بھارتی انتہاپسندی

نسیم انجم  اتوار 1 جون 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

بصارت و بصیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو لوگ امور انجام دیتے ہیں ان کی کامیابی تقریباً سو فیصد ہوتی ہے لیکن جب حکمت عملی اور دانشمندی کو خیرباد کردیا جائے تب نتائج ناکامی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، دونوں معاملات میں قسمت کو بھی دخل ہوتا ہے لیکن آج کے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وزیراعظم نواز شریف کا دورہ بھارت کچھ زیادہ کامیاب ہوتا نہیں دکھائی دیتا، گو ان کا بھارت تشریف لے جانا برے حالات کو اچھے حالات میں بدلنے کا مترادف ہوسکتا ہے لیکن کچھ شرائط و ضوابط کے ساتھ۔

چونکہ انھوں نے بھارت جانے سے قبل ہی 151 قیدی رہا کردیے اور اسے جذبہ خیرسگالی کا نام دیا گیا، تو کیا یہ ممکن نہ تھا کہ نواز شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی یہی مطالبہ کرتے اور اس وقت تک قیدی رہا نہ کیے جاتے جب تک کہ بھارت پاکستانیوں کو رہائی نہ دلا دیتا۔

ہندوستان کی جیلوں میں پاکستانی قیدی اس وقت چھوڑ دیے جاتے ہیں جب ان کی زندگی کا چراغ ٹمٹما رہا ہوتا ہے یا پھر یہ لوگ لاش کی شکل میں وصول کرنے والوں کو ہزاروں مشکلات میں مبتلا کردیتے ہیں۔ لیکن افسوس ہمارے یہاں معاملہ الٹ ہے، اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ مسلمان دانستہ کسی سے نہ چھیڑخانی کرتا ہے اور نہ کسی کو اذیت پہنچاتا ہے۔ اگر ہمارے یہاں اس قسم کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے تو اس کی وجوہات دوسری ہیں، ساتھ میں بیرونی طاقتوں نے بھی پاکستان کے امن میں کسی قسم کا تکلف نہیں برتا ہے۔

مزید دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ  ہندوستان  کی انتہا پسند جماعت نے اذان فجر پر پابندی لگانے کے لیے دھرنے دینے شروع کردیے اور وزیر خارجہ سشما سوراج نے تعصب اور نفرت کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا۔ 35 منٹ کی ملاقات طے شدہ تھی لیکن گفت و شنید آگے بڑھتی رہی اس طرح دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کا دورانیہ پچاس منٹ پر پہنچ گیا۔ اس ملاقات میں نریندر مودی وزیراعظم ہندوستان نے اپنے 5 مطالبات بھی پیش کیے جس میں ممبئی حملوں میں ملوث ملزموں کے وائس سیمپلز مہیا کرے، ہمارے وزیراعظم کو پانی کے مسئلے اور کشمیریوں کے مسائل کو حل کرنے کی بات کرنی چاہیے تھی، جو نہیں ہوئی۔

نواز شریف کے ہی دور حکومت میں ایٹمی دھماکے والے دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا تھا، ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکمت عملی اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے عبدالقدیر خان کی خدمات اور احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، ان کی دانش مندی کے باعث آج پاکستان ہندوستان سے طاقت کے حوالے سے برابری کا درجہ رکھتا ہے، کس بات کا ڈر اور خوف؟ اﷲ پر بھروسہ رکھنے والے ہر محاذ پر کامیاب ہوتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان کو بھی اپنے ارادوں میں لچک اور نرمی دکھانے کے بجائے اپنا موقف رعب و دبدبے کے ساتھ پیش کرنا چاہیے تھا۔ ہم نے ان کا کوئی نقصان نہیں کیا، ہندوستان نے ہمیشہ ہی الٹی چھری سے پاکستان کا گلا کاٹنے کی کوشش کی ہے، اﷲ کے کرم سے گلا تو کاٹنے میں کامیاب نہ ہوسکے، البتہ پاکستان کا ایک بازو ضرور کاٹنے میں پیش پیش رہے اور اپنی ازلی دشمنی کا ثبوت سقوط پاکستان کی شکل میں کر دکھایا۔

16دسمبر 1971 کا سیاہ دن کوئی بھی محب وطن نہیں بھول سکتا ، اس سانحے سے دانشور واقف ہیں لیکن ان کے دلوں پر کیا گزری ہوگی، جب ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا تھا، ہم تو محض تصاویر و تحریریں پڑھ کر دہل جاتے ہیں، جگر کا خون ہوجاتا ہے، لیکن جنرل نیازی نے کس شکستہ دلی سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے ہوں گے، محض حکومت وقت کی نااہلی اور اپنے ہی وطن سے غداری کے تحت  یہ بھیانک دن اور بھیانک لمحہ دیکھنا پڑا جب تاریخ نے کروٹ بدلی اور پاکستان لہو لہو ہوگیا۔ تاریخ کا ہر صفحہ دشمن کی غداری اور سازشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ان واقعات سے ہمارے حکمران سبق کیوں نہیں سیکھتے ہیں؟ اب بھی پاکستان ہندوستان کے مقابلے میں محض افواج پاکستان کی جواں مردی، شوق شہادت اور جرأت و بہادری کی وجہ سے مضبوط ترین ملک ہے، اسے انشاء  اﷲ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پھر ہندوستان سے خوف کس بات کا؟

قیام پاکستان کے وقت ہی ایسے مسائل پیدا ہوئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے، ان مسائل میں نہری پانی کا مسئلہ بھی اہم تھا۔ منقسم ہندوستان کے بعد ایک بار نہیں بلکہ کئی بار بھارتی حکومت نے نہری پانی بند کرنے کی دھمکی دی اور 1948 میں پانی بند کردیا گیا یعنی صرف آزادی کے ایک سال بعد، لیکن عالمی بینک کی کاوشوں نے رنگ دکھایا۔ 1960 میں بھی ایک معاہدہ پاکستان، بھارت اور عالمی بینک کے درمیان طے پایا، جس کی رو سے کچھ مدت کے لیے مسئلے کا حل نکل آیا، لیکن اتنے سال گزر جانے کے بعد یہ مسئلہ جوں کا توں ہے، آئے دن بھارت پاکستان کے حصے کا پانی دینے میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔

حکومتیں آتی جاتی رہیں، کسی نے بند بنانے کی مخلصانہ کوشش نہیں کی، صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھا، آج بھی بیرونی ممالک میں پاکستانی اہل اقتدار کی کثیر دولت بینکوں میں موجود ہے، وہ اگر قوم و ملک سے مخلص ہوں تو وہ اس دولت کو اپنے ملک میں لائیں اور پانی جیسے اہم مسئلے کو حل کریں۔ محض تجارتی بنیاد پر تعلقات کو استوار کرنا خرد افروزی نہیں ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، بھارت نے 1947 میں ہی کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا اور تقریباً67 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ہمارے کشمیری بھائی بھارت کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں، اس مقصد کو حل کرنے کے لیے 1965 کی جنگ بھی ہوئی، ایک بڑی خونریزی کے بعد بھی بھارت ’’میں نہ مانوں‘‘ پر اڑا ہوا ہے۔

حکومت کی اقلیتوں پر مہربانی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ سکھوں کے گرو نانک کا دن منائے جانے کے لیے عام تعطیل ہوگی۔ یہ بات بھی غمزدہ کرنے والی ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں صحابہ کرامؓ کا دن تو منایا نہیں جاتا، ان دنوں کو منانے کا حق ہے بلکہ غیر مسلموں کے رسم ورواج کو فروغ حاصل ہوا ہے اور اب دن بھی منائے جانے کی بات ہو رہی ہے، مسلمان سورماؤں کے کارناموں سے تاریخ جگمگا رہی ہے، ان کے حالات میں اندھیری راہوں کا انتخاب کرنا بدنصیبی کے سوا کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔