وی بوک کلیئرنس؛رعایتی اسناد کا یکساں نظام رائج کرنے کا مطالبہ

احتشام مفتی  اتوار 1 جون 2014
ایف ٹی اے سرٹیفکیٹ  سیل مختلف منفی سرگرمیوں، طریقہ کار اور بے قاعدگیو ں پر ٹریڈ سیکٹر کو تحفظات ہیں۔   ۔فوٹو: فائل

ایف ٹی اے سرٹیفکیٹ سیل مختلف منفی سرگرمیوں، طریقہ کار اور بے قاعدگیو ں پر ٹریڈ سیکٹر کو تحفظات ہیں۔ ۔فوٹو: فائل

کراچی: محکمہ کسٹمز کے وی بوک کلیئرنس سسٹم میں ایف ٹی اے، پی ٹی اے، قرنطینہ، سافٹا اور کوالٹی کے رعایتی سرٹیفکیٹس کی تصدیق اور فائلنگ کے مختلف طریقہ کار ریونیو چوری، درآمدی پالیسی کی بے قاعدگیوں اور جعلی سرٹیفکیٹس کے فروغ کا باعث بن گئی ہے۔

حقائق کے تناظر میں پاکستان اکانومی فورم کی جانب سے چیف کلکٹرکسٹمز کو ارسال کردہ سفارشات میں کنسیشنری سرٹیفکیٹس کی تصدیق اورسسٹم میں فائلنگ کے لیے یکساں طریقہ کارمتعارف کرانے کا مطالبہ کردیا گیا ہے۔ فورم کے چیئرمین ارشد جمال کی جانب سے بھیجے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ وی بوک کلیئرنس سسٹم میں مختلف اقسام کے کنسیشنری سرٹیفکیٹ کی فائلنگ وتصدیق کے طریقہ کار بھی مختلف ہیں جو بے قاعدگیوں کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں کسٹمز کی سطح پر ایف ٹی اے سرٹیفکیٹ کی تصدیق کے لیے قائم کردہ علیحدہ سیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیل کی مختلف منفی سرگرمیوں، طریقہ کار اور بے قاعدگیو ںپراگرچہ ٹریڈ سیکٹر کو تحفظات ضرور ہیں لیکن سیل ایک سسٹم کے تحت سرٹیفکیٹس کی تصدیق کرکے اپنی اہمیت قائم کرچکا ہے۔

خط میں بتایا گیا ہے کہ کنسیشنری سرٹیفکیٹس کی تصدیق کے غیرواضح نظام کی وجہ سے متعلقہ کسٹمزاپریزرز باقاعدہ سسٹم کے ذریعے کال کرتے ہیں جبکہ کچھ سرٹیفکیٹس متعلقہ ٹرمینل آپریٹرزکو براہ راست جاری کیے جاتے ہیں لیکن اس غیرواضح نظام کی وجہ سے کرپشن بے قاعدگی اورجعلی سرٹیفکیشن کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے چیف کلکٹرکسٹمز کو تجویز دی کہ وہ تینوں متعلقہ کسٹمز کلکٹریٹس کے لیے ایک مشترکہ ’’کنسیشنری سرٹیفکیٹس ویریفکیشن سینٹر‘‘ قائم کریں جہاں ہرقسم کے رعایتی سرٹیفکیٹس کی فائلنگ وتصدیق شفاف انداز میں کی جاسکے اورساتھ ہی ڈیکلیرڈگڈزکی تصدیق شدہ کاپی کی متعلقہ سسٹم سے اسکیننگ ہوسکے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کے مشترکہ اس اقدامات کے نتیجے میں محکمہ کسٹمز ودیگرمتعلقہ اداروں کے درمیان باہمی روابط کو فروغ ملے اور تصدیق کا عمل شفاف ہونے جعلی سرٹیفکیشن کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ خط میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے فی الوقت محکمہ کسٹمز کے ایف ٹی اے سیل میں اسپیڈ منی عروج پر ہے ۔

جہاں فی کنسیشنری سرٹیفکیٹ پر2 تا5 ہزار روپے کی اسپیڈ منی وصول کی جا رہی ہے لہذا تجویز ہے کہ سرٹیفکیٹس کی تصدیق کے لیے بیٹ کوڈ سسٹم(BAT CODE SYSTEM) اختیارکیاجائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چین سے ایف ٹی اے کے تحت درآمد ہونے والے کنسائمنٹس کے تمام ایف ٹی اے سرٹیفکیٹس پر ’’بار کوڈ‘‘ ہوتا ہے اگر متعلقہ کسٹمزاسٹاف سرٹیفکیٹ بارکوڈکا حوالہ دیکر چین کے متعلقہ حکام سے آن لائن تصدیق کرے تو حقیقی معلومات کے ساتھ کرپشن کے دروازے بھی بند ہوسکتے ہیں۔

خط میں محکمہ کسٹمز کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ سرٹیفکیٹ بار کوڈ جاری کرنے والے بیرونی ممالک کے متعلقہ محکمہ جات کے خودکار نظام سے منسلک کرنے کی حکمت عملی مرتب کرے جس سے نہ صرف ہرقسم کے رعایتی سرٹیفکیٹس کی تصدیق کا عمل شفاف ہوسکے گا بلکہ محکمہ کسٹمز کو درست انوائسز کا بھی ریکارڈ حاصل ہوسکے گا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پرٹریڈ سیکٹر کوزیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے اور کلیئرنس کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے کسٹمز کلیئرنس سسٹم کو بہتر سے بہتر بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی اگرکسٹمز کی سطح پر نظام کو شفاف بناتے ہوئے اصلاحات متعارف کرائی جائیں توبے قاعدگیوں اور کرپشن کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ قانونی تجارت کو فروغ ملے گا اور ریونیو وصولیوں کے حجم میں خطیراضافہ ممکن ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔