- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
باجوڑ میں افغانستان سے حملے پر پاکستان کا احتجاج
باجوڑ ایجنسی میں ہفتہ کو سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا‘سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 16 حملہ آور ہلاک جب کہ ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوگئے۔ پاکستان نے اس واقعے پر افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے پر زور احتجاج کیا جب کہ کابل میں تعینات پاکستانی سفیر نے بھی اس معاملے کو افغان وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔ ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے مطابق تحریک طالبان باجوڑ اور سوات کے 200مسلح افراد افغانستان کے سرحدی گائوں غنڈ میں جمع ہوئے اور وہاں سے پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر دیا۔
افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کا یہ واقعہ پہلی بار رونما نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی متعدد بار پاکستانی علاقوں کی سرحدی خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے یہ کوشش کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب نہ ہوں اور ماحول مجموعی طور پر بہتر رہے۔ افغانستان کی حکومت‘ پاکستان پر در اندازی کے الزامات عائد کرتی رہی ہے جس کی پاکستان نے ہمیشہ تردید کرتے ہوئے افغان حکومت سے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا مگر افغان حکومت کبھی ان کے ثبوت فراہم نہ کرسکی۔
اب ایک بار پھر افغانستان کے علاقے سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ جہاں قابل مذمت ہے وہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے‘ ان کے پاس بھاری ہتھیار کہاں سے آ رہے ہیں اور ان کی مالی معاونت کون کر رہا ہے۔ اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت افغان حکومت کا فرض ہے اگر اس کے علاقوں سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کریں گے تو اس کا الزام افغان حکومت ہی پر عاید ہوگا۔ افغان حکومت کو پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت کا انتظام بہتر بنانا چاہیے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے علاوہ تین لاکھ افغان آرمی بھی موجود ہے۔
اتنی بڑی مسلح قوت کی موجودگی میں دہشت گردوں کا سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوتی رہی ہیں کہ بھارت ‘پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہا ہے اور افغان حکومت بھی اس عمل میں اس کی معاونت کر رہی ہے۔ ایسی اطلاعات آنے کے باوجود پاکستان نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ تعلقات نہیں بگاڑے بلکہ ہر ممکن کوشش کی کہ دونوں ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ بہتر تعلقات قائم ہوں۔ پاکستان اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے افغان حکومت اور نیٹو حکام سے بات چیت کرے تاکہ ایسا نظام وضع کیا جائے کہ مستقبل میں کوئی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں نہ کر سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔