نواز، مودی ملاقات: ایک شاندار آغاز

زاہدہ حنا  ہفتہ 31 مئ 2014
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ان دنوں پاکستانی وزیر اعظم تنقید اور طعنوں کے نرغے میں ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے نو منتخب وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت کو قبول کیا اور ایک چھوٹے سے انتہا پسند حلقے کی مخالفت کے باوجود ایک ایسا فیصلہ کیا جو یقیناً سیاسی عزم کا شاندار مظاہرہ تھا۔

وہ دلی گئے اور ہندوستانی میڈیا کے مطابق انھوں نے میلہ لوٹ لیا۔ برات مودی صاحب کی تھی اور اس میں نواز شریف ایک ایسا شہ بالا تھے جس نے ہندوستان، پاکستان اور ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف رکھی۔ امریکا اور چین سے انھیں داد ملی۔ پاکستان میں بھی عمران خان جیسے ناقد کو یہ کہنا پڑا کہ ’’ہم اپنی سرحدوں پر امن چاہتے ہیں لیکن ہم یہ دیکھیں گے کہ وزیر اعظم نے ہندوستانی وزیر اعظم سے اپنی اس ملاقات میں ہمارا نقطۂ نظر کس طرح پیش کیا۔‘‘ وہ باتیں جو عمران خان خود نہیں کہنا چاہتے تھے، ان باتوں کو ان کے دست راست شاہ محمود قریشی کہہ گئے جو پچھلی حکومت میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور خارجہ تعلقات کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بہ خوبی واقف ہیں۔

انھوں نے وزیر اعظم پر کڑی تنقید کی۔ جس کے کئی پہلو تھے۔ انھیں اس بات پر اعتراض تھا کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ہندوستان جانے والے کسی پاکستانی وزیر اعظم نے ہندوستانی کشمیر کے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات نہیں کی۔ مودی سے ملاقات میں کشمیر اور پانی کا معاملہ کیوں نہیں اٹھایا گیا اور ہندوستان کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے معاملات پر گفتگو کیوں نہیں ہوئی۔

مجھے نہیں معلوم کہ اگر میاں نواز شریف کی جگہ شاہ محمود قریشی پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے اور ایسی کسی تقریب میں بلائے جاتے تو دلی جاکر وہ کس قدر بلند آواز میں احتجاج کرتے اور 30 منٹ سے 50 منٹ تک پھیل جانے والی ملاقات میں 67 برس کے پیچیدہ اور خونیں مسائل کا پشتارا کس پھرتی سے کھولتے۔ واپس آنے کے بعد وزیر اعظم کے قومی سلامتی اور خارجہ امور کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے دلی کے دورے پر ایک تفصیلی بریفنگ دی جس میں انھوں نے اس سفر کے بارے میں ہر نکتے پر گفتگو کی لیکن مشکل یہ ہے کہ حکومت کے مخالفین اور بطور خاص پی ٹی آئی کے سربراہ کو مطمئن کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

بات اتنی سی ہے کہ وہ یہ فرض کر چکے تھے کہ انتخابات کے بعد اقتدار کا تاج ان کے سر پر سجے گا۔ وہ آج بھی اس خواب سے سے جاگنے کے لیے تیار نہیں ہیں… یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ اس دو روزہ سفر کے بارے میں اب تک سب سے دانش اور اعتدال کی باتیں جناب رستم شاہ مہمند نے کی ہیں۔ وہ افغانستان میں ہمارے سفیر رہے ہیں۔ زندگی ان کی خیبر پختونخوا میں گزری اور اپنے صوبے کے چیف سیکریٹری بھی رہے ہیں۔ اس وقت تحریک طالبان، پاکستان سے مکالمے کے لیے حکومتی کمیٹی کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی صاحب کے دعوت نامے کو مسترد کرنے کا کوئی سبب نہ تھا۔

یہ دعوت نامہ سارک ملکوں کے تمام سربراہوں کو دیا گیا تھا۔ ان میں سے شیخ حسینہ واجد تھیں جنھوں نے معذرت کی کہ وہ جاپان کے سرکاری دورے پر تھیں۔ ایک ایسے موقعے پر پاکستانی وزیر اعظم اگر دلی نہ جاتے تو نہ صرف سارک کے چارٹر کی روح پامال ہوتی بلکہ دنیا میں پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آتا جو اپنے خطے کے سب سے بڑے ملک سے اپنے پرانے قضیے نمٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ فاش غلطی ہوتی کہ ہندوستان کی نئی اور عوام کی بھرپور حمایت سے برسراقتدار آنے والی حکومت کو نظر انداز کیا جاتا۔ اس وقت سارک کی تنظیم کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ۔ ایسے میں پانی کے مسائل، دو طرفہ تجارت میں وسعت، عام لوگوں کے لیے ویزا کی سہولتیں، سیاحت، ثقافتی وفود کے تبادلے اور ایک دوسرے کے ملکوں میں سرمایہ کاری کے امکانات وہ معاملات ہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے لیے بہتر تعلقات کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔

ہم اس حقیقت کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ پاکستان اس وقت اندرونی خلفشار، خونی تصادم اور خطرات سے دو چار ہے ۔ تحریک طالبان کے درمیان گہرے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں جس کے نتائج مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ امریکا افغانستان سے رخصت ہو رہا ہے اور ہم امریکی صدر کے لبوں سے یہ ’’پیغام‘‘ بھی سن چکے ہیں کہ افغانستان کا استحکام ہماری ذمے داری نہیں۔ اس جملے کا واضح مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں اب اقتدار پر قبضے کے لیے کبھی بھی امکانی خونیں جنگ کے الم ناک اثرات ہم پر بھی مرتب ہوں گے۔ شمالی وزیرستان میں جس طرح کے انسانی المیے جنم لے رہے ہیں، ان کی فصل بھی پاکستان ہی کاٹے گا۔

کراچی میں ہونے والی دہشت گردی، اسلام آباد میں ہونے والے حملے اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ پاکستان اندرونی دشمنوں سے ایک خطرناک جنگ میں مصروف ہے۔ اس کی بری فوج، فضائیہ اور پولیس اس وقت چومکھی لڑ رہی ہے اور وہ بھی ایک ایسے دشمن سے جس کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا اور جس کا دائرہ اثر سارے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ انتہا پسند اور متشدد تنظیمیں اس بات پر مصر ہیں کہ ہمیں فوراً ہندوستان سے کشمیر کے مسئلے پر دو دو ہاتھ کر لینے چاہئیں۔

ایسا نہ کرنے والی حکومت اور حزب اختلاف کو وہ بہ امر مجبوری ’’غدار‘‘ اور وطن فروش تو نہیں کہتیں لیکن ان کے رہنما آگ لگانے والی تقریریں کرتے ہیں اور عوام کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل جنگجوئی اور زور آزمائی میں پوشیدہ ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں جنگو ازم کی بات کرنے والے اپنے لوگوں کو یہ نہیں بتاتے کہ ہندوستان میں 40 کروڑ اور پاکستان میں 8 کروڑ انسان خطِ غربت سے نیچے زندہ رہنے کی تہمت اٹھاتے ہیں۔ یہ ہندوستانی اور پاکستانی فاقہ زدہ ہیں۔ بدترین بیماریوں کا شکار ہیں، ان کے بچے اسکول نہیں جاتے، انھیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور ان کے اپنے ملکوں کے خوش حال لوگ ان کے مصائب سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔

مودی صاحب کے ماضی کے بیانات کے حوالے سے پاکستان تو ایک طرف رہا خود ہندوستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شکوک و شبہات رکھتی ہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں اتنا بھاری مینڈیٹ لینے کے بعد وہ اپنی قومی اور عالمی ذمے داریاں کس طور ادا کرتے ہیں، خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے ان کے کیا عزائم ہیں؟ اس کا علم ہم سب کو چند مہینوں میں ہو جائے گا۔ وہ ہندوستان کو ایک عظیم معاشی طاقت بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ امن کی فصل، بارود کی کھاد کے ساتھ کاشت نہیں کی جا سکتی۔ خطے میں امن، میاں نواز شریف سے زیادہ ان کی ضرورت ہے۔

ایک مذہبی اور انتہا پسند تنظیم کے رہنما کے طور پر انھوں نے تین دہائیوں تک تعصب اور نفرت کے وحشی رتھ پر سواری کی لیکن راشٹر پتی بھون میں داخل ہونے کے لیے انھیں اپنی یہ سواری باہر چھوڑنی ہو گی۔ اب وہ آر ایس ایس اور مہاسبھا کے رہنما نہیں۔ وہ ہزاروں برس پرانی شاندار روایات رکھنے والے ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، وہ انتخابات میں ہار جانے والی کانگریس، کمیونسٹ پارٹیوں اور سیکولر اور لبرل لوگوں کے علاوہ اپنے ملک کے 18 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھوں نے اپنا رشتہ اپنی جنم بھومی سے نہیں توڑا، پاکستان نہیں گئے اور اپنی تمام صلاحیتیں ہندوستان کی زمین میں کاشت کیں۔

وہ درست طور پر سہمے ہوئے ہیں۔ کانگریس اب سیاسی منظرنامے سے ہٹ چکی ہے، یہ کام اب مودی صاحب کا ہے کہ وہ ان کروڑوں سہمے ہوئے لوگوں کا دل اپنے ہاتھ میں لیں، انھیں دلاسہ دیں۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا تو ہندوستان کو عظیم معاشی طاقت بنانے کا ان کا خواب یقینا شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے فرش کو چوم کر ہندوستانی آئین کے مقدس ہونے کا اعلان کیا ہے۔ یہ آئین ہندوستان کی اعلیٰ اور پچھڑی ذاتوں، ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس میں یہ گنجائش نہیں کہ کسی علاقے میں مسلمانوں کو فجر کی اذان دینے سے روک دیا جائے یا کسی چرچ میں گھنٹیاں بجانی ممنوع ہو جائیں۔ آئین کے مطابق، ہندوستان سب کا ہے سب کے لیے ہے۔

میاں صاحب ہندوستان سے بہتر تعلقات کی سزا 1999ء میں بھگت چکے ہیں۔ وہ ایک جی دار اور دانش مند مدبر ہیں جنھوں نے ایک بار پھر خطے میں امن اور خوش حالی کی آرزو کے لیے بے مثال عزم اور پہل کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستانیوں کے مسائل کا حل خطے میں امن اور خوش حالی سے جڑا ہوا ہے، اسی لیے وزیر اعظم نے تعلقات کے ٹوٹے ہوئے دھا گے کو 1999ء سے جوڑنے کی بات کی ہے اور اس کا اشارہ انھوں نے باجپائی صاحب کی عیادت سے دیا ہے۔

دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح دونوں پڑوسی ملکوں میں بھی انتہا پسند گروہ پائے جاتے ہیں لیکن تاریخ کا سفر نہیں رکتا، جاری رہتا ہے۔ دانش مند ہوتی ہیں وہ اقوام جو تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں اور اس سے ٹکرانے سے گریز کرتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔