ماؤں کے امتحان …

شیریں حیدر  اتوار 1 جون 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ سلام کو حاضر ہوئی تھی میڈم… ‘‘ میرے دفتر کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی، ’’ اتنے دن تو فرصت ہی نہ ملی، معذرت چاہتی ہوں ! ‘‘

’’ وعلیکم السلام … ‘‘ میں نے کاغذات کے پلندے سے نظر اٹھا کر کہا، ’’ تشریف لائیے… سب خیریت ہے نا؟ ‘‘ واقعی دو ہفتے سے اس کی شکل نظر نہ آئی تھی ورنہ وہ دو تین دن کے بعد، اپنی بیٹی کو گیٹ سے لے کر، مجھے فقط سلام کرنے کو میرے دفتر تک آتی تھی۔

’’ اب تو سب خیریت ہے… ‘‘  اس نے میرے کہنے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’ خدا خدا کر کے میرے امتحان ختم ہوئے ہیں!!‘‘

’’ اچھا کس چیز کے امتحانات تھے آپ کے؟ ‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔

’’ میرے تو نہیں… میری بیٹی کے امتحانات تھے نا پچھلے آٹھ دن سے، آج ختم ہوئے ہیں تو چین کی سانس لی ہے، ایک ماہ سے ساری سرگرمیاں معطل کیے ہوئے تھی،اب کئی رکے ہوئے کام انجام دے سکوں گی!‘‘ پانچ منٹ بیٹھ کر اس نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا اور میرا رکا ہوا کام دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ وہ میرے وقت کا ضیاع کرنے کا موجب بن رہی تھی۔ یہ ایک اچھی بات ہے اس میں کہ اس نے کبھی خود کو مجھ پر مسلط نہیں کیا، معمول میں سلام سے بڑھ کر بات نہیں ہوتی۔ اجازت لے کر وہ نکلی تو میں سوچ رہی تھی کہ ابھی تو اس کی بیٹی گریڈ ون (1)  کی طالبہ ہے اور ابھی سے امتحان نے اس کی اتنی مت مار دی ہے تو آگے آگے کیا ہوگا؟

یہ صرف ایک ماں نہیں ،  بلکہ ایسی ماؤں سے یہ ملک بھرا پڑا ہے جنھوں نے بچوں کی پڑھائی، امتحانات اور کامیابی کو اپنا درد سر بنا کر اپنی پریشانیوں میں اضافہ کر رکھا ہے،اچھے سے اچھے اسکول میں بھیج کر بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی اور امتحانات کے دنوں میں تو یہ پریشانی بخار بن جاتی ہے۔

پچھلے ہفتے ہی تائی جان کو بخار ہو گیا، معمول میں تو وقت ہی نہیں نکل پاتا، اسی لیے جمعے کو ان کی طرف جانے کا عزم کیا اور جمعرات کو انھیں کال کر کے پوچھا کہ اگر وہ گھر پر ہوں تو ہم جمعہ کو ان کی طرف چکر لگا لیں۔

’’ بیٹا اس جمعہ کو نہیں…  نہ ہی اگلے جمعے کو… تم لوگ یوں کرو کہ دو ہفتے کے بعد جو اتوار آ رہا ہے ، اس دن آ جانا  اور کھانا بھی ہمارے ہاں ہی کھانا! ‘‘

’’ تو کیا آپ کا بخار اگلے دو ہفتے تک اترنے والا نہیں، کوئی سیریس بیماری تو نہیں ہو گئی آپ کو تائی جی! ‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔

’’ تمہارے منہ میں خاک… ‘‘ تائی جان نے غصے سے کہا، ’’ مجھے کیوں ہونے لگی کوئی خطرناک بیماری اور کیوں رہے گا بخار مجھے دو ہفتے تک… ‘‘

’’ آپ نے خود ہی تو کہا کہ ہم آپ کی عیادت کو دو ہفتے کے بعد آ جائیں… ‘‘ میں نے کھسیا کر کہا۔

’’ پگلی بہو فارغ نہیں ہے آج کل، امتحان ہو رہے ہیں نا! ‘‘ تائی جی کو غالباً اپنے لہجے کی سختی کا احساس ہو گیا تھا۔

’’ اچھا… کیا پڑھ رہی ہیں آپ کی بہو رانی؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا،  جب تک وہ ایف اے میں تھی، مشکل سے اتنے ہی نمبر لے پاتی تھی کہ پاس ہو جاتی، گھسیٹ گھساٹ کر ایف اے کرتے ہی اس کی شادی ہو گئی تھی، اب اگر وہ کچھ پڑھ رہی تھی تو اچھی بات تھی۔

’’ وہ کیا پڑھے گی، اس کی قابلیت کا تو تمہیں علم ہی ہے… ‘‘تائی جی چڑ کر بولیں، ’’ بلکہ تم سے زیادہ کسے علم ہو گا!!‘‘ انھوں نے توقف کیا، ’’ بچوں کے امتحانات ہیں اور آج کل یہ نیا رجحان ہے بیٹا کہ امتحان بچوں کے ہوتے ہیں اور بخار ماں باپ کو چڑھ جاتا ہے… ‘‘

’’ بلکہ دادی کو بھی! ‘‘  میں نے ہنس کر کہا، ’’ چلیں تائی جی پھر… ملاقات ہو گی جب آپ سب کے امتحانات ختم ہو جائیں گے!!‘‘  فون بند کیا تو میں سوچ میں پڑ گئی۔ خاندان میں کسی تقریب کے انعقاد کا ارادہ کریں تو ہر طرف سے ہاہا کار مچ جاتی ہے،  چھوٹی کے امتحان ہیں،  ننھے کے ماہانہ ٹسٹ ہیں،  ثوبی کے’’ سینڈ اپ‘‘  ہیں اگلے ہفتے،  شامی کے ’’ پری بورڈ ‘‘  ہیں ،  نینا کے یونیورسٹی کے فرسٹ سمسٹرٹیسٹ ہیں کامی کے مڈ ٹرم ، نومی کے سالانہ … غرض ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو کہ سال کے بارہ مہینوں پر محیط ہو گیا ہے۔

اسی پر مستزاد نہیں ، ہر جماعت کا امتحان زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے، خواہ وہ تین سال کے بچے کا ہو یا یونیورسٹی کا، ماں باپ stress  میں آ جاتے ہیں، بچوں پر بھی پریشر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ کم عمر بچوں میں anxiety   ہونے کے کیس بڑھ گئے ہیں۔ اس کا سبب ملک میں نظام تعلیم میں موجود ورائٹی ہے،  اتنی قسم کے نظام ملک میں رائج ہیں کہ جن کا کوئی شمار نہیں ہے ۔

سرکاری اسکول،  جن میں استاد، عمارتیں ، فرنیچر، عملہ اور طالب علم بھی بسا اوقات کاغذوں میں موجود ہوتے ہیں، فیسیں اور تنخواہیں لی اور دی جا رہی ہوتی ہیں… نہیں دی جا رہی ہوتی تو تعلیم،  ان بھوت اسکولوں کے سکینڈل ماضی قریب میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔  اس کے بعد نیم سرکاری اور  مختلف ضلعوںمیں ماڈل اسکول ہیں جو کہ ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ہوتے ہیں، ان میں معیار تعلیم نسبتاً  بہتر ہے مگر ان اسکولوں کے پاس فنڈز کی کمی کے باعث ان میں سے زیادہ تر کی عمارتیں خستہ حال اور مرمت طلب ہو چکی ہیں۔ پھر پرائیویٹ اسکول ہیں جہاں تعلیم کو کاروبار کا درجہ حاصل ہے، ان کی مختلف کیٹیگری ہیں، ان میں بیرونی یونیورسٹیوں سے رجسٹر شدہ، غیر رجسٹرڈ،  این جی اوز کے تحت چلنے والے جہاں اساتذہ اور طالب علموں کی جعلی فہرستیں ہیں کیونکہ ان کے مطابق این جی اوز سے امداد وصول کی جاتی ہے، ان میں تعلیم دینا ہر گز ترجیح نہیں ہوتی۔  ہر گاؤں اور دیہہ میں کھلے ہوئے اسکول جن میں اسکول کے پرنسپل تک کی تعلیم  مڈل یا میٹرک سے زیادہ نہیں ہوتی اور وہ والدین سے انگریزی میڈیم کے نام پر بھاری فیسیں بٹورتے اور ناقص تعلیم دیتے ہیں۔ صرف سلیبس، معیار تعلیم، نصابی کتب اور فیسوں کا فرق نہیں بلکہ ہر چیز مختلف ہے، کہیںکسی وقت امتحان ہو رہے ہوتے ہیں اور کبھی کہیں۔

جہاں سارا ملک ہی اللہ کے آسرے پر چل رہا ہے، وہاں نظام تعلیم پر بھی کسی کی نظر کرم پڑی ہے نہ پڑنے والی ہے، کیونکہ یہاں ہر محکمے کا وزیر وہ ہے جسے اس محکمے کی شد بد نہ ہو،   تعلیم کی ضرورت بھی یہاں اتنی نہیں کہ اتنی رقوم خرچ کر کے، اتنا وقت اور محنت صرف کر کے جو ڈگریاں حاصل کرنا ہوتی ہیں، وہ تو قیمتا ویسے بھی مل جاتی ہیں، وہ پاکستان میں  قابل قبول ہیں جب تک کہ آپ الیکشن لڑ کر جیت نہ جائیں اور آپ کے مخالف کیمپ کے لوگ آپ کی ڈگری کے جعلی ہونے کا شور نہ مچا دیں، ورنہ عام لوگوں کی ڈگریاں کہاں چیک ہوتی ہیں ؟

ہماری یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم کاروبار کی صورت دی جا رہی ہے، بھاری فیسیں اور کم وزن کی حامل ڈگریاں، گنتی کی چند یونیورسٹیوں کے سوا ہمارے ہاں کی ڈگریوں کی دنیا میں کہیں کوئی وقعت نہیں ہے۔ شرم آتی ہے ملک میں نظام تعلیم کی حالت دیکھ دیکھ کر، جانے ہزاروں  ماہرین تعلیم، ( جو واقعی ماہرین تعلیم کہلانے کے مستحق ہیں) سے کیوں مشاورت نہیں کی جاتی، ہم اس مذہب کے ماننے والے جو سبق دیتا ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے، پھر کیوں اتنا تفاوت کہ ایک نظام تو ملک میں بے روزگار پیدا کر رہا ہے اور دوسرا نظام بیرون ممالک کے لیے طالب علموںکا وہ طبقہ تیار کر رہا ہے جو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یہاں سے جاتا ہے مگر وہاں ایک ایسے دام ہم رنگ زمین پھنس جاتا ہے کہ وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے، چند برسوں میں اسے وہاں کی شہریت مل جاتی ہے اور اس کی شناخت بدل جاتی ہے، ہم اس’’ برین ڈرین‘‘  کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتے۔

لمحہء فکریہ ہے، اسے ذرہ برابر اہمیت نہیں دی جا رہی، اگر اس اہم مسئلے کو یوں ہی فراموش کیا جاتا رہا، ملک کے ہر تعلیمی ادارے کے لیے بالکل ایک جیسا نہ سہی، کم و بیش ایک جیسا نصاب نہ مقرر کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہم سر پکڑ کر روتے ہی رہ جائیں گے ، ہمارے بہترین دماغ دیار غیر جا بسیں گے اور یہاں وہ طبقہ ہو گا جس کے نوجوان ناقص تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت نہ مل سکنے کے باعث کسی جرائم پیشہ گروہ کے ہتھے لگ جائیں گے، خود کشی کر لیں گے، کسی اور کو مار دیں گے  یا نفسیاتی مریض بن کر معاشرے پر بوجھ بن جائیں گے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔