جعلی کاغذ اور حقیقی کبڈی

راؤ منظر حیات  جمعـء 30 مئ 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

قومی رویوں سے اس ملک کی ساخت، کامیابی اور ناکامی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کون سا ملک اور معاشرہ ترقی کی بے رحم دوڑ میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ یہ اب بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح، لوگوں کے رویوں سے ان کے اپنے خطہ میں ناکامی کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔

زندہ قومیں اپنے ماضی پر تو نظر رکھتی ہی ہیں، مگر وہ اپنے حال پر قادر ہوتیں ہیں۔ وہ مستقبل کے اگلے پچاس یا سو سال کی منصوبہ بندی کسی جذباتیت کے بغیر ترتیب دے سکتیں ہیں۔ آپکے پاس مکمل اختیار ہے کہ ان سے اتفاق نہ کریں مگر حقائق اور دلیل کی روشنی میں اکثر ان ملکوں کی قومی سوچ سے متفق ہونا پڑتا ہے۔

اس کے بالکل برعکس ناکام ریاستیں اپنے ماضی میں زندہ رہتی ہیں۔ وہ عملی طور پر بھی آپکو ہر مسئلہ میں ماضی کی دلیل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ ملک اپنے حال اور زمانے کو نظر انداز کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی قیافہ نہیں لگا سکتے۔ یہ ناکام ریاستیں، ناکام معاشرے اور ناکام لوگوں کو پہچاننے کا ایک موثر پیمانہ بھی ہے۔

ہمارے مسلمان بادشاہوں نے تاریخ کو اپنی ذات کے حوالے سے ترتیب کروایا ہے۔ جن حکمرانوں کی تعریف کرتے کرتے ہم بے حال ہو چکے ہیں،انھوں نے اکثر اپنے زمانے کی تاریخ اپنے دربار میں اپنے تاریخ دانوں سے خود لکھوائی ہے۔ یہ مبالغہ، جذباتیت اور ذاتیات پر مبنی قصیدے ہیں۔ اب ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں انکو پورا سچ تسلیم کریں اور کوئی سوال بھی نہ اٹھائے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم اپنے عظیم قائد کے متعلق بھی ایک جیسا قومی رویہ نہیں رکھتے۔

مذہبی رجحان والے کیمپ نے انھیں مولانا بتایا ہے۔ سیکولر لوگ انکو ایک لبرل اور ترقی پسند رہنما جتلاتے ہیں۔ کوئی اس بے مقصد بحث سے اوپر نکل کر یہ نہیں کہتا کہ ہم قائداعظم کے بنائے ہوئے ملک میں ان کے بتائے ہوئے رستہ پر چلتے ہوئے غریب آدمی کی زندگی کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں! ہم کیسے ان کی سیاسی عملیت پسندی کو اپنا سکتے ہیں؟ اس پر سب خاموش ہیں۔ ہم کسی قیمت پر ترقی نہیں کرنا چاہتے۔ ہم مسلسل اور مکمل بحث کا شکار ہیں۔ مجھے امریکی سفیر کا اخباری بیان نہیں بھولتا جس میں اس نے کہا تھا کہ جتنے لوگ بھی اس کے ملک کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں سے اکثریت امریکا کے ویزہ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

میں دو ہفتوں کے بعد پیرس اور ابو ظہبی سے آج ہی واپس پہنچا ہوں۔ دو ہفتو ں میں مصروفیت اور سفر کی وجہ سے کوئی اخبار نہیں دیکھ سکا۔ آج مختلف اخبارات پر نظر پڑی تو احساس ہوا کہ ہر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ وہی روایتی اخباری بیانات، وہی تنازعات اور وہی مسئلے! رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔ ہر چیز نفرت، مبالغہ اور جھوٹ کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ آپ یہاں بیٹھ کر اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر کتنی خوفناک تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔

سی این این پرسوں امریکی صدر بارک اوباما کی تقریر دکھا رہا تھا۔ اس کی تقریر کے درمیان پاکستان کے متعلق بریکنگ نیوز آنی شروع ہو گئی۔ لاہور میں ایک باپ نے اپنی پچیس سالہ بیٹی کو اینٹیں مار کر قتل کر دیا تھا۔ وجہ اس لڑکی کی پسند کی شادی تھی۔ باپ نے اس قتل کا اعتراف کرنے کے بعد اس پر کسی ندامت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ دل بیٹھ سا گیا۔ آپ یقین فرمائیے! سارا دن فرانس میں اس لڑکی کے باپ کی تصویر اور اس مقتولہ کی تصویر دکھائی جاتی رہی۔ شام کو ٹاک شوز میں اس مسئلے پر ہمارے خلاف تبصرے کیے گئے۔ اس کے بعد کچھ منفی اعداد و شمار کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ پاکستان کے سماجی حالات، خواتین کے حقوق اور ہمارے ملک میں شدت پسندی پر بہت بحث کی گئی۔ وہاں ہمارے ملک کا کوئی بھی ہمدرد نہیں ہے۔ کوئی یہ صفائی دینے کو تیار نہیں ہے کہ یہ انفرادی واقعہ ہے۔

حکومتی اور میڈیا کی سطح پر بھی کوئی ہمارے حق میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آپ کسی جگہ صر ف یہ بتا دیں، کہ آپکا تعلق پاکستان سے ہے، آپ سے رویہ انتہائی سخت اور کھردرا سا ہو جائے گا۔ عام شخص کی بات تو چھوڑ دیں، ہمارے حکمرانوںمیں سے کوئی بھی،جی ہاں، کوئی بھی برابری کی سطح پر ان مغربی ممالک کے وزیر اعظم اور صدر سے بات نہیں کر سکتا۔ ہماری سیاسی قیادت کو بلا تخصیص ہر جگہ انتظار کروایا جاتا ہے۔ ہم لوگ ہر جگہ بے عزتی کا شکار ہوتے ہیں۔

واپس آ کر ہمارے بیانات بالکل ایک جیسے ہیں کہ بیرونی دورے مکمل کامیاب رہے۔ ہمارے وزراء اور وزیر اعظم اکثر جگہ سرکاری سطح پر وہ عزت اور توقیر حاصل نہیں کرتے جو ہمارے ہمسایہ ممالک کو حاصل ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے! میری نظر میں، ترقی یافتہ ممالک کو اندازہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اپنی قوم کو سچ نہیں بتا سکتی۔ وہ مسلسل جھوٹ کے پردے میں رہ کر بات کرتے ہیں۔ ہماری کمزوریاں ہمارے مخالف ممالک کی اصل طاقت ہیں۔

ابو ظہبی میں صدیق صاحب1964ء سے مقیم ہیں۔ وہ شروع سے ہی تعمیراتی شعبہ سے منسلک ہیں اور اب وہ کافی بہتر مالی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ ابو ظہبی کو تو بنایا ہی پاکستانیوں نے ہے۔ انھوں نے شیخ زاید کے مختلف قصے بیان کیے۔ 1965ء میں شیخ زاید نے سالانہ سلامی لی تو اس کے پاس صرف 30 سپاہی تھے۔ جب سپاہیوں سے سلامی لے لی تو کنسٹرکشن کے لیے آئے ہوئے ٹرک اور مختلف مشینوں نے شیخ زید کے سامنے سلامی کے لیے گزرنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا اور شیخ زید کئی گھنٹے اسٹیج پر کھڑے رہے۔ وہ کام نہ کرنے والے ٹھیکداروں کو الٹا ٹانگ دیتا تھا۔

صدیق صاحب کے بقول وہ خود اب ابو ظہبی اور دبئی کی ترقی کو پہچان نہیں سکتے۔ صرف تیس چالیس سال پہلے کا یہ ملک اور اب کا یہ ترقی یافتہ ملک دونوں خواب کی طرح لگتے ہیں۔ یہ صرف پاکستان سے آئے لوگوں کا اعجاز ہے کہ انھوں نے صحرا کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کر دیا جہاں دنیا کا بہترین اسٹرکچر اور نظام موجود ہے۔ مگر میرے پاس صدیق صاحب کے کسی سوال کا جواب موجود نہیں تھا۔ سوال صرف اس نکتہ کے ارد گرد گردش کرتا تھا کہ دوسرے ملکوں کو عظمت دینے والے لوگ اپنے ملک میں کسی آسیب کا شکار ہیں۔ ہم روز بروز پستی کی طرف کیوں رواں دواں ہیں؟

پیرس میں مجھے ایک دکان پر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دکان پر سیاحوں کے لیے چھوٹی چھوٹی اشیاء فروخت ہو رہی تھیں۔ اتفاق سے اس کا مالک ایک پاکستانی نکلا۔ اس کا تعلق گجرات سے تھا اور وہ تیس سال سے پیرس میں مقیم تھا۔ اس نے باتیں شروع کر دیں۔ وہ تلخ ہوتا چلا گیا۔ میرے ایک سوال پر کہ تمہیں کبھی پاکستان بھی یاد آتا ہے، وہ خاموش سا ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اس کے بچے کالج سے تعلیم حاصل کر کے اب دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔

ہر بچے کو حکومت چھ سو یورو یعنی تقریبا ًایک لاکھ روپیہ ماہانہ وظیفہ دیتی ہے۔ تعلیم مکمل مفت ہے۔ بچوں کا مستقبل پوری طرح محفوظ ہے۔ پھر وہ مشکل باتیں کرنے لگ گیا۔ بتانے لگا کہ اس کی بچیاں فرانس میں پاکستان سے زیادہ محفوظ ہیں۔ پھر اس نے مجھے اپنی دکان سے بالکل متصل ایک تھری اسٹار ہوٹل دکھایا۔ وہ اس کا مالک تھا۔ بلکہ اس سڑک پر اکثر پراپرٹی اس کی تھی۔ وہ پاکستان کے حالات سے بہت دل برداشتہ نظر آیا۔ اس نے مجھے فرانس میں زبانی طور پر جائیداد کی ایک لمبی فہرست گنوا دی جو ہمارے سیاسی اکابرین نے گزشتہ پندرہ بیس سالوں میں وہاں خریدی تھی۔E.U اب مکمل ایک سلطنت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

ان کے اپنے بہت سے مسائل ہیں مگر ہمارے ملک کے متعلق ان کا رویہ مجموعی طور پر ایک جیسا ہے۔ کئی بار آپ بتا بھی نہیں سکتے کہ آپکے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے شخص نے بتایا کہ اب وہ بالکل پاکستان نہیں جاتا۔ قانون کی حکمرانی کے متعلق بھی اس کا تجزیہ بہت دلچسپ تھا۔ غلط پارکنگ پر اسکو130یورو جرمانہ ہوا۔ وہ اس نے فوری طور پر ادا کر دیا۔ غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنی گاڑی ایک اسپتال میں مریضوں کے لیے مختص پارکنگ میں لگا دی تھی۔

کہنے لگا کہ اگر وہ ایک بار جرمانہ ادا نہیں کریگا تو چند ماہ بعد گھر خط آ جائے گا کہ اب اس جرمانے کی رقم کو دوگنا کیا جاتا ہے۔ اگر پھر بھی کوئی شخص ادا نہ کرے، تو  پولیس گھر آ کر اس کو گرفتار کر لیتی ہے اور وہ اس وقت تک جیل میں رہتا ہے جب تک جرمانے کی تگنی رقم ادا نہیں کرتا۔ یہ ہے قانون کی حکمرانی کی ایک ادنیٰ سی مثال!

مجھے پیرس میں تقریب کے دوران ایک چھوٹے شہر کے فرانسیسی میئر نے بہت مختلف باتیں بتائیں۔ ان کے شہر میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ یہ پاکستانی ان کی سیاسی طاقت ہیں۔ وہ انکو ووٹ ڈال کر میئر اور پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کرواتے ہیں۔ وہ ہمارے ملک کے لوگوں سے بہت متاثر تھا۔ اس کے حلقے میں پاکستانی پورا ٹیکس دیتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کا مقامی لوگوں سے بہت اچھا تعلق بھی بن چکا ہے۔

ایک اتوار کو چھٹی والے دن وہ باہر نکلا تو گراؤنڈ میں درجنوں پاکستانی ایک عجیب سا کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہ بھی ان میں شامل ہو گیا۔ یہ کھیل دراصل کبڈی تھی۔ وہ ایک گھنٹہ کبڈی کھیلتا رہا۔ اس کے بعد جب اس نے کھلاڑیوں کو بتایا کہ وہ اس شہر کا میئر ہے تو تمام ٹیم وہاں سے بھاگ گئی۔ وہ سارے لوگ ویزے کے بغیر رہ رہے تھے۔ ان کے رہنے کے کاغذ پورے نہیں تھے او ر کچھ کے پاس جعلی کاغذ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میئر انکو گرفتار کر لے گا۔

ہمارے ملک کے مسائل کا حل کسی بھی باہر کے ملک کے پاس موجود نہیں ہے۔ ہم اپنی تمام مشکلوں کو خود حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمران عرصے سے ہمارے ساتھ صرف جعلی کبڈی کھیلنے میں مصروف ہیں۔ یہ عوام کے مسائل کو چھوتے تک نہیں ہیں۔ یہ اور ان کا جھوٹ اب ہمارے لیے ملکی اور غیر ملکی سطح پر ندامت کا باعث ہے! شائد جس دن اس ملک میں حقیقی کبڈ ی شروع کی گئی،اسی روزسے ہماری حالت بہتر ہونی شروع ہوجائے! لگتا ہے کہ ابھی وہ دن کافی دور ہے! شائد ہمارے ملک میں عام شہریوں کے اقامتی کاغذ مکمل جعلی ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔