میاں صاحب کا صائب فیصلہ

مقتدا منصور  اتوار 1 جون 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

تمام تر مخالفتوں، مزاحمتوں اور رکاوٹوں کو عبور کرکے وزیراعظم میاں نواز شریف نے نومنتخب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی رسمِ حلف برداری میں شرکت کرکے اس خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ایک انگریزی اخبار کے اداریے کے مطابق پیر کا دن مسکراہٹوں، مصافحوں اور فوٹو سیشنوںکے حوالے سے میڈیا کی رونقوں میں اضافے کا سبب بنا رہا۔ لیکن جیسے ہی منگل کو تعلقات میں بہتری کے لیے سنجیدہ گفت وشنیدکا سلسلہ شروع ہوا، پاکستان اور بھارت کے ذرایع ابلاغ نے اس ملاقات کے مثبت نکات کو دانستہ نظر انداز کرتے ہوئے ان امورکو اچھالنا شروع کردیا، جو یا تو ایجنڈے کا حصہ نہیں تھے یا بوجہ اس ملاقات میں زیرِ بحث نہیں آسکے، جس کے نتیجے میں رجعت پسند اور جنگ پسند قوتوں کو باتیں بنانے کا موقع مل گیا۔

جن لوگوں کی عالمی اور خطے کے سیاسی منظرنامہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر ہے، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کے لیے اب بقائے باہمی کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔ اس عمل میں جتنی تاخیر ہوگی، صرف ان دونوں ممالک ہی کا نہیں خطے کے دوسرے ممالک کا بھی نقصان ہوگا۔ لیکن اصل خسارے میں پاکستان رہے گا، جس کی معیشت زبوں حالی کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ اس کے علاوہ معاملات اب کشمیر، سرکریک اور سیاچن سے آگے نکل کر آبی ذرایع پر منصفانہ حصہ داری اور دہشت گردی سے نجات تک جاپہنچے ہیں۔ ان ایشوز پر دونوں ممالک کے درمیان دو رسمی اور تین غیر رسمی جنگیں بھی ہوچکی ہیں، مگر ان کاکوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔ یوں یہ مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں اور پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ Core issues اعتماد سازی کے عمل میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ لیکن جدید دنیا میں ہمارے سامنے کئی ایسے ماڈلز ہیں، جن کو ہم نظیر بناتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے یورپی یونین کی مثال ہے، جو کئی صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہا، بلکہ دو عالمی جنگیں بھی یورپ ہی کی سرزمین پر یورپی ممالک کے درمیان لڑی گئیں۔ لیکن جب اہل یورپ نے محسوس کیا کہ ان کی باہمی چپقلش ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے، تو انھوں نے اپنے ماضی کو دفن کرکے ایک نئی سمت میں سفر کا آغاز کیا۔ نتیجتاً یورپ ان مسائل و مصائب سے نکل گیا، جن میں وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد بری طرح پھنس گیا تھا۔

سب سے اہم مثال چین اور امریکا کی ہے، جن کے درمیان صرف نظریاتی اختلافات ہی نہیںہیں، بلکہ تائیوان بھی بہت بڑی وجہ تنازع ہے۔ مگر آج امریکا کی چین کے ساتھ تجارت کا حجم دیگر ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ چین تائیوان پر اپنے حق سے دستبردار ہوگیا ہے۔ اسی طرح چین اور بھارت کے تبت کے علاقے میں کئی دہائیوں سے سرحدی تنازعات چلے آرہے ہیں۔ ان تنازعات کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے درمیان 1962 میں جنگ بھی ہوئی۔ گزشتہ 15 برسوں سے ان دونوں ممالک نے اس تنازع کے باوجود آپس میں تجارت کا فیصلہ کیا اور اس وقت ان کے درمیان تجارت کے حجم کئی ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے۔ جب کہ سرحدی تنازع آج بھی اپنی جگہ موجود ہے اور اس کے حل کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

جدید دنیا میں معاشی ترقی علاقائی تجارت سے مشروط ہے۔ یہی سبب ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب نوآبادیات آزاد ہونا شروع ہوئیں تو نئے نئے تنازعات کے ساتھ نئے نئے اتحاد بھی قائم ہونا شروع ہوگئے۔ مگر سرد جنگ کے پورے عرصے کے دوران دنیا دو قطبیت کا شکار ہونے کی وجہ سے آزادانہ تجارت کی طرف مائل نہیں ہوسکی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد البتہ علاقائی تعاون کی تنظیمیں ایک بار پھر فعال ہونے لگیں۔ مگر 1984 میں قائم ہونے والی SAARC پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود شدید اختلافات اور خطے کی متزلزل صورتحال کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

دوسری طرف جب بیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران معاشی سرگرمیوں کا محور یورپ سے ایشیا کی جانب منتقل ہونے لگا، تو کئی ایشائی ممالک نے اس سمت میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی۔ مگر اس میدان میں اصل مسابقت چین اور بھارت کے درمیان ہے۔ پاکستان اپنے حکمرانوں، منصوبہ سازوں اور سیاسی قیادتوں کی محدود سوچ اور ایڈہاک پالیسیوں کے باعث اس دوڑ کا حصہ نہیں بن سکا۔ بلکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ترقی معکوس کی جانب رواں ہوگیا۔ حالانکہ 1960 کے عشرے میں پاکستان کی معاشی ترقی کے اشاریے (Indices) بھارت کے مقابلے میں خاصے بہتر تھے۔

میاں نواز شریف اپنی سیاسی کمزوریوں اور روایتی سماجی رجحانات کے باوجود معیشت کی موشگافیوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران قوم سے وعدہ کیا تھا کہ معاشی ترقی کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرتے ہوئے تجارت کو فروغ دیں گے۔ چنانچہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات پر گفت و شنید کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لاکر تجارتی حجم میں اضافہ کیا جائے۔ جو معیشت کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ جب کہ دوسری طرف نریندر مودی بھی معیشت کو مستحکم کرنے اور اس میں بہتری لانے کے وعدے پر منتخب ہو کر آئے ہیں۔

اس لیے دونوں رہنمائوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اعتماد سازی کے عمل کو آگے بڑھانا ہے، جو روایتی سوچ کے باعث مسلسل مختلف نوعیت کی مزاحمتوں اور رکاوٹوں کا شکار چلا آرہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو میاں نواز شریف نے دہلی میں اپنی موجودگی کو اپنے انتخابی منشور اور انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔ اسی طرح نریندر مودی، جن کی پاکستان اور مسلمانوں کے حوالے سے شہرت خاصی داغ دار ہے، وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے ایک نکاتی انتخابی ایجنڈے کو عملی شکل دینے کے لیے اپنی شخصیت کا دوسرا پہلو نمایاں کرنے پر مجبور ہوئے۔

جو حلقے اس دورے سے کسی بڑے بریک تھرو یا روایتی تنازعات پر اصرار کی توقع لگائے بیٹھے تھے، معذرت کے ساتھ وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ یہ کوئی رسمی دورہ نہیں تھا، بلکہ ایک طرح کا Ceremonial قسم کا دورہ تھا۔ یہ دورہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ اول تو سارک ممالک کے بیشتر رہنما اس تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لارہے تھے۔ دوئم کئی برسوں سے جمی سردمہری کی برف کو پگھلانے اور مذاکرات کے ٹوٹے ہوئے سلسلے کو جوڑنے کے لیے اس نوعیت کے دورے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا میاں صاحب نے دانشمندانہ فیصلہ کیا اور اس تقریب میں شرکت کرکے تلخیوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر یہ خواہش کرنا کہ اس موقع پر وہ پرانا راگ الاپنے بیٹھ جاتے، کسی طور دانشمندی نہ ہوتی۔

اسی طرح نریندر مودی کے لیے بھی اب سخت گیر اور تنگ نظر ہندو قوم پرستانہ انداز جاری رکھنا، ممکن نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ انھیں اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہندو نرگسیت سے باہر نکل کر زمینی حقائق پر توجہ دینا ہوگا اور تمام پڑوسیوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ چونکہ دونوں رہنمائوں کے سیاسی مستقبل کا انحصار ان کی معاشی پالیسیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ہے۔ اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں روایتی طرز عمل کے سحر سے باہر نکل کر حقیقت پسندانہ روش اختیار کرنا ہوگی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ 74 برس کی تلخیاں (قراردادِ پاکستان سے شروع ہونے والا تنائو) ایک روز میں ختم نہیں ہوسکیں گی۔ مگر تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ تلخ و شیریں باتوں کو قبول کرنا ہوگا۔ ابھی دوستانہ تعلقات کے قیام کی منزل بہت دور ہے۔ لیکن ایک بار گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوجائے اور دونوں جانب کے منصوبہ ساز سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھنے کا تہیہ کرلیں تو پھر مذاکرات میں آنے والے مدوجذر پر قابو پانا آسان ہوجائے گا۔

حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ تجارت اور عوام کے عوام سے رابطہ کو Core Issues کے حل تک موخر رکھا جائے، وہ دراصل پاکستان بھارت تعلقات میں کشیدگی کو برقرار رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کے موقف کو تسلیم کرنے کی صورت میں پاکستان اور بھارت شمالی اور جنوبی کوریا کی طرح تنائو کی کیفیت میں رہیں گے۔ اس لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ وسیع البنیاد مذاکرات یعنی Composite dialogue کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا جائے۔ بنیادی مسائل (Core Issues) پر مذاکرات کے ساتھ تجارت کے حجم میں اضافہ اور شہریوں کی آمدورفت کو سہل بنانے کے لیے (Visa Regimes) کو آسان بنانے پر توجہ دی جائے تو معاملات تیزی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ خدارا اس خطے کو کوریا بنانے کے بجائے یورپ بنانے کی کوشش کی جائے یا پھر چین اور امریکا کے تعلقات کو مدنظر رکھا جائے۔ اپنی موجودہ معاشی زبوں حالی، سماجی پستی اور سیاسی انتشار سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امن کو بھی ایک موقع دیا جائے۔ اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم کی رسم حلف برداری میں شرکت کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔