(پاکستان ایک نظر میں) - خبردار ۔۔۔۔ بھکاریوں کا سیزن آرہا ہے!

رانا محمد عدنان  اتوار 1 جون 2014
یہاں ایسے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو بھیک مانگنے کوہی اپنا پیشہ ہ بنا چکے ہیں۔ یہاں لوگ اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہوتے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دور نہ کر سکیں مگر جب محنت کیے بغیر محض بھیک مانگنے سےخرچہ پورا ہوہا ہوتو پھر یہ ایک عادت بن جاتی ہے اور بھیک مانگنا ان بھکاریوں کے لیے سب سے آسان حل ہے: فائل فوٹو

یہاں ایسے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو بھیک مانگنے کوہی اپنا پیشہ ہ بنا چکے ہیں۔ یہاں لوگ اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہوتے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دور نہ کر سکیں مگر جب محنت کیے بغیر محض بھیک مانگنے سےخرچہ پورا ہوہا ہوتو پھر یہ ایک عادت بن جاتی ہے اور بھیک مانگنا ان بھکاریوں کے لیے سب سے آسان حل ہے: فائل فوٹو

اِس بات سے  نہ تو شاید میں انکار کرسکتا ہوں اور نہ ہی آپ کہ پاکستان میں بدقسمتی سے روزگار کے مواقع انہتائی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔  جس کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں ۔لیکن اگر اِس مسئلے کی جانب حکومت وقت توجہ دے تو حالات مثبت سمت میں کڑوٹ لے سکتے ہیں لیکن بات پھروہی ہے کہ حالات بدلنے کے لیے سنجیدگی درکار ہے اور بھلا اب وہ کہاں سے لائی جائے؟

یہ بات تو ہم روزانہ کی بنیاد پر سُنتے ہیں کہ پاکستان کی تقریبا40 فی صدآبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے فوری طور پر حکومتی توجہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جاسکے ۔  لیکن اِس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ یہاں لوگ محنت کرنا چھوڑ دیں یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کسی مسیحہ کا انتظار کریں۔بلکہ مسلسل اس تگودو میں لگے رہیں کہ کس طرح اپنے حالات کو بدلہ جاسکتا ہے  اور یہی کوشش کامیابی کے رستے پر گامزن کرسکتی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے حالات اِس سے یکسر مختلف ہیں ۔  یہاں ایسے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو بھیک مانگنے کوہی اپنا پیشہ ہ بنا چکے ہیں۔کیونکہ جب محنت کیے بغیر محض بھیک مانگنے سےخرچہ پورا ہورہا ہوتو پھر یہ ایک عادت بن جاتی ہے اور بھیک مانگنا ان بھکاریوں کے لیے سب سے آسان حل ہے ۔

بات نکلی ہے تو میں آپکو  اس  حوالے سے کا ایک واقعہ سناتا ہوں ،کچھ دن پہلے اپنے دوست کی فوٹوسٹیٹ  کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ ایک بچہ آیا  جس کیساتھ اور بھی 6،7 بچے تھے جو  اپنے ساتھ ایک پرچہ لائے اور کاپی کرنے کا کہا جس پر لکھا تھا کہ اُن کی ماں کو کینسر ہے اور لوگوں سے اپنی ماں کے علاج کے لیے اپیل کی گئی تھی اورفوٹو کاپی کروانے کے بعد  سب بچوں میں بانٹ دی ،میں نے اس بچے سے پوچھا کہ آپ سب ایک ہی ماں کے بچے ہوتو اس نے کہا کہ نہیں ۔میں نے کہا کیا پھر آپ سب کی ماں کو کینسر ہے ،تو اس  نے ہنس کرکہا کہ پتہ نہیں ،میں حیران ہوا اور میں نے اس سے پوچھا پھر آپ سب کیوں اس کاغذ کی فوٹوکاپیاں بنوارہے ہو اور مانگتے پھر رہے ہو تو اس نے کہا کہ ہماری مرضی،اور یہ کہہ کر وہ چل دیئے۔

مجھے بہت افسوس ہواکہ اِس طرح کے لوگوں کی وجہ سے اُن غریبوں کا بھی حق مارا جاتا ہےجو واقعہ مستحق ہیں ۔لیکن ان کو کون سمجھائے؟ یہ معاملہ کسی محدود علاقے یا شہر کا نہیں ہے بلکہ آپ کہیں بھی چلے جائیں ہر جگہ  بھکاریوں نے تو جیسے زندگی اجیرن ہی کردی ہے ۔ ایک کو منع کرو تو دس بھکاری آپ کے سامنے آجاتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔مختلف طریقوں سے لوگوں کو بیوقوف بنا کر یہ لوگوں سے پیسہ نکلوا رہے ہو تے ہیں کوئی اپنی بیماری کا سرٹیفیکیٹ دکھاتا ہے تو کسی نے معذور کا سہارا لیا ہوتا ہے ۔

یہ سب تو اپنی جگہ لیکن اصل مسئلہ جس کا ہم سب کو ہر سال سامنا کرنا پڑتا ہے اور اِس سال بھی کرنا پڑیگا وہ یہ کہ اب بھکاریوں کا سیزن آنے والا ہے ۔۔۔ اب آپ کہیں کہ بھکاریوں کا سیزن آخر کب ہوتا ہے؟ تو پریشان مت ہوں اور یاد رکھیں کہ رمضان  المبارک اور عید الفطر آنے والی ہیں ۔ ایک عام اندازے کے مطابق رمضان اور عید پر یہ بھکاری اِس قدر آمدنی حاصل کرلیتے ہیں جتنی پوری سال میں حاصل نہیں کرتے۔ شہر کے شہر ان بھکاریوں سے بالکل اِسی طرح بھر جاتے ہیں جیسے بارش کے بعد پروانے ہر جگہ قبضہ کرلیتے ہیں۔  جس مہینوں  میں لوگ عبادت کرکے اپنے لیے نیک اعمال جمع کررہے ہوتے ہیں اُسی مہینے یہ بھکاری لوگوں سے دھوکے کے ذریعے رقم بٹورکر خود کے لیے ہمیشہ کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔

اس لیے حکومت وقت کا یہ فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور عوام الناس کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ صرف ضرورت مندوں کی ہی مدد کی جائے ۔ اس کا سب سے بہتر حل تو یہ ہے کہ اپنے اردگرد موجود غریب اور بے سہارا لوگوں کے بارے میں معلومات رکھیں اور بوقت ضرورت دل کھول کر ان کی مدد کریں ۔اس طرح نیک مقصد بھی حاصل ہوجائے گا اور اِن دو نمبر بھکاریوں سے نجات بھی حاصل ہوجائےگی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔