انجام گلستاں کی فکر

رئیس فاطمہ  اتوار 1 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کمال سالار پوری کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے۔

دیوار چمن پہ زاغ و زغن مصروف ہیں نوحہ خوانی میں

ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے‘ انجام گلستاں کیا ہو گا

ذرا غور کیجیے اور ساتھ ہی کھلے دل و دماغ سے تجزیہ کیجیے تو لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد یہ شعر مسلسل پاکستانی سیاست اور معیشت کا نہایت سچا عکاس ہے۔ خواجہ ناظم الدین جو پاکستان کے گورنر جنرل تھے، ان کی ایمانداری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے تو اپنے ایک قابل اعتماد سیکریٹری کو بلا کر (اس وقت نام یاد نہیں) ایک خط لکھ کر دیا جس میں مشرقی پاکستان میں رہنے والے ایک دوست کو دس ہزار روپے منی آرڈر بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ ساتھ ہی رجسٹری کے پانچ روپے بھی ان بیوروکریٹ کو تھما دیے۔ یہ تھا وہ کردار جو اب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ ان بیورو کریٹ نے اپنی یادداشتوں میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔

خود قائد اعظم محمد علی جناح اتنے ایماندار اور صاحب کردار تھے کہ اگر کوئی شخص مسلم لیگ کو ایک روپیہ بھی چندہ دیتا تھا تو وہ اس کی رسید دیتے تھے۔ اب کرپشن ہی ہماری قومی شناخت ہے۔ ایک سرکاری ملازم ہر سال انکم ٹیکس کے گوشوارے بھرتا ہے۔ جس میں تنخواہ کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی، مکان، جائیداد، زیورات اور نقدی تک کی تفصیل بتانی پڑتی ہے کہ اگر جائیداد ہے تو کس ذریعے سے حاصل کی گئی۔ رقم کہاں سے آئی۔ اگر تحفے میں ملی تو کس نے دی۔ وراثت میں ملی تو اس کی بھی تفصیل۔ سرکاری ملازم کی تنخواہ انکم ٹیکس کٹوتی کے بعد ملتی ہے۔ اس کی تفصیل بھی انکم ٹیکس ریٹرن کے گوشواروں میں بتانی پڑتی ہے۔

لیکن اس وطن عزیز میں صاحبان اقتدار اور ان کے حواری ان تکلفات سے ماورا ہیں۔ صدر یا وزیر اعظم بننے سے پہلے ان کے مالی حالات کیا تھے؟ کتنے مکانات تھے؟ کتنی ملیں تھیں؟ ذریعہ آمدنی کیا تھا؟ کوئی نہیں پوچھتا۔ ہاں الیکشن کے موسم میں جو اثاثے ظاہر کیے جاتے ہیں ان کی تعداد اور ان پر دیے گئے ٹیکس کی رقم دیکھ کر ہنسی آتی ہے اور ’’قانون کی بالادستی‘‘ کا یقین بھی ہو جاتا ہے کہ اس ملک خداداد میں پانچ ہزار کی کرپشن کرنے والا پکڑا جاتا ہے، اور سزا بھی پاتا ہے لیکن اربوں اور کروڑوں کی بدعنوانی میں ملوث ہونے والے ’’شاہ کے وفادار‘‘ نہایت آسانی سے سب کچھ سمیٹ کر اور اپنا حصہ وصول کر کے بیرون ملک فرار کروا دیے جاتے ہیں۔ ان خدمات کے عوض ان کے قریبی عزیزوں کو ایسے محکموں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جس سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔

نریندر مودی باوجود اپنی مسلمان دشمنی کے بھارت کے وزیر اعظم بن گئے۔ وہ بھی سادہ اکثریت سے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انھوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا۔ اور جان گئے کہ نفرت اور دشمنی بہت جلد بڑے سے بڑے لیڈر کو گمنامی میں دھکیل دیتی ہے۔ لہٰذا انھوں نے اپنا راستہ بدل لیا۔ اور سب سے پہلے میرٹ کو عام کیا، اس پر عمل درآمد کروایا۔ تمام اداروں میں، قابل اور ایمان دار لوگوں کو متعلقہ محکموں کا سربراہ بنایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے کسی عزیز رشتے دار کو نہ کوئی منصب دیا نہ رعایت۔ یہ اتنی بڑی بات تھی کہ نریندر مودی کا منفی امیج یکسر بدل گیا۔ آخر اس شخص میں کوئی تو بات ہو گی جو بی جے پی نے انھیں اتنی بڑی ذمے داری سونپ دی۔ کیونکہ پارٹی نے دیکھ لیا تھا کہ کرپشن کے خاتمے اور میرٹ کی بنیاد پر اداروں میں تقرریاں لوگوں کو نظر آ رہی ہیں۔ ظاہر ہے ایک عام آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ کرپشن جیسی دیمک کو جو شخص ختم کر سکتا ہے۔ وہی بھارت کے لیے موزوں ہے۔ غلطیوں سے سیکھنا اور اپنی اصلاح کرنا ہی ایک لیڈر کو مقبولیت کے اونچے سنگھاسن پہ بٹھا دیتا ہے۔

لیکن افسوس کہ ہمارے لیڈر اس صلاحیت سے عاری ہیں۔ وہ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو موجودہ حکومت کے کرپشن کے راز طشت ازبام کرتے رہتے ہیں۔ کس نے کہاں محلات خریدے۔ کیا شاطو بنائے، ہیروں سے مزین چشمے کس رقم سے خریدے گئے، نوادرات اور غیر ممالک کے دوروں کے درمیان ملنے والے وہ تحائف جو ریاست کی ملکیت تھے وہ بیرون ملک خریدے گئے محلات کی زینت کیونکر بنے؟ اقتدار سے قبل جو ایک پن چکی چلاتے تھے وہ ملک کے سب سے بڑے صنعت کار کیونکر بنے؟ غیر ملکی دوروں میں لاؤ لشکر کو بطور رشوت ساتھ لے جانے کے اخراجات قومی خزانے سے کیوں دیے گئے۔

حج کرپشن کے ذمے داروں کو سزا کے بجائے تحفظ کیوں دیا گیا۔ ساتھ ساتھ ذاتی زندگیاں بھی ادھیڑ کے رکھ دیں۔ کس کے کتنے معاشقے تھے؟ کتنی اولادیں ہیں جن کی ماؤں سے انھوں نے باضابطہ نکاح نہیں کیا اور یہ کہ ’’اقتدار میں آ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ ملک کو قرضوں سے نجات دلائیں گے۔ ملک سنواریں گے۔ علی بابا اور اس کے چالیس چوروں کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا آج تک کسی بھی حکومت نے یہ ہمت کی کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے۔ نہیں بالکل نہیں۔ کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے اپوزیشن کا وجود نابود ہو گیا ہے۔ اب اپوزیشن اور حکومت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

ٹاس جیتنے والا اپنی اننگ کھیل کر بخوشی کرسی دوسری پارٹی کو اس یقین دہانی کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ ہماری قربانی یاد رکھنا، جیسا ہم نے تمہارا ساتھ دیا تھا، تم بھی اس کا قرض لوٹانا۔ کہ پاکستان ہماری اور تمہاری اولادوں اور ان کی اولادوں کا نخلستان ہے۔ باری باری دونوں پھل کھائیں گے۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ گول خانوں میں چو کھونٹی چیزیں فٹ کی جاتی ہیں۔ شہنشاہ پاکستان خوش ہوئے تو سرجن کو پٹرولیم کا وزیر بنا دیا۔ پوسٹل سروس والے کو علمی و ادبی اداروں کا سربراہ بنا دیا گیا۔

خواہ اسے کتاب کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو۔ ساتھ ساتھ بیانات کے تڑکے بھی لگتے رہے، ایک دوسرے کے خلاف، لیکن اندر ہی اندر خفیہ اتحاد۔ کہ ہم عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالیں گے۔ اور ٹیلی ویژن چینلز کی اسکرین پر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا غلغلہ بھی بلند کریں گے۔ لیکن عمل نہیں کریں گے، کیونکہ حکومت ملنے کے بعد سربراہ مملکت اگر ایسی کوشش کرے گا تو فارغ ہونے والا بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہے۔ اس نے بھی اپنے جاسوسوں کی مدد سے تمام تفصیلات اکٹھی کی ہوئی ہیں۔ جواباً وہ بھی ان ناجائز اثاثوں کی تفصیل قوم کو بتا سکتا ہے جو انھوں نے اپنے دور حکومت میں جا بجا بنائے تھے۔ ایسے موقعے پر کہتے ہیں کہ چور کا بھائی گرہ کٹ۔ لیکن کسی من چلے کا یہ نعرہ زیادہ طاقت ور ہے کہ:

پاکستان کا مطلب کیا؟

میں بھی کھاؤں تو بھی کھا

پاکستان جیسے ملک میں جہاں اقتدار کی ’’کنجی‘‘ کسی اور کے پاس ہے۔ وہاں ووٹ محض دکھاوا اور ’’نوٹ کی پرچی‘‘ ہے تا کہ عالمی طاقتوں کو جمہوریت کا یقین دلایا جا سکے۔ جہاں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں پاتال تک پھیلی ہوئی ہوں اور اسی نظام کے رکھوالوں کے پاس مسند صدارت و وزارت ہو۔ وہاں وزیر اعظم کو نریندر مودی جیسے اقدام کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اقتدار ہمیشہ ان ہی کے نصیب میں لکھا جا چکا ہے جو اس کرپٹ اور فرسودہ نظام کے پروردہ ہیں۔ آج تک کسی بھی حکمراں نے، ایجنسیوں نے، نیب نے کسی کو سزا دلوائی ہے؟ اسمبلی کے ممبران سے لے کر پٹواری تک سب ’’جی سائیں‘‘ کہنے والے اور پیر چھونے والوں کی مجال کیا کہ تبدیلی کا خواب دیکھ سکیں۔

اگر کسی خوش فہم یا جاگتے میں دلفریب خواب دیکھنے والے اس امید میں ہیں کہ پاکستان کے اصل حکمران یعنی جاگیردار، سردار، سرمایہ دار اور صنعت کار کرپشن کا خاتمہ ہونے دیں گے تو انھیں سخت مایوسی ہو گی۔ صرف ایک جملے پہ غور کیجیے تو بات آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی ’’مسائل چار سال بعد یقینی حل ہو جائیں گے۔‘‘ ساٹھ سالوں کی گند بھلا پانچ سالوں میں کیونکر صاف ہو سکتی ہے۔ ہمیں ایک موقع اور دیں، انشاء اللہ اگلی بار ہم ضرور مسائل حل کریں گے۔ (یعنی قومی خزانے کو اپنے اور اپنے خاندان میں آسانی سے منتقل کرنے کا کام)۔ بس یہی ٹیپ چلتا رہے گا قدرت مسکراتی رہے گی۔ عوام بھوکے مرتے رہیں گے اور حکمران دورے کرتے رہیں گے۔ انجام گلستاں کی کسے فکر ہے یارو؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔