کیا ہم سب مجرم ہیں

عبدالقادر حسن  جمعـء 30 مئ 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستانی معاشرے میں بدامنی حد سے بڑھ رہی ہے۔ کوئی جہاں بھی ہے خوفزدہ ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں۔ گھروں کے اندر ذرا ذرا سی بات پر کوئی بہو قتل کر دی جاتی ہے۔ غیرت کے نام پر بہنوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے مگر یہی غیرت دشمن کے سامنے ظاہر نہیں ہوتی۔ نوجوان کھیلتے کودتے ہنسی مزاح میں کسی بات پر مشتعل ہو کر دوست کو قتل کر دیتے ہیں۔

جرائم کئی قسموں کے ہوتے ہیں لیکن سب سے بڑا جرم انسانی جان کا قتل ہے اور یہی جرم معاشرے میں عام ہے یعنی ہم نے سب سے زیادہ بھیانک جرم سب سے عام کر دیا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ قتل کے بعد اگر مجرم پکڑا بھی جائے تو وہ چند دن حوالات میں رہتا ہے جہاں اس کے رشتہ دار اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور پھر چند ہی دنوں کے بعد اس کی ضمانت ہو جاتی ہے۔ جس مقدمے میں ضمانت ہو گئی تو وہ مقدمہ تو گیا اور ماہرین قانون کے قابو میں آ گیا متعلقہ پولیس کی مدد سے اس کی ایسی شکل سامنے آئی کہ قتل کا عینی گواہ ہی غائب ہو گیا اور جس مقدمے میں گواہ نہ ہو اس میں سزا کیسے مل سکتی ہے۔

وہ دن گئے جب میرے گاؤں میں بھی کوئی لنگڑاتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ دونوں ٹانگیں پھیلا کر چلنے والا۔ یہ وہ عمر قیدی تھا جو کالے پانی کی قید کاٹ کر آیا تھا۔ پاؤں اور ٹانگوں میں ہر وقت زنجیروں کی وجہ سے چال ہی بدل گئی۔ کوئی کڑیل جوان بھی آدھا ہو کر جیل سے باہر نکلا اور اس نے باقی ماندہ زندگی اسی سزا یعنی عمر قید میں ہی نیم معذوری کی حالت میں بسر کر دی۔ گھر کے کام کاج بھی جاری رہے اور گھر کا یہ مرد کچھ نہ کچھ کما کر لاتا بھی رہا  لیکن یہ میں انگریز کے زمانے کی بات کر رہا ہوں جو انصاف کا زمانہ تھا اور حاکم انصاف پر جان دیتا تھا۔ کوئی مجرم بغیر سزا سے بچ کر نہیں جاسکتا تھا۔

اگر رعایا میں سے کوئی باغی ہو گیا یعنی عام پولیس کے قابو سے نکل گیا تو انگریز افسر نے ریوالور ہاتھ میں لیا اور اسے للکارتا ہوا اس سے بھڑ گیا اور کہا کہ ملکہ کا باغی آزاد کیسے رہ سکتا ہے۔ یہ تاج برطانیہ کی توہین ہے۔ مگر اب تو کسی بات کی کوئی عزت ہی باقی نہیں رہی کہ اس کی توہین ہو۔ ہم باغی کسی غیر حکومت کے نہیں وہ بھی اپنی حکومت کے ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے آپ کے گرد و پیش میں بھی کوئی باغی بھڑکیں مار رہا ہو اور بہادر سمجھا جاتا ہو۔

میں برطانوی دور کا کچھ تذکرہ اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اسی دور سے سیکھا ہے اور اسی دور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے حکومت اسی دور سے لی تھی۔ ایک بار ایک تھانے دار کی غلط فہمی سے تین افراد کو پھانسی لگ گئی۔ اصل مجرم بہت ہوشیار تھا انھوں نے گاؤں سے باہر ایک ڈیرے پر واردات کرنے کے بعد اس ڈیرے کے مخالفوں کے ڈیرہ کے قریب جا کر شور کیا تو کتے بھونکتے ہوئے باہر آ گئے ان کا مقصد بھی بس یہی تھا وہ اسی رات کتوں کو بھونکتا چھوڑ کر غائب ہو گئے جب مقدمہ بنا تو مقتولوں کے مخالفوں کے خلاف بنایا گیا جہاں رات کو کتوں کا شور ثبوت بنا دیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد تھانیدار کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا اور وہ سر جھکا کر ایس پی کے سامنے حاضر ہوا اور ساری بات بیان کر دی۔ اس مقدمے میں تھانیدار اور ایس پی دونوں ملزم تھے۔ ایس پی نے تھانیدار کو چھٹی پر بھیج دیا اور خود کچھ عرصہ بعد لندن چلا گیا جہاں اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور کہیں گم ہو گیا۔ تھانیدار بھی غائب ہو گیا۔ برطانوی پولیس کے یہ دونوں افسر اس بلا کے فرض شناس تھے کہ انھوں نے عمر بھر کی نوکری کی قربانی دے دی۔ ہمارے ہاں آج کیا نہیں ہوتا لیکن نہ کوئی تھانیدار موجود ہے نہ ایس پی۔ بس پولیس ہے۔

ہمارے ہاں جرائم میں اضافہ کی سب سے بڑی وجہ پولیس ہے جس سے نہ کوئی باز پرس کرتا ہے اور نہ کوئی انعام دیتا ہے۔ ابھی دو دن ہوئے کہ عدالتوں کے اندر ایک خاتون کو پتھر مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ وزیر اعظم تک اس خبر سے برہم ہو گئے اور انھوں نے اس کی فوری سزا کا حکم دیا کہ ملزموں کو سخت سزا والی عدالت میں پیش کیا جائے لیکن عدالت دہشت گردی والی ہو یا کوئی اور اس کی پیروی تو بہر حال پولیس نے کرنی ہے۔

جسے ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے مغربی ملکوں کی پیروی کرتے ہوئے سزائے موت کو عملاً ختم کر دیا ہے یعنی اگر کوئی نالائق اور بے وسیلہ ملزم عمر قید کی سزا تک پاتا بھی تھا تو موت سے بچ جاتا تھا۔ آپ کسی کو قتل کر دیں اور پھر موت سے بچ جائیں تو پھر اور کیا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے معاشرے پر یہ بڑی زیادتی کی ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے عملی زندگی میں ہم جس اخلاقی زندگی تک پہنچ چکے ہیں اس میں ہمیں سخت سے سخت سزا کی ضرورت ہے کجا کہ پہلے سے موجود کسی سزا کو ختم کر دیں۔ کچھ یوں لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو موت کی سزا سامنے دکھائی دے رہی تھی جس سے بچنے کے لیے انھوں نے یہ سزا ہی سرے سے ختم کر دی ورنہ کیا وجہ ہے کہ کوئی قتل کرے اور موت کی سزا سے بچ جائے۔ کسی معاشرے میں اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے۔

آپ اگر اخبار پڑھتے ہیں تو آج کے اخبار کو دیکھ لیں آپ کو اپنی اخلاقی زندگی صاف صاف دکھائی دے گی۔ قتل کی وارداتیں ہیں۔ اغوا کی ہیں اور سب سے خوفناک اور دل ہلا دینے والی معصوم بچیوں کی بے حرمتی ہے اور جب پولیس اس بے حرمتی پر حرکت میں نہیں آتی تو پھر اس جرم کا نشانہ بننے والی بچیاں خود سوزی کر لیتی ہیں۔ معلوم نہیں اس کی فریاد لے کر کوئی کس کے پاس جائے۔ پہلے تو پولیس ہوتی تھی اب کون ہے۔ اللہ کی اس زمین پر کوئی تو ہو گا یا پھر ہم ایسے ہر جرم کو اللہ کے سپرد کر دیں کہ وہی مجرم کی سزا دے گا جن انسانوں کو اس نے ذمے دار بنایا تھا اور ایسے جرائم کا ازالہ جن کے سپرد تھا وہ تو سب کے سب دشمن کے ساتھ مل گئے ہیں۔

اگر حالات ایسے ہی رہے تو پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان جرائم کا گڑھ بن جائے گا اور دنیا کے اعداد و شمار والے ادارے اس کی مثال دیا کریں گے۔ کیا کوئی حکمران احساس کر سکتا ہے کیونکہ ایسے جرائم کا انسداد حکمران کی کر سکتے ہیں اور قیامت کے روز باز پرس بھی ان سے ہو گی۔ ان کے سنگ ہائے بنیاد ان کی سفارش نہ کر سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔