صحافیوں کے غیر ملکی دورے

نصرت جاوید  جمعـء 30 مئ 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کسی اور کی ذات میں کیڑے نکالنا میری عادت نہیں۔ اپنے ہی گریبان میں جھانکنے سے فرصت نہیں ملتی اور ایسا کرتے ہوئے زیادہ تر شرمندہ ہی ہوا۔ فخر و انبساط کے مواقع شاذ و نادر ملے۔ اس وقت بھی لہذا اپنی بات سمجھانے کے لیے حوالہ اپنی ہی ذات کا دوں گا۔

اسلام آباد میں رہ کر انگریزی اخباروں کے لیے رپورٹنگ اور بعدازاں کالم لکھنے کی وجہ سے میری کافی مشہوری ہو گئی۔ بڑے لوگوں نے اپنی محفلوں میں بلانا شروع کر دیا۔ سیاستدانوں سے گہری دوستیاں ہو گئیں۔ حتیٰ کہ بہت سارے غیر ملکی سفارتکار پاکستان میں اپنی تعیناتی کے دوران مجھے اپنے گھر کا ایک رکن بنا کر پیار و محبت نچھاور کرتے رہے۔ اس سارے ٹہکے شہکے کے باوجود آخری تنخواہ جو میں نے انگریزی کے ایک بڑے اخبار سے وصول کی وہ ان دنوں میری صحافت ہی سے ماہانہ آمدنی کا دسواں حصہ بھی نہیں تھی۔

میں اس تنخواہ سے صرف اپنے گھر کا کرایہ ادا کرتا تھا۔ بجلی وغیرہ کے بل اور گھر کے دوسرے تمام امور مالی طور پر میری بیوی کی ذمے داری ہوا کرتے تھے۔ بیوی کی محبت نے مجھے ایمان داری کے ساتھ اپنے پیشہ وارانہ فرائض نبھانے کے قابل بنائے رکھا۔ اس کا ساتھ نہ ہوتا تو میں ہرصورت بالآخر اپنی پیشہ وارانہ حیثیت کو غیر صحافتی ذریعوں سے پیسے اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتا۔ میری خوش بختی کہ اس طرف راغب ہونے کے مواقع پیدا نہ ہوئے۔ ایسے مواقع کی موجودگی میں خطاء کی طرف مائل نہ ہوتا تو پارسائی کے دعوے کرنے کا حقدار بھی ہوتا۔

میرے چند پیارے دوستوں کو اخباری صحافت سے ٹیلی وژن منتقل ہو جانے کی وجہ ِسے شہرت کے ساتھ ساتھ مجھ سے کہیں زیادہ مالی راحت بھی ملی۔ ایسی راحت مل جائے تو ربّ کا شکر ادا کرنے کے بعد اسے Enjoy کرنا چاہیے مگر ہوا یہ کہ مالی راحت کے سرور میں میرے چند محترم دوستوں نے اپنی صحافی برداری کو ’’بااصول‘‘ اور پارسا بنانے کی ٹھان لی۔ وہ اپنے مقصد میں کتنے کامیاب ہوئے اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ مگر صرف ایک پیشہ وارانہ صحافی ہوتے ہوئے میں یہ بات کہنے پر مجبور ہوں کہ صفائی ستھرائی کی اس مہم نے میرے بہت سارے نوجوان ساتھیوں کو، خاص طور پر وہ جو اب بھی صرف اخباروں کے لیے کام کرتے ہیں اپنی پیشہ وارانہ نمو کے حوالے سے بہت سارے امکانات سے محروم کر دیا۔

ایوب خان کے زمانے سے اس ملک کے صدور اور وزرائے اعظم اپنے غیر ملکی دوروں کے لیے صحافیوں کو اپنے سرکاری جہازوں میں ساتھ بٹھا کر لے جایا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس معاملے میں بہت مثبت انداز سے آگے بڑھے۔ ان کے زمانے میں غیر ملکی دوروں پر تواتر کے ساتھ جانے والے اپنے چند بزرگوں سے جب بھی عالمی معاملات پر گفتگو کرتا ہوں تو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ان میں سے کئی ایک کا اُٹھنا، بیٹھنا اور خارجہ امور پر بات کرنے کا انداز ہمارے کئی سفارت کار بابوؤں سے کہیں زیادہ باوقار اور متاثر کن ہے۔ جنرل ضیاء نے بدقسمتی سے اس روایت کو ایک طرح کی سرپرستانہ رشوت میں تبدیل کر دیا اور ان کے بعد آنے والی تمام جمہوری اور مشرف کی فوجی حکومت کو یہی چلن اختیار کرنا پڑا۔

مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب جنرل مشرف کے سب سے زیادہ بااعتماد سول افسر طارق عزیز صاحب نے مجھے بتایا کہ ان کے صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی صحافی ان کے غیر ملکی دورے کی کوریج کرنا چاہے تو اس کے اخراجات اس کے ادارے کو ادا کرنا ہوں گے۔ 9/11 کے بعد جب جنرل صاحب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے گئے تو میں اپنے دفتر کے دیے ٹکٹ اور پیسوں سے اس دورے کی کوریج کو گیا تھا۔

وہاں سے لوٹنے کے بعد میں نے طارق صاحب کو ایک اور ملاقات میں صاف بتا دیا کہ ان کے صاحب اپنے دورئہ امریکا کی کوریج سے خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ مجھے یقین ہے اب وہ بھی صحافیوں کو ’’سیرسپاٹے‘‘ پر لے جانا شروع ہو جائیں گے۔ مجھے یہ بتلاتے ہوئے کوئی خاص خوشی نہیں ہو رہی کہ میرے اس دعوے کے عین ایک سال بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہوا اس کے لیے جہاز کا ٹکٹ اور روزمرہّ اخراجات کے لیے رقم حکومتِ پاکستان نے فراہم کی۔ پھر جنرل صاحب مجھ سے شدید ناراض ہو گئے اور میں ان کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر جانے کی سہولت سے محروم ہو گیا۔

میرا اعتبار کرنے کو دل چاہے تو مان لیجیے کہ ذاتی طور پر مجھے سرکاری دوروں پر صدر یا وزیر اعظم کے ساتھ جانے سے بہت خوف آتا تھا۔ لوگ تو کیا آپ کے اپنے ساتھی ایسے دوروں پر جانا ’’چمچہ گیری‘‘ سمجھتے تھے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ان دوروں کے دوران ایک رپورٹر کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے۔ خبر ڈھونڈنا، لکھنا اور اسے اپنے دفتر وقت پر پہنچانا ایک ایسا عذاب ہے جسے صرف ایک رپورٹر ہی سمجھ سکتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے دوسرے دورِ حکومت میں مجھ سے سخت ناراض رہیں۔ میں ان کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر جانے سے انکار کر دیتا تھا اور وہ سمجھتیں کہ میں ان کے ’’دشمن کیمپ‘‘ میں چلا گیا ہوں۔

محمد خان جونیجو مرحوم سے لے کر جنرل مشرف کے دور تک میں جب بھی کسی حکمران کے ساتھ غیر ملکی دورے پر گیا تو صرف اور صرف اپنے ایڈیٹر کے سخت گیر حکم کی اتباع میں۔ ایسے دوروں سے جڑی اذیتوں کے باوجود میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ ان پر جائے بغیر میں سفارت کاری جیسے گھمبیر اور گنجلک شعبے کی الف بے بھی نہیں جان سکتا تھا۔

ایسے دوروں میں سب سے اہم وہ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو ہوتی ہے جو سیاسی رہنما یا اس دورے سے متعلق پاکستانی سفارت کار آپ کے ساتھ فضائی پرواز یا ہوٹل کے ریستورانوں میں کیا کرتے ہیں۔ گیلانی حکومت کے آخری دنوں میں تواتر کے ساتھ میرے چند محترم دوستوں نے لیکن ’’غیر ملکی سیرسپاٹوں‘‘ پر جاتے صحافیوں کے خلاف ایک محاذ کھول لیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے افتخار چوہدری صاحب کو بھی اس معاملے میں گھسیٹ لیا گیا اور اب نواز شریف اپنے تیسرے دورِ حکومت میں ضرورت سے زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ بظاہر صحافت ’’اصولی‘‘ بھی ہو گئی ہے اور صاف ستھری بھی۔ مگر اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟

حال ہی میں وزیر اعظم کی بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم سے جو ملاقات ہوئی اس کے بارے میں باقاعدہ سرکاری بریفنگ سب سے پہلے بھارتی وزارتِ خارجہ کی سیکریٹری نے کی۔ ظاہر سی بات ہے یہ بریفنگ کرتے ہوئے انھیں کہانی کچھ ایسی گھڑنا تھی جہاں ان کا وزیر اعظم ’’چھا گیا‘‘ نظر آتا۔ ہمارے میڈیا کے پاس سجاتا سنگھ کی بریفنگ کے سوا نواز مودی ملاقات پر تبصرہ کرنے کے لیے اور کوئی حوالہ ہی نہ تھا۔ اس کی وجہ سے ہمارے عوام کے ذہنوں میں نواز شریف کے حالیہ دورئہ بھارت کے بارے میں جو تاثر بنا وہ آپ کے سامنے ہے۔ سرتاج عزیز صاحب کی ایک تفصیلی پریس کانفرنس بھی اس ضمن میں کوئی Damage Control نہیں کر پائی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔