معاملہ بھی مودی سرکار کے لیے سر درد بنا رہے گا انتخابی مہم کے دوران انھوں نے غیر قانونی مقیم بنگلہ دیشی باشندوں کو اپنا بوریا بستر گول کرنے کی دھمکی دی تھی جب کہ بنگلہ دیشی ہندوؤں کو اپنے پریوار کا حصہ قرار دیا تھا۔ اب وہ بنارس کے شمشان گھاٹوں کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے اور انھیں خوبصورت بنانے کے لیے 80 کروڑ روپے کے بجٹ کا اعلان کر چکے ہیں ۔

جس سے ان کی اندرون ملک ترجیحات واضح ہو رہی ہیں۔رہا تہذیب مغرب سے مرعوبیت کا مسئلہ تو ساری دنیا نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ مودی اور ان کے وزراء نے ہندی میں حلف اُٹھایا وہ بڑی سادگی اور وقار کے ساتھ مقامی لباس پہنے ہوئے اسٹیج پر آئے سارک کے دیگر رہنما بھی اپنے قومی لباسوں میں ملبوس تھے صرف پاکستانی وفد ہی سوٹڈ بوٹڈ  سرخ رنگ کی ٹائیوں میں ملبوس تھا۔مودی کے لیے بہت بڑا درد سر آر ایس ایس کے وہ جیالے کارکن بھی ہوں گے۔

جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران دیوانہ وار کام کیا تھا جو صدیوں سے کثیر المذہبی ہندوستان کی سیکولر پہچان کو بدل کر ہندو ریاست کی شناخت دینا چاہتے ہیں یہ باوردی رضاکار دورسے ہی پہچانے جاتے ہیں ان کو انتخابی ہنگامے کے بعد تعمیر اور ترقی کے لیے صبر آزما مراحل سے گزارنا ہو گا۔ کیا مودی اپنی کرشماتی شخصیت اور زور بیان کے سہارے یہ اہداف حاصل کر پائیں گے؟آج کے جدید اور جمہوری ہندوستان کے لیے یہ سب سوالیہ نشان زندگی اور موت کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔