پاک بھارت تعلقات کا مستقبل

زمرد نقوی  اتوار 1 جون 2014

وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان ملاقات میں امن مذاکرات کی بحالی اور تجارتی رابطے بڑھانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اس کو تاریخی ملاقات کہا جارہا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف پر شدید دبائو تھا کہ وہ بھارت نہ جائیں لیکن انھوں نے تمام دبائو کو ایک طرف رکھتے ہوئے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ نریندر مودی سے ان کی ملاقات شاندار رہی ہے اور دونوں ملک درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے لیے امن ناگزیر ہے اور اب نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ نریندر مودی نے مجھے اپنی حلف برداری کی تقریب میں بلایا، یہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی موقعہ ہے کہ وہ عوام کی امیدیں پوری کریں اور ایک نئی تاریخ لکھیں۔ قوم نے ہمیں اس کے لیے واضح منڈیٹ دیا ہے۔ ہمارا مشترکہ ایجنڈا ترقی اور خوشحالی ہے لیکن خطے میں امن کے بغیر پورا ہونا ممکن نہیں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی ثقافتی اور روایتی قدریں مشترک ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ خوشگوار اور اچھے تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں‘ ادھر نو منتخب بھارتی وزیراعظم کا بھی یہی حال ہے‘ یوں دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا نیا دور شروع ہو گا اور اس میں کئی ایسے فیصلے ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے جنھیں ابھی انہونی سمجھا جا رہا ہے۔

وزیراعظم میاں نواز شریف سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی عیادت کے لیے خصوصی طور پر ان کی رہائش گاہ گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس موقعہ پر افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان پر سنگین الزامات لگائے جس میں حال ہی میں ہرات میں بھارتی قونصل خانے پر حملہ ہے۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ طالبان کے لیڈر ملا عمر کوئٹہ میں مقیم ہیں۔ اس طرح حامد کرزئی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تاہم مجھے لگتا ہے کہ حامد کرزئی اپنے مقصد میں ناکام رہے کیونکہ ان کے الزامات کو بھارتی میڈیا نے تو شاید کچھ اہمیت دی ہو لیکن بھارتی حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے بھی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا اور کسی تنازعے میں الجھنے کی کوشش نہیں کی۔

نواز شریف ہوں یا مودی دونوں نے باہمی تعلقات کے حوالے سے اچھی خواہشات کا اظہار کیا۔ 99ء میں بھی انھی اچھی خواہشات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن نتیجہ کارگل کی شکل میں نکلا۔ پھر جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو نوبت ایٹمی جنگ تک پہنچ گئی۔ دونوں ملکوں کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے 8 مہینوں تک کھڑی رہیں۔ وہ تو امریکا سمیت عالمی برادری مدد کو نہ آتی تو جنگ کے شعلے بھڑک چکے ہوتے۔

اگر اس دفعہ بھی نواز شریف مودی امن کی کوشش ناکام ہوگئی تو بھارت پاکستان کے غریب عوام ایٹمی جنگ سے بچ نہ پائیں گے۔ اللہ خیر کرے لیکن اس دفعہ صرف دعائوں سے کام نہیں چلے گا کیونکہ دونوں ملکوں کی امن دشمن قوتیں بہت طاقتور ہیں۔ وہ ہر قیمت پر جنگ چاہتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اپنی بقا اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ جنگ ہو۔ اس جنگ میں حکمران طبقے ان کی آل اولاد تو بچ جائیں گے لیکن دونوں ملکوں کے غریبوں کی نسلوں تک کا خاتمہ ہوجائے گا۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جب بھارتیا جنتا پارٹی کا 80ء میں جنم ہوا تو اس وقت خطے کے حالات کیا تھے۔ اس سے ایک سال پہلے 79ء میں ایران میں مذہبی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنی بقا کے لیے ضیاء الحق کی شکل میں قوم کو انتہا پسندی کا ذہنی غسل دے رہی تھی۔ اس کام میں اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مدد بھی حاصل ہوگئی جس کی سربراہی امریکا کررہا تھا تاکہ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی جاسکے۔ اس عمل کے دوران پاکستانی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی فائدے میں رہے کہ دونوں کے سر کڑاہی میں اور انگلیاں گھی میں تھیں لیکن بیڑہ غرق خطے کے عوام کا ہوگیا۔ اس معاملے میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کیوں پیچھے رہتی تو اس نے بھی بی جے پی کی شکل میں ہندو مذہبی جنونیت کی (درپردہ) سرپرستی شروع کردی۔

اس کام میں بڑے فائدے تھے کہ اس طرح سے قوم کو غلام بناکر رکھا جاسکتا تھا بلکہ اگر پاکستان کی شکل میں کسی کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے تو مذہب کے نام پر بھارتی حکمران طبقے کے مفاد کو محفوظ بنانے کے لیے لاکھوں کروڑوں ہندو ہنسی و خوشی اپنی جان قربان کرسکیں۔ مذہبی انتہا پسندی و جنونیت مقامی سامراج اور عالمی سامراج دونوں کے لیے بڑے کام کی چیز ہے۔ اس میں ان کا فائدہ ہی فائدہ ہے کیوں کہ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کو استعمال کرکے غریب عوام کو حکمران طبقوں کے خلاف بغاوت سے روکا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے وسائل پیداوار پر قبضہ کرکے عوام کو دانے دانے کا محتاج کردیا ہے۔ وہ حکمران طبقے جنہوں نے سیکڑوں ہزاروں سال سے غریب عوام کو ان کے حق حکمرانی سے محروم کرکے اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔

بھارت میں تقسیم کے وقت یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ یہاں سیکولرازم کا مستقبل کیا ہوگا اور اس کا نتیجہ نریندر مودی کی شکل میں آنے میں 67 سال لگ گئے لیکن یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ مودی کی کامیابی برصغیر کی تقسیم کا منطقی نتیجہ ہے۔ جس مذہبی شدت پسندی کا بیج ہم نے پاکستان میں بویا‘ بھارت میں مودی کی شکل میں کاٹ لیا۔ اس کا ذمے دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ بھارت میں سیکولر ازم کی ناکامی کے ذمے دار ہم بھی ہیں اور ہمارے ہاں سیکولر ازم کی ناکامی میں بھارتی انتہا پسندوں کا ہاتھ بھی ہے۔ ہمارے خطے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی نے امریکا یورپ میں بھی سیکولر ازم کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ فرانس جرمنی میں ایک کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ وہاں پر عیسائی شدت پسندی بھی تیزی سے ابھر رہی ہے جو مطالبہ کرتی ہے کہ ان تمام مسلمانوں کو واپس ان کے ملک بھیجا جائے۔ اللہ عالم انسانیت پر رحم کرے۔

…پاکستان اور بھارت موجودہ نحس دور سے نکلیں گے یا نہیں نکلیں گے اس کا فیصلہ اس سال کے آخر میں ہوگا۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔