الٹی چھلانگ

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 31 مئ 2014

آسٹریلیا کے اخبار میں کچھ عرصہ قبل ایک خبر شایع ہوئی تھی کہ سڈنی جیل کے ایک قیدی نے جیل سے بھاگنے کے لیے ایک جرأت مندانہ اقدام کیا وہ کسی نہ کسی طرح ایک ٹرک کے اندر داخل ہوگیا اور اس کے اندر چھپ کر بیٹھ گیا ٹرک روانہ ہوکر اگلے مقام پر رکا وہ بمشکل ٹرک سے باہر آیا اس نے پایا کہ وہ دوبارہ ایک جیل میں ہے یہ دوسری جیل اس کی پہلی جیل سے تقریباً چھ کلومیٹر دور تھی ۔

جیل کا مذکورہ قیدی جیل کی زندگی سے بہت گھبرایا ہوا تھا اس کے دماغ میں صرف ایک چیز سوار تھی اور وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح جیل کی بند دنیا سے وہ باہر نکل جائے۔ اسی ذہنی کیفیت کے ساتھ جب اس کو جیل میں ایک ٹرک نظر آیا تو اس نے یقین کر لیا کہ وہ ضرورجیل کے باہر کہیں جا رہا ہے ۔ مگر جس وقت وہ ٹرک ایک جیل سے دوسری جیل میں جا رہا تھا وہ آدمی اس ٹرک میں سوار ہوکر اپنی جیل سے نکلا لیکن اس کے بعد صرف یہ ہوا کہ وہ ایک اور جیل میں پہنچ گیا ۔ اس دلچسپ خبر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات اقدام صرف الٹی چھلانگ کے ہم معنی ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی ناکام ہو کر دوبارہ اپنے سابقہ مقام پر واپس آجائے ۔

زندگی کا سفر دو چیزوں کے ملنے سے طے ہوتا ہے ، ایک مسافر اور دوسرا ٹرک ۔ کسی مسافر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ محض ذاتی چھلانگ کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائے۔ اس کو لازماً اپنے سے باہر ایک سواری درکار ہوتی ہے اگر آدمی محض اپنے ذاتی جوش کے تحت کود کر ایک سواری میں داخل ہو جائے اور یہ تحقیق نہ کرے کہ وہ سواری کہاں جا رہی ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کا انجام وہی ہو جو آسٹریلیا کے قیدی کا ہوا یعنی وہ ایک قید خانہ سے نکل کر دوسرے قید خانے میں پہنچ جائے۔

ویسے تو دنیا کی سیاسی تاریخ الٹی چھلانگ لگانے والوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس فیلڈ میں ہمارے کھلاڑی دنیا کے دیگر کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ ماہر ہیں۔ ہمارے اور دنیا کے دیگر کھلاڑیوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی یہ کام آناً فاناً کرتے ہیں یعنی آپ کی پلک نہیں جھپک پائے گی اور ہمارے کھلاڑی اپنا کام کر چکے ہونگے۔ اس وقت بھی ہمارے حکمران کھلاڑی الٹی چھلانگ لگانے کا کمال مظاہرہ کرنے میں مصروف ہیں اور قوم دم بخود ہوکر دانتوں میں انگلیاں دبائے مظاہرہ دیکھنے میں مگن ہے۔

موجودہ حکمرانوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے تک ملک کے اکثر تجزیہ نگاروں کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی طویل جلاوطنی کے دوران میں زندگی کے تمام نشیب و فراز ، اونچ نیچ اور اپنی شخصیت کے تمام مثبت ومنفی پہلوؤں کا بڑی باریکی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ جائزہ لیا ہوگا بلکہ اپنے آپ سے کافی عہد و پیمان بھی کیے ہونگے اور یہ کہ ملک کے عوام آیندہ ایک بالکل مختلف اور بھرپور شخصیت کو اپنے سامنے پائیں گے ، مزید یہ کہ بے معنی امور سے بالکل الگ تھلگ رہیں گے ۔ لیکن پھر ہوا یہ کہ ہمارے تجزیہ نگاروں کا سارا اتفاق بے معنی اچھل کود ہی ثابت ہوا ۔ وقت بدل گیا ، زمانہ بدل گیا ، لو گ بدل گئے ، لیکن حکمران بالکل نہیں بدلے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے حکمران اقتدار میں آتے ہی جنگی بنیادوں پر ملکی وقومی مسائل حل کرنے پر اپنی مکمل توجہ دیتے ۔

انرجی بحران کا کوئی حل ڈھونڈتے ، ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر نے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے ۔ ملک سے مہنگائی ، غربت ، افلاس ، بھوک ، بیروزگار ی ختم کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرتے ، خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال پر گہری نظریں رکھتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرتے ، پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں نہ صرف شرکت کرتے بلکہ اپنی زبان بندی کو بھی ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر ہر مسئلے پر پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیتے ۔ لیکن افسوس صد افسوس ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ سب کچھ اس کے الٹ ہوا۔

پھر ہوا یہ کہ اقتدار میں آنے کے بعد قوم کے مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی ۔ سب سے پہلے یہ یاد رکھیے کہ ملک کسی کی جاگیر نہیں ہوتا اور نہ ہی عوام مزارعے ہوتے ہیں ، ہر انسان اپنی ذات کی حد تک ہر فیصلے کر نے کا مکمل اختیار و حق رکھتا ہے لیکن اگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک و قوم کے فیصلوں کا اختیار حکمرانوں کو دیا ہے تو پھر ان کے فیصلوں کے اثرات صرف ان کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان فیصلوں کے اثرات ان کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر پڑتے ہیں جو لوگ ان کو اپنے اعتماد کا ووٹ دیتے ہیں اور ساتھ یہ فیصلے ملک کے استحکام اس کی ترقی و خو شحالی اورتمام اداروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

لہذا اس صورت میں کسی کو اپنی من مانی ، ذاتی پسند نا پسند ، ذاتی پر خاش نکالنے، ذاتی انتقام کو پورا کرنے یا غیر سنجیدہ یا غیر دانشمندانہ فیصلوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ، کیونکہ لوگوں نے منتخب سیاستدانوں اور حکمرانوں کو ووٹ اپنے مسائل حل کرنے اور ملک و اداروں کو مستحکم کرنے کے لیے دیے ہوتے ہیں نہ کہ کشیدگی اور محاذ آرائی پیدا کرنے کے لیے دیے ہوتے ہیں اس لیے حکمرانوں سے درخواست ہے کہ لوگوں نے آپ کو جس مقصد کے لیے مینڈیٹ دیا ہے خدارا آپ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی بھرپور توجہ اور توانائی اس پر مرکو ز کردیں اور ذاتی ایجنڈے اور قومی ایجنڈے میں واضح فرق کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں لیکن اگر آپ اس کے باوجود ملنے والے مینڈیٹ سے روگردانی پر بضد رہیں گے تو پھر ملک کے 18 کروڑعوام نہ صرف یہ کہ آپ کو روکنے کا حق محفو ظ رکھتے ہیں اور وہ اپنے حق کو استعمال کرنا اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔