بوکو حرام

حسین مسرت  ہفتہ 31 مئ 2014

اس نے علی الاعلان اپنے اختیار کا دعویٰ کیا اور دنیا کے آگے کہہ دیا کہ ’’میں آپ کے بچوں کو بیچ سکتا ہوں، غلام بنا سکتا ہوں‘‘ بوکو حرام تنظیم کے رہنما نے اپنے وڈیو پیغام میں صاف صاف بتادیا۔ 276 اسکول کی بچیوں کے اغوا کی ذمے داری بھی قبول کرلی ۔ ببانگ دہل اپنے قیدی ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کردیا اور دہشت اور ہٹ دھرمی کا اک نیا انداز دنیا کے آگے پیش کردیا۔اب اس تنظیم نے انھیں قتل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا افریقن ملک نائیجیریا، جو کہ 19ویں صدی کے آخر اور 20 ویں صدی کی ابتدا سے برطانیہ کی کالونی تھا۔ برطانوی تسلط سے 60 کی دہائی میں آزاد ہوا۔ سیاسی اور معاشی مسائل میں گھرا ہوا ملک کافی سال سول وار میں گھرا رہا جس کی پشت پناہی بھی کچھ سپر پاور ملک کرتے رہے ۔

ابھی حال ہی میں 14، 15 اپریل کی درمیانی شب کو نائیجیریا کی ریاست بورنو کے گاؤں چیبوک کے بورڈنگ اسکول سے پر تشدد حملہ کرکے 276 بچیوں کو اغوا کیا گیا، اسکول میں توڑ پھوڑ کے بعد کارگو ٹرک میں بھر کر بچیوں کو لے جایا گیا، شاید راستے میں کسی چیک پوسٹ پر چیکنگ کا مرحلہ بھی درپیش نہیں آیا، اس گاؤں کی زیادہ تر آبادی عیسائی ہے، لیکن بچیوں کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے، ایک مہینے تک والدین تڑپتے رہے، بچیاں جنگلوں میں بھٹکتی رہیں۔ ایک ماہ بعد بوکو حرام کے رہنما ابو بکر شیخاؤ نے اپنے مطالبات حکومت کے آگے پیش کردیے ہیں، حکومت کی اپنی پالیسیاں ہوںگی جب کہ کئی سپر پاور ممالک نائیجیریا کو اپنی ٹیکنالوجی اور طاقت سے مدد فراہم کرنے کا وعدہ کرچکے ہیں۔

276 اسکول کی بچیوں میں سے ایک کے والد نے میڈیا کے ذریعے درخواست کی ہے کہ ’’ہماری بیٹیوں پر تجارت نہ کی جائے، ہم اب اپنے ملک میں مزید تشدد برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘ اپنے ملک میں قتل عام دیکھنے والے خوف کے سائے میں جینے والے والدین اس سے زیادہ اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں۔ اس والد کے حوصلے کو داد دینے کو دل کرتاہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے التجائیں نہیں کیں، رویا نہیں، اپنے دکھ کو اس نے نجات پر فوقیت دی ہے۔ خوف اور جبر سے نفرت کا اعلان کرنیوالا جو یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی بیٹی زندہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ صرف یہ کہتاہے کہ دہشتگردوں کے مطالبے نہ مانے جائیں۔

انھوں نے سالوں سے جو دہشت کا کاروبار چلا رکھا ہے اس کو روکا جائے۔’’مغربی تعلیم گناہ ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والی تنظیم بوکو حرام 2010 سے اپنی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس تنظیم کے اہم اہداف اسکول، کالج، پولیس اسٹیشن، فوجی بیرکیں ہیں۔ 2,000 سے زائد لوگوں کے قتل میں ملوث اس تنظیم کی بنیاد ڈالنے والا محمد یوسف تھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کا تعلق اسامہ بن لادن سے تھا۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم کی ظالمانہ کارروائیوں کا شکار ہونے والے معصوم شاگردوں اور لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔

حال ہی میں ہونیوالے کچھ واقعات جو رپورٹ ہوئے ہیں ان کے مطابق 25 فروری 2014 میں فیڈرل کالج کے 29 طالبعلم ہلاک ہوئے، 29 ستمبر 2013 ایگریکلچر کالج کے 40 طالبعلم، 31 جنوری کو ایک اسکول میں بم دھماکے میں 31 طالبعلم اور 16 فروری کو 66 طالبعلم ہلاک کیے گئے۔ بوکو حرام کی جانب سے اغوا کی گئی بچیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ لاپتہ ہوگئی ہیں جن کو چاڈ میں بیچ دیا گیا ہے۔اغوا، تبدیلی مذہب، زبردستی شادیاں، اسمگلنگ، خرید و فروخت، جرائم کی طویل فہرست ہے جو کہ بوکو حرام کے ساتھ منسلک ہے۔ ان کے مطابق لڑکیاں صرف مردوں کی تسکین کا ذریعہ ہیں۔ جنگلوں میں قید کی جانیوالی بچیاں دہشتگردوں کی خدمت کریںگی، ان کے لیے کھانا بنائیں گی اور ان کی جنسی بھوک مٹانے کا ذریعہ بنیںگی۔ 15 سے 18 سال کی عمر کی بچیاں ایک ماہ سے ویران جنگلوں میں دہشتگردوں کی جسمانی اور ذہنی اذیت سہہ رہی ہیں۔ وہ جو دہشت کے ذریعے حکومتوں کو جھکانا چاہتے ہیں، وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی چیف بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دنیا کے بازار میں ہر چیز بک جاتی ہے یہاں تک کہ ہمارے بچے بھی بک جاتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ادراک کے باوجود ہر کوئی لاچار ہے، اختیار کے ہوتے ہوئے بھی بے اختیاری کی فضا چھائی ہوئی ہے، انسانوں کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہے، دہشتگرد تنظیموں کی آمدنی کا اہم ذریعہ اغوا برائے تاوان اور انسانوں کی خرید و فروخت ہے۔ نائیجیریا سے چھوٹے بچے اور بچیاں عالمی منڈیوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ بچیاں جبری شادی اور Sex Worker کے طورپر اور چھوٹے لڑکے گھریلو کام کاج اور کھیتوں میں کام کے لیے بیچے جاتے ہیں۔

بچوں کا چوں کہ معاوضہ کم ہوتا ہے یاپھر نہیں ہوتا ایک بار خرید کر وہ ساری عمر بیگار لیتے رہتے ہیں۔ اس غیر قانونی بین الاقوامی کاروبار کی پشت پناہی کرنیوالے لوگ ساری دنیا میں بکھرے ہوتے ہیں۔ انسانوں کی اسمگلنگ کے لیے ملکوں کی سرحدیں بہت پرکشش ہوتی ہیں۔ مسلح تنظیموں کے آگے دنیا کی طاقتیں بے بس نظر آتی ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ مذہب کو ڈھال بناتے ہیں۔انسانیت کا احترام ہر مذہب کی بنیاد ہے، مذہب عقیدت بھی ہے اور ضابطہ اخلاق بھی اور امن کا پرچارک بھی ہے۔ ہر ملک کا قانون اپنے عوام کے تحفظ کے لیے بنایا جاتاہے، اقوم متحدہ کا قیام اور انسانی حقوق کے چارٹر کا بننا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن اس پرآشوب دور میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کو کنٹرول کرنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔

وہ ایک مکمل نظام کے تحت کام کرتے ہیں، ایک منٹ کے اندر دنیا کے مختلف ملکوں میں وہ بیک وقت بم دھماکے کر سکتے ہیں، خودکش حملے کرسکتے ہیں۔ دہشتگردی ایک طوفان ہے جوکہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ مذہب اب امن نہیں خوف کا نام ہے۔ زبردستی شادیاں، مذہب تبدیل کرنا، اغوا کرنا، عورت کے لیے تعلیم کو حرام قرار دینا یہ دنیا کے کسی بھی مذہب کے مذہبی احکامات کا حصہ نہیں ہے۔ عورت کسی فرد کا نام ہے یا پابندیوں کا نام ہے؟ 15سال کی معصوم بچیاں صرف عیسائی ہونے کی سزا بھگت رہی ہیں یا صرف عورت ہونے کی وجہ سے ظلم سہہ رہی ہیں؟ اپنے والدین سے دور، گھر کی آسائشوں سے دور، وحشیوں کے بیچ اپنے مستقبل کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ انھیں سپر پاورز کے سیٹلائٹ سسٹم تلاش کرلیں گے یا فوجی ایکشن کے ذریعے بازیاب کرا لی جائیں گی۔

وہ دہشتگرد تنظیمیں جو اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے مذہب کی ڈھال استعمال کرتی ہیں ان کا مقصد عالمی امن کو تباہ کرنا ہے۔ انسانوں کو بیچ کر اسلحہ خریدنا اور اسلحے کے زور پر انسانوں کے عقائد سے کھیلنا اور ان پر حکومت کرنا ان کو غلام بنانا ان کا مقصد ہے۔ ایک عورت کی زندگی مرد کی غلامی سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ بوکو حرام انتہا پسندی کے سارے اصول و قواعد تفصیل سے بتا رہی ہے۔ تعلیم سے نفرت کا سبب بھی یہی ہے وہ شعور سے ڈرتے ہیں، وہ خوف کے سوداگر ہیں۔ انسانوں کی زندگیاں ان کے لیے محض آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ سیکڑوں والدین جو اپنی بچیوں کے منتظر ہیں جو کہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ اس مسلسل دہشت کا خاتمہ آخر کب ہوگا؟

ان تنظیموں کے پاس دوسروں کے لیے گولہ بارود ہے جس سے وہ ہزاروں لوگوں کو سیکنڈز میں ہلاک کردیتے ہیں لیکن اپنی شیطانی خواہشوں کی تکمیل کے لیے وہ مذہبی احکامات کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ عالمی امن کے لیے کام کرنیوالی تمام ممالک کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ریاست کے اندر بننے والی ریاستیں اور مذہب کے نام پر ملکی قانون توڑنے، انسانوں کی تذلیل، انسانوں کا قتل عام، عورتوں اور بچوں کی خرید و فروخت، عورتوں کا استحصال اب عالمی مسائل بن چکے ہیں۔ صرف بوکو حرام اور القاعدہ کی بات نہیں اور بھی بہت سی مسلح تنظیمیں ہیں جو کہ ایک مربوط نظام کے تحت کام کررہی ہیں، غیر محسوس طور پر ان کے لوگ ملک کے اہم اداروں میں بھی کام کررہے ہوتے ہیں۔ ان تنظیموں کا تحفظ صرف اور صرف مذہب میں ہے وہ  ہر جرم مذہب کی آڑ لے کر کرتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔