آہ! ایک سال گزر گیا

سید حسنین رضوی  ہفتہ 31 مئ 2014

لوگوں کی زندگیوں میں بہت سارے ایسے دن آتے ہیں جن کو وہ شاید کبھی بھول نہیں پاتے۔کچھ خوشی کے لمحات ہوتے ہیں اور کچھ ایسے کہ جن کو انسان چاہ کر بھی نہیں بھلا پاتا۔ 31مئی 2013بھی میری زندگی کا ایک ایسا ہی دن تھا کہ جب سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا اور میرے گھر میں میرے بھانجے کی سالگرہ کی تیاری کی جارہی تھی ، میرے والد سید اظفر رضوی نے مہمانوں کی خواہش اور اپنی روایتی مہمانداری کو مد نظر رکھتے ہوئے سالگرہ کا کھانا کراچی کی مشہور زمانہ حیدرآباد کالونی سے بنوایا تھا ۔

بشمول میرے تمام گھر والے سالگرہ کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک میرے فون کی گھنٹی بجتی ہے جس کی دوسری جانب ایک بہت ہی گھبرائی ہوئی آواز مجھ سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ ’’حسنین بھائی فوراً کریم آباد پہنچیں، سر کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی ہے ‘‘ ایک لمحے کے لیے ایسا لگا کہ یہ ایک نہایت فضول اور گھٹیا قسم کا مذاق میرے ساتھ کیا گیا ہے ، نہ جانے کیسے میں لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اپنی گاڑی تک پہنچا۔

راستے میں اطلاع ملی کہ والد کو عباسی شہید اسپتال لے جایا جارہا ہے۔ میں نے آج تک اس اسپتال کو صرف باہر سے دیکھا تھا ہاں یہ ضرور معلوم تھا کہ بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے تمام افراد کواسی اسپتال میں لایا جاتا ہے ، اس دن زندگی نے کچھ اور ہی فیصلہ کررکھا تھا۔ اس دن والد سے میری ملاقات صبح ہوئی تھی جب میں اپنے دفتر جارہا تھا اور وہ حسب معمول مجھ پر دعائیں پڑھ کر پھونک رہے تھے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس دن کی دوسری اور زندگی کی آخری ملاقات اپنے والد کی ہنستے کھیلتے اور زندگی سے بھرپور چہرے سے نہیں بلکہ ان کی گولیوں سے چھلنی کی گئی نعش سے ہوگی۔

اس سانحے نے مجھے اچانک بہت بڑاکردیا ،گھروالوں کا ذمے دار بنادیا تھا ،زندگی ایک نہایت مشکل موڑ پر کھڑی ہوگئی تھی ،ایک لمحے کے لیے ایسا لگا کہ جیسے سب کچھ ختم ہوچلا ہے لیکن پھر والد کہ وہی حوصلہ افزا الفاظ کہ ’’ بیٹا میرے بعد سب کو تم نے ساتھ لے کر چلنا ہے ‘‘نے میرے اندر وہی جذبہ بیدار کیا جو شاید ان کے اندرموجزن تھا ۔ والد محترم کی زندگی میں مجھے بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ کتنی بڑی اور زندگی سے بھرپور شخصیت تھے ۔ لیکن ان کی نماز جنازہ میں موجود ہزاروں افراد نے مجھے اس بات کا احساس دلادیا کہ یقینا میں ایک عظیم باپ کا بیٹا ہوں ۔

ان سب حالات سے گزرنے کے بعد صرف ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ مارنے والوں کو میرے والد سید اظفررضوی شہید کو نشانہ بنا کر کیا ملا؟ میرے والد کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں رہی لیکن پھر بھی وہ خود اس ظالم شہر کے حالات کی بھینٹ چڑھ گئے، اس شہر میں دن دھاڑے اساتذہ کرام، وکلا، ڈاکٹرز دانشوروںکا قتل ایک معمول بن چکا ہے ۔جس سے نقصان کسی اور کا نہیں بلکہ صرف اور صرف اس قوم کا ہے اگر اسی طرح اساتذہ کرام کا قتل عام جاری رہا تو شاید پوری قوم جہالت کے ایسے اندھیروں کی طرف دھکیل دی جائے گی جہاں سے واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگی۔

پاپا!آج جب آپ کی بہت ضرورت ہے تو آپ میرے ساتھ نہیں ہیں ۔ آج میرے ساتھ کوئی ایسا شحص نہیں جس کے ساتھ شہرکے حالات اور سیاسی صورت حال ، نوجوانوں کے مسائل بلا خوف و خطر گفتگو کرسکوں۔ اس شہر کے نوجوان اپنی رہنمائی کے لیے کس کی طرف دیکھیں یہ اس شہر کی روشنیاں مانند پڑتی جارہی ہیں شہر آج تقریری مقابلے ، مضمون نویسی کے مقابلے اور یوتھ اسمبلی سے محروم ہوگیا ہے ۔عالی جی اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم سے بھی ملاقات ہوئی انھوں نے بہت حوصلہ افزائی کی لیکن جو بات آپ کے الفاظ میں تھی اس کی کمی محسوس ہورہی ہے ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ڈھاکا گروپ کے تحت چلنے والے تمام ادارے شہر کراچی کے نوجوانوں میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ بس کمی ہے تو صرف آپ کی ۔ کئی مرتبہ یہ خیال بھی ذہن میں آتاہے کہ آپ کے قتل کا بدلہ لیا جائے لیکن آخر کس سے ؟ آج اس مضمون کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ بدلہ تو ضرور لیا جائے گا لیکن نوعیت ذرا مختلف ہوگی ۔ اس شہر کا ہر نوجوان خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو اس کے دل و دماغ کو علم کی روشنی سے منور کیا جائے گا ۔ دوسرا بدلہ یہ کہ اس شہر میں اب سند یافتہ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوان تیار کیے جائیں گے ۔

ہمارے ملک کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہمیں تبدیل ہونا چاہیے اور تبدیلی کا یہ عمل ہم اپنی ذات سے شروع کریں ، میرے والد سید اظفر رضوی شہید معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کے ذریعے تبدیلی کے خواہ تھے اگر ہم نے ان مثبت سرگرمیوں کو روک دیا تو معاشرے میں منفی سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔ جس کا نشانہ ہمارے دانشور ، اساتذہ کرام بن رہے ہیں ، اگر ہم نے اپنے اکابرین کے مشن کو چھوڑدیا اور روک دیا تو یہ معاشرہ اور نوجوان نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو اور مملکت خداداد کو حالات کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے بلکہ ہمت اور جرات سے حالات کو اپنے موافق کیا جائے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎

وقت ہے خود کو آزمانے کا
تیرگی میں دیے جلانے کا
موت نے حوصلہ دیا ہم کو
زندگی سے نظر ملانے کا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔