ہاتھ بول اٹھتے ہیں

جاوید قاضی  ہفتہ 31 مئ 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جب ن م راشد نے یہ جمالی سطریں لکھیں ’’لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ بول اٹھتے ہیں‘‘ مجھے صحیح طرح یہ ماجرہ دکھائی دیا جب نریندر و نواز شریف میں مصافحہ ہوا۔ اس طرح ہی تھا جیسے واہگہ بارڈر پر ہندوستان و پاکستان کے گارڈز کی ٹانگیں بولتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے بندوقیں ہوں جو کبھی کندھوں پر بسائی جاتی ہیں تو کبھی فرش پر لگائی جاتی ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں، دل لکھوں یا داغ لکھوں۔ بلی ماراں کی گلیوں کے پیچیدہ خم لکھوں یا واجپائی کی لکھنو کی سرزمین کے خم لکھوں ۔اس سے پہلے کہ میں نریندر و نواز شریف کے مصافحے پہ کچھ کہوں، میں یہ بہانہ سمجھ کر اپنے درد کی ڈوریوں میں بیٹھے برصغیر کے ظلمت کدے کو پھر سے ہرا کرنا چاہتا ہوں۔

ہندوستان و پاکستان میں امن کی بات چھڑے اور کوئی بھی کرے، میں لب پہ حرف غلط، دل میں قندیل غم لے کے پہنچ جاتا ہوں۔ کوئی سادھو ہو یا کوئی سنیاسی، کوئی ملا ہو یا کوئی قاضی، میں ان کو جوتشی سمجھ کر اپنے ہاتھ کی لکیریں دکھانے لگتا ہوں کہ ’’کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار‘‘ کب آئے گا امن، جس کی بنیادوں میں پیوست ہے خوشحالی، کہ جب غربت یہاں سے روٹھ جائے گی۔ ساٹھ کروڑ عوام ہندوستان کا غربت کی لکیر کے نیچے بسر کرتے ہیں۔ ہزاروں دہقاں جہاں بھوک سے تنگ آکر ہر سال خودکشیاں کرتے ہیں، وہ دو ہندوستان ہیں تو ہم دو پاکستان۔ ایک غریبوں کا تو ایک امیروں کا۔

اک طویل ہجر ہے جو 1937 کے انتخابات کے وجود سے پھوٹا ۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 سے ہندوستان پہلی مرتبہ وفاق بن کے ابھرا۔ یہ جناح کا کارنامہ تھا کہ ہندوستان کے اندر موجود ریاستوں کو آزاد مقصد ملا، جب سندھ ریاست بنی تو مولا بخش سومرو وزیراعظم سندھ کہلاتے تھے نہ کہ وزیراعلیٰ۔ 1937 کے انتخابات ہوئے، کانگریس سہمی ہوئی تھی کہ وہ نہ جانے جیت سکے گی کہ نہیں۔ ایک خاموش معاہدہ کانگریس و مسلم لیگ میں انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بنائیں گے۔

جب انتخابات کے نتائج آئے تو مسلم لیگ کو بری طرح شکست ہوئی، تو کانگریس نے اپنے تیور بدل لیے۔ یوپی کے مسلمانوں میں ایک دم احساس محرومی آیا، وہ جنھوں نے دلی پر راج کیا، لکھنو پہ راج کیا، ایک دم اچانک اب کانگریس تلے آگئے اور اگر مخلوط حکومت بنتی جس طرح سے معاہدہ تھا تو یہ احساس محرومی نہیں پیدا ہوتا۔ جناح نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور کہا کہ ’’کوئی بھی مجھ سے زیادہ خوش نہ ہوگا کہ اگر عزت بھرا مسلمانان ہند و ہندوؤں میں مسائل کا حل نکل آئے‘‘۔ جناح نے

گاندھی کو اپیل کی کہ بیچ میں آؤ، مگر گاندھی نے کہا وہ بھی بہت مایوس ہیں اور اب اس مسئلے کے حل کے لیے خدا کی طرف دیکھتے ہیں۔ جناح کو ٹھیس پہنچی۔ نہرو کے گھمنڈ کا یہ عالم تھا کہ وہ جناح کو لکھتے ہیں ’’ہم تو مسلم لیگ کو فرقہ وارانہ تنظیم کے سوا کچھ نہیں سمجھتے‘‘ جناح نے لکھ دیا کہ ’’تمہارے لہجے سے لگتا ہے کہ تمہارا گھمنڈ ابھی کم نہیں ہوا‘‘۔

جب کوئی بیچ میں صلح و صفائی کرنے کے لیے نہیں آیا اور دو سال کی اس حکومت نے آزاد سروے کروا کے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، تو یوں حقیقت میں آیا تھا دو قومی نظریہ وجود میں ۔ عائشہ جلال تو فرماتی ہیں پاکستان کا نعرہ صرف جناح نے ایک پتے کے روپ میں مسلمانوں کے لیے اقتدار میں زیادہ حصہ مانگنے کے لیے استعمال کیا تھا نہ کہ حقیقی طور پر پانے کے لیے ۔ اور پھر دو قومی نظریہ بنا گیا۔ ایک دو Bi Elections  ہوئے تو کانگریس ہاری، مسلم لیگ جیت گئی اور پھر 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمایندہ پارٹی ہوکر ابھری۔

جس طرح مصافحہ دو ہاتھ چاہتا ہے، اس طرح تالی بھی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان جناح نے اکیلے سر نہیں بلکہ اس کے بننے میں پٹیل و نہرو کا رویہ بھی ہے۔ آزاد اپنی سوانح حیات کے کچھ صفحے مرنے کے چالیس سال بعد چھپنے کو کہہ گئے جس میں لکھا کہ اگر مسلم لیگ کو 1937 کے انتخابات کے بعد شراکت دی جاتی تو بات بہت دور تک نہیں جاتی ۔ وہ کہتے ہیں دو قومی نظریہ دیا جناح نے لیکن اس پر سنگت ولبھ بھائی پٹیل و نہرو نے بھی کی۔ وہ جناح جو ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، جن کی محنت سے لکھنو معاہدہ 1916 میں ہوا، وہ پھر کیا ہوا کہ 1937 کے بعد بالکل ہی بدل گئے۔

وہ جناح جو سرسید کی اس بات سے متفق نہیں تھے کہ مسلمانوں کے لیے الگ تعلیم ہو ۔ وہ گاندھی کو منع کرتے رہے کہ وہ جوہر برادران کی خلافت تحریک کی حمایت نہ کرے ۔ 1906 میں کانگریس میں آیا ہوا جناح جب 1909 میں مسلم لیگ بنی تو اس میں شامل ہونے کی دعوت ٹھکرادی، وہ کیا ہوا کہ 1920 میں کانگریس میں گاندھی کے رویے کی وجہ سے نکل گئے؟ وہ کیا ہوا کہ 1857 میں انگریز سامراج کے خلاف سول وار کی قیادت پورے ہندوستان میں جو اٹھی تو اس کی قیادت مسلمانوں نے کی، جب کہ 1940 میں انگریز کے خلاف بغاوت کا اعلان مسلم لیگ نے نہیں بلکہ کانگریس نے کیا؟

ہندو مڈل کلاس سوچ اپنے ارتقا کے تنگ نظر زینے پہ کھڑی تھی ۔ وہ پھل پھول کے ابھی روحانی طور پر سیکولر نہ بنی تھی ۔ آپ چاہے ساری دنیا کے مڈل کلاس کی ارتقا پر کھوجنا کیجیے آپ کو یہ بات ہر جگہ کم و بیش اسی طرح ہی ملے گی ۔ کانگریس معاشی اعتبار سے، طبقاتی اعتبار سے ہندوستان کے مڈل کلاس کی نمایندہ تنظیم تھی ۔ کون تھے ولبھ بھائی؟ RSS کے روحانی ابا ، تھے وہ کانگریس میں ۔

جب گاندھی پاکستان بننے کے بعد یہ وکالت کر بیٹھے کہ پاکستان کو ان کے اثاثے دیے جائیں ۔ کلدیپ نیئر اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ پٹیل نے بھرے اجلاس میں گاندھی پر گالم گلوچ کی جو وہاں بیٹھے کسی RSS کے جنونی نے سنیں تو دے گولیاں ماریں گاندھی کو۔ سب نے الزام لگایا پٹیل پر ۔ پٹیل نے استعفیٰ بھی دیا مگر نہرو نے قبول نہ کیا ۔ نہرو جانتے تھے کہ اگر یہ استعفیٰ قبول ہوا تو کانگریس دو حصوں میں بٹ جائے گی ۔

تو کیا ہوا یہ جو BJP بنی ہے وہ کانگریس کی کوکھ سے بنی ہے۔ یہ کہنا کہ مسلم لیگ فرقہ ورانہ تھی، غلط ہوگا۔ مسلم لیگ ابھرتی ہوئی تنگ نظر ہندو مڈل کلاس کا ردعمل تھی ۔ چونکہ مسلمانوں میں ابھی مڈل کلاس بن نہ پائی تھی اس لیے جاگیرداروں کا اس پر تسلط تھا ۔ یہ کہنا کہ چونکہ مسلم لیگ کا خمیر فرقہ ورانہ تھا، اس لیے آج کا پاکستان اس مظہر کا پھیلاؤ (Manifestation) ہے تو پھر آج جو نریندر مودی انتخابات جیت کے آیا ہے یہ کیا ہے؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہندوستان کی کانگریس کے شریر میں بھی فرقہ ورانہ بیج تھا یہ اس کا ثمر ہے؟ بیس سال سے نریندر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے اگلتے پاپولر ہوا ۔ صحیح کہا جی آئین کے اعتبار سے ہندوستان سیکولر ہے۔ لیکن نریندر کا جیتنا پاپولر ووٹ کی طرف سے سیکولرزم کو شکست ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی مسلمانوں کی ریاست اب بھی ہندوستان ہے، لیکن ایوان میں کل ملا کے پانچ مسلمان، 550 کے اس ہاؤس میں پہنچ سکے ہیں۔ کچی آبادیوں میں رہتے ہوئے غریبوں میں سب سے زیادہ مسلمان ہیں ہندوستان میں ۔

ایک ایسا شخص جو مسلمانوں کی لاشوں پر قدم رکھ کر اقتدار میں آیا ہو، جس نے گاندھی کی اہنسا کے خون کرنے والے پٹیل کو اپنا روحانی باپ مانا ہو، میں کیسے مانوں کہ وہ نریندر مودی والا ہندوستان پاکستان سے امن کا خواہاں ہوگا۔ ہنوز دلی دور است، ابھی گاندھی والا ہندوستان نہیں آیا اور جناح کا پاکستان بھی نہ جانے کدھر کو رہ گیا اور مسلمانان ہند کا نہ جانے کیا ہوا ۔ جناح نے مسلمانوں کی بات اقلیت کے Perspective (تناظر) میں کی تھی، جس طرح ہم وکالت کرتے ہیں آج کل پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ۔ وگرنہ وہ کسی چھوٹی ہندو جات والے کو وزیر قانون نہ بناتے اور اسے آئین ڈرافٹ کرنے کا کام نہ دیتے ۔

لیکن پھر بھی اس مصافحے میں کچھ تھا، ایک صدیوں سے بہتی تاریخ تھی۔ وہ مصافحہ بول رہا تھا، الفاظ سے بڑھ کر بول رہا تھا۔ نفرتوں کے منہ سے برف پگھل رہی تھی۔ ہم اس وقت اپنے گھر کی جنگ میں مصروف ہیں ۔ ہمیں ہمارا دشمن اس جنگ میں مصروف رکھ کے شکست دلوانا چاہتا ہے ۔ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے پہلے۔

ہزار سال کے باب پہ بیٹھی ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ ۔ اس میں 75 سال کا 1937 سے شروع ہوا یہ عمل کوئی بڑی بات نہیں ۔ ایک دن سب کے آئین سائنس کے تابع ہوجائیں گے، سماج پھیلتا جائے گا ۔ اس سے grow ہوگی مجموعی آمدنی اور اس سے نکلے گا شرح سات فیصد کا ۔ بس صرف دس سال ہم اس شرح نمو پر چلیں، ہماری مجموعی پیداوار ڈھائی سو ارب ڈالر سے بڑھ کر چار سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ اور پھر ہماری غربت ہم سے روٹھ جائے گی۔ یہ مصافحہ اس تناظر میں دیکھنا ہوگا اور اس کو سیاست کی نظر سے نہیں بلکہ اس ملک و برصغیر کے Haves Not کی آنکھ سے دیکھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔