دوستی نہیں‘ گزارہ کرنے پر غور کریں

غلام محی الدین  اتوار 1 جون 2014
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

خود فریبی کے کسی آخری درجے کی مثال درکار ہو تو کوئی ہمیں دیکھ لے۔ ملک کی اعلیٰ ترین سطحوں پر ہم نے ایک ایسی خیالی دُنیا آباد کر رکھی ہے جس سے باہر کی حقیقتیں ہمیں بار بار اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی رہتی ہیں لیکن ہم اپنے خیالستان سے نکلنے پر آمادہ نہیں۔ دھوکہ دہی اور مکرو فریب میں مہارت انتظام سلطنت کے لیے درکار ذہنی صلاحیتوں میں سب سے نادر جنس تصور ہوتی ہے اور اس کی ہر طرف مانگ ہے۔

مثال کے طور پر، بھارت سے دوستی کے ایک نئے عہد کا آغاز ہو گیا ہے۔ ہر لفظ کی اپنی ایک توقیر ہوتی ہے۔ اعلیٰ ترین سطحوں پر جب کوئی لفظ برتا جاتا ہے تو اس لفظ کا تمام پس منظر اور مفاہیم کے تمام رنگ پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی منظر نامے پر چین ہمارا دوست ہے‘ ترکی کو بھی ہم دوست شمار کرتے ہیں اور بھارت سے بھی ہم دوستی کے آغاز کے لیے بہت بیتاب ہیں اور جلد از جلد یہ معرکہ سر کر لینا چاہتے ہیں۔ چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بے ضرر سرد مہری یا جمود کے ایک آدھ مختصر سے وقفوں کے علاوہ شاندار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

کہتے ہیں عالمی تعلقات میں ایثار اور بے غرض دوستی کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں لیکن چین کے ساتھ تعلقات میں ایسے مقام بھی آئے جب چین کے کسی مثبت عمل کے جواب میں ہمارے پاس دینے کو کچھ نہ تھا لیکن اپنے قاعدے سے ہٹ کر بھی چین نے ہمارے ساتھ بھلائی کی۔ جس وقت ہم چین سے قریب ہو رہے تھے تو ساتھ ہی ساتھ امریکا کی طفیلی تنظیم سینٹو کے بھی رکن تھے۔ دوسری طرف امریکی قیادت میں قائم ہونے والے اتحادوں کا نصب العین سوشلزم کے پھیلاؤ کو روکنا تھا یعنی ایشیا میں چین امریکا کا بڑا ہدف تھا۔

ایک موقع پر، غالباً یہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دنوں کی بات ہے‘ چینی وزیر اعظم چو این لائی نے ان سے ملنے کے لیے آنے والے پاکستانی وفد سے باتیں کرتے ہوئے‘ بڑے خوشگوار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تھا ’’چین کو یہ منفرد امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کا ایک دوست سینٹو میں بھی شامل ہے‘‘۔ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے جتنے منصوبے پاکستان کو ٹیکنالوجی منتقل کرنے اور خود کفالت کی طرف لانے کا اہم کام انجام دے رہے ہیں ان میں غالب اکثریت چین کی کرم فرمائی ہے۔ ایک وقت میں جب پاکستان کو فولاد سازی کے شعبے میں اہم پیش رفت میں مدد دینے کو کوئی تیار نہ تھا تو روس نے کراچی میں اسٹیل مل قائم کی تھی جو کہ ہمارے دوستوں کی صفت میں شامل نہیں۔

ترکی نے بھی ہمیں کبھی مشکل میں تنہا نہیں چھوڑا‘ ہمارا ساتھ دینے میں اپنے خسارے کی پرواہ نہیں کی۔ اسی طرح ایران‘ انڈونیشیا‘ سری لنکا بھی ایسے ممالک ہیں جنھوں نے ہمارے ساتھ مختلف ادوار میں دوستوں جیسا سلوک کیا لیکن ان ممالک کے لیے استعمال کے ساتھ ساتھ جب یہ لفظ بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگے تو کیا عجیب نہیں لگتا؟ اب تک کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ملک ساتھ ساتھ ہیں جو کہ ایک جغرافیائی جبر ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو ایسے تعلقات کا اہتمام کرنا ہے جن میں کسی بڑے سانحے کسی بڑے انسانی المیے کو ٹالے رکھنے کی سبیل ہو۔ ایسے تعلقات جنھیں WORKABLE RELATION SHIP کہا جا سکے۔ اپنے لوگوں کو فریب دینے کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ آپ بھارت کے ساتھ دوستی کو بار بار دہراتے جائیں۔ دوستی بس چلا دیں یا کسی بھی دو طرفہ سرگرمی کے ساتھ دوستی کا لفظ جوڑ دینے سے زمینی حقائق نہیں بدلتے۔

جب ہمارے وزیر اعظم بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم کی دعوت پر بھارت تشریف لے گئے تھے تو معروف اُصول یہی بتاتا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں جا رہے ہیں جس کے زیر قبضہ 222,236 مربع کلو میٹر ایسا علاقہ اور سوا کروڑ وہ لوگ ہیں جو برصغیر کی تقسیم کے رہنما اُصولوں کی پاسداری کی صورت میں پاکستان کا حصہ ہوتے۔ اس ہمسائے نے اس علاقے پر اپنے قبضے کو کسی نئی معرکہ آرائی کی صورت میں لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے سیاچن میں مزید 2 ہزار 3 سو مربع کلو میٹر علاقے پر قبضہ جما لیا ہے۔

وزیر اعظم ہنگامی طور پر ایک ایسے ملک کے ساتھ جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرنے گئے تھے جس کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر بھی یہ تاثر گہرا ہو چکا ہے کہ دریائے سندھ اور جہلم کے پانیوں پر جس بے مثال ماہرانہ منصوبہ بندی کے ساتھ ڈیم اور واٹر ورکس تعمیر کیے جا رہے ہیں وہ دس پندرہ برس کے اندر پاکستان کو ایک ناکام ریاست میں بدل سکتے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے ساتھ مقاصد کی یکسانیت رکھنے والے ممالک اور عالمی تنظیموں کی طرف داری نے ایسے تنازعات میں پاکستان کی شنوائی کو نا ممکن بنا رکھا ہے۔ 38 برس قبل پاکستان جو 16 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کیا کرتا تھا اب اس پانی میں 6 ملین ایکڑ کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کہتی ہے کہ 2003ء میں ہی پاکستان میں فی کس پانی کی مقدار بین الاقوامی سطح پر طے شدہ مقدار کے نصف تک پہنچ چکی ہے جو دن بدن گھٹتی جا رہی ہے۔

یہ ہے وہ پس منظر جسے خود سے جُدا کر کے وزیر اعظم پاکستان کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ قوموں کا سود و زیاں اُن کے رہنماؤں کی شخصیت کا لازمی حصہ ہوا کرتا ہے، یہ باتیں تو اُن کی پیشانیوں پر کندہ ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اعتماد سازی‘ تجارت اور دوستی کی اداکاری، کیا ہماری گردن کے گرد کسے جانے والے شکنجے کو ڈھیلا کر سکتی ہے؟ اربوں روپے لگا کر بھارت نے جو شکنجہ کسا ہے وہ محض ہمارے سر جھکا کر بات کرنے سے ختم نہیں ہو جائے گا۔

اس شکنجے کی ڈور بھارت ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہے گا تا کہ جب ضرورت پڑے اسے کس دیا جائے۔ وزیر اعظم کو ضرور بھارت جانا چاہیے تھا، لیکن اس بات میں کیا دقت تھی کہ تقریب کے خاتمے کے فوراً بعد وطن واپس روانہ ہو جاتے۔ دفتر خارجہ اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ دماغ اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ اس موقع پر ہونے والی ملاقاتوں کا ماحول کیا ہو گا۔ اگر باقاعدہ ملاقاتوں سے پرہیز ہی کر لیا جاتا تو دونوں جانب سے ہونے والی گفتگو کے تقابل کی نوبت ہی نہ آتی۔ جذبہ خیر سگالی کا اظہار بھی ہو جاتا اور ہمارا پردہ بھی رہ جاتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔