باجوڑ میں افغانستان سے حملے پر پاکستان کا احتجاج

ایڈیٹوریل  اتوار 1 جون 2014
سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی سے 16 حملہ آور ہلاک جب کہ ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے تھے۔ فوٹو: فائل

سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی سے 16 حملہ آور ہلاک جب کہ ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے تھے۔ فوٹو: فائل

باجوڑ ایجنسی میں ہفتہ کو سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا‘سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 16 حملہ آور ہلاک جب کہ ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے۔ پاکستان نے اس واقعے پر افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے پر زور احتجاج کیا جب کہ کابل میں تعینات پاکستانی سفیر نے بھی اس معاملے کو افغان وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔ ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے مطابق تحریک طالبان باجوڑ اور سوات کے 200مسلح افراد افغانستان کے سرحدی گائوں غنڈ میں جمع ہوئے اور وہاں سے پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر دیا۔

افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کا یہ واقعہ پہلی بار رونما نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار پاکستانی علاقوں کی سرحدی خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے یہ کوشش کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں اور ماحول مجموعی طور پر بہتر رہے۔ افغانستان کی حکومت‘ پاکستان پر در اندازی کے الزامات عائد کرتی رہی ہے جس کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کرتے ہوئے افغان حکومت سے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا مگر افغان حکومت کبھی ان کے ثبوت فراہم نہ کرسکی۔

اب ایک بار پھر افغانستان کے علاقے سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ جہاں قابل مذمت ہے وہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے‘ ان  کے پاس بھاری ہتھیار کہاں سے آ رہے ہیں اور ان کی مالی معاونت کون کر رہا ہے۔ اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت افغان حکومت کا فرض ہے اگر اس کے علاقوں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کریں گے تو اس کا الزام افغان حکومت ہی پر عاید ہوگا۔ افغان حکومت کو پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت کا انتظام بہتر بنانا چاہیے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے علاوہ تین لاکھ افغان آرمی بھی موجود ہے۔

اتنی بڑی مسلح قوت کی موجودگی میں دہشت گردوں کا سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ بھارت ‘پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہا ہے اور افغان حکومت بھی اس عمل میں اس کی معاونت کر رہی ہے۔ ایسی اطلاعات آنے کے باوجود پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑے بلکہ ہر ممکن کوشش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ بہتر تعلقات قائم ہوں۔ پاکستان اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے افغان حکومت اور نیٹو حکام سے بات چیت کرے تاکہ ایسا نظام وضع کیا جائے کہ مستقبل میں کوئی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں نہ کر سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔