محلہ کمیٹیوں کی ضرورت اور اہمیت

ظہیر اختر بیدری  اتوار 1 جون 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے حکمران طبقے کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ہر مسئلے کا ریڈی میڈ حل نکالتے ہیں جس وجہ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مزید شدت اختیار کرلیتا ہے، دوسرے ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اہم قومی مسائل کے حل کے لیے ان مسائل کے محرکات اور متعلقات کا بھرپور طریقے سے تحقیقاتی جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس طریقہ کار کی وجہ سے مسائل حل کرنے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا اور صنعتی شہر ہے اور ایسے شہروں میں پسماندہ علاقوں سے تلاش روزگار کے لیے آنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے، روزگار کے لیے صنعتی شہروں میں آنے والوں کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد کے گروہ بھی بڑے شہروں میں آتے رہتے ہیں۔ کراچی جن سنگین جرائم کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ان جرائم میں باہر سے آنے والوں کی اکثریت ملوث ہے۔ کراچی کی انتظامیہ جرائم کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کرتی ہے اس میں اس تحقیق کا کوئی دخل نہیں ہوتا کہ مجرموں میں کراچی کے باشندوں کی تعداد کتنی ہے، باہر یعنی دوسرے صوبوں سے آنے والوں کی تعداد کیا ہے، ان اندھے اقدامات کی وجہ سے جرائم میں کمی تو نہیں ہوتی البتہ ان میں بے تحاشا اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ کراچی عرصے سے اسی صورتحال سے دوچار ہے۔

کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ شہر سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ہے جس میں ہزاروں بستیاں آباد ہیں جن میں مختلف زبان بولنے والے، مختلف نسل اور قومیتوں کے لوگ آباد ہیں جن میں جرائم پیشہ لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ہمارا حکمران طبقہ باشعور اور جرائم کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو وہ مجرموں کے علاقوں، ان کی زبان اور قومیت کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کرتا اور اس کی روشنی میں جرائم کے تدارک کے لیے اقدامات کرتا تو ان میں کامیابی کے زیادہ امکانات ہوتے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سائنٹیفک طریقے سے کام کرنے کے بجائے اندھے کی لاٹھی کی طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ محض سیاسی مفادات کی خاطر کہا جا رہا ہے کہ ’’کراچی سب کا شہر ہے‘‘۔ اس اندھی حماقت کا نتیجہ یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے گروہ کے گروہ کراچی آرہے ہیں اور جرائم کا گراف آسمان کو چھو رہا ہے۔

دوسرے صوبوں سے آنیوالوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے آنیوالوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے ملکوں سے آنیوالے پاکستان کے قوانین کے تحت کراچی آرہے ہیں اور شہری حقوق حاصل کر رہے ہیں یا ہر کام رشوت کے عوض ہو رہا ہے۔ اس سوال کے جواب سے اس شہر کا ہر شہری واقف ہے۔ اس بدنظمی اور بدانتظامی کی وجہ سے کراچی لاقانونیت اور جرائم کا گڑھ بنا ہوا ہے اور حکمران طبقہ محض انٹ شنٹ بیانات پر گزارا کر رہا ہے۔ ہمارا میڈیا بلاشبہ فعال بھی ہے اور طاقتور بھی لیکن کراچی میں جرائم کی بھرمار کو کنٹرول کرنے میں کوئی مثبت رول ادا نہیں کر پا رہا ہے۔

ہماری صوبائی حکومت اور اس کے سربراہ قائم علی شاہ بہت سنجیدہ اور خاموش طبع انسان ہیں اور کراچی میں جرائم کو روکنے کی اپنی سی کوششیں بھی کر رہے ہیں، اس حوالے سے کراچی پولیس کو اربوں روپوں کی بلٹ پروف گاڑیاں اور اسلحہ وغیرہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابق کراچی پولیس کو جدید اسلحہ فراہم کرنے کے لیے مزید چھ کروڑ روپے فراہم کیے جا رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ کسی کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ سیکڑوں میل پر پھیلے اس شہر کے کونے کونے میں جرائم پیشہ افراد موجود ہیں اور انھیں ختم کرنا نہ پولیس کے بس کی بات ہے نہ رینجرز کے بس کی بات ہے، نہ پولیس میں دس پندرہ ہزار نفری کے اضافے سے اس سنگین صورتحال کو کنٹرول کرنا ممکن ہے۔

متحدہ کے قائد الطاف حسین بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سمیت دوسرے تمام جرائم کی روک تھام کے لیے محلہ کمیٹیاں قائم کی جانی چاہئیں۔ یہ تجویز ہم نے اپنے کالموں میں بھی پیش کی ہے اور بلاشبہ یہ ایک مثبت اور حقیقت پسندانہ تجویز ہے، کیونکہ گلی محلے کے لوگ اپنے اردگرد رہنے والوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اگر کوئی نیا آدمی ان علاقوں، گلی محلوں میں آباد ہوتا ہے تو انھیں اس کا علم ہوتا ہے اور اہل علاقہ شریف شہریوں اور جرائم پیشہ افراد میں تمیز کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔

متحدہ کے قائد کی یہ تجویز اگرچہ حقیقت پسندانہ اور موثر ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ محلہ کمیٹیاں کون بنائے گا اور کیسے بنائے گا؟ ہمارے عوام کے درمیان قومیت، فقہ وغیرہ کے حوالے سے بے شمار تضادات موجود ہیں اور پھر محلہ کمیٹیاں بنانے میں پہل کرنا بذات خود ایک بڑے رسک کا کام ہے اور خوف و دہشت کے مارے ہوئے کراچی کے شہری خود ایسا رسک لینے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر حکومت یا کوئی سیاسی جماعت یا جماعتیں اس حوالے سے پہل کریں تو عوام تعاون کرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔

ہماری شاہ جی حکومت پولیس کی نفری بڑھانے، انھیں جدید اسلحہ فراہم کرنے، بلٹ پروف گاڑیاں دلوانے پر اربوں روپیہ خرچ کر رہی ہے لیکن یہ سارے اقدامات اس لیے بے معنی اور بے سود ہیں کہ ہزاروں کچی پکی بستیوں پر مشتمل اس شہر کو نہ پولیس کی نفری بڑھاکر جرائم پیشہ افراد سے نجات دلائی جاسکتی ہے نہ اربوں روپے کے جدید اسلحے کے ذریعے اس شہر کو جرائم سے پاک کرنا ممکن ہے۔ اس کا واحد علاج محلہ کمیٹیاں ہی ہیں اور حکومت اگر چاہے تو تھانہ لیول پر محلہ کمیٹیاں قائم کرکے عوام کو جرائم کی روک تھام میں شامل کرسکتی ہے اور جس کام میں عوام شامل ہوتے ہیں اس کام میں کامیابی یقینی ہوتی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف سے لاکھ اختلافات کریں، ان پر لاکھ الزامات لگائیں، ان کے پیش کردہ بلدیاتی نظام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ نظام صرف انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک پہنچاکر حکومتی اشرافیہ کی اجارہ داری کا خاتمہ ہی نہیں کرتا تھا بلکہ گلی محلوں تک اس نظام کی ایسی موثر رسائی ہوتی تھی کہ محلہ کمیٹیوں جیسی تنظیمیں بنانا ممکن ہی نہیں بلکہ بہت آسان بھی تھا۔ لیکن وڈیرہ شاہی اقتدار مافیا کو قطعی یہ گوارا نہیں تھا کہ وہ اپنے انتظامی اور مالی اختیارات میں کمی کو قبول کرے۔

اس مجرمانہ اور عوام دشمن ذہنیت کی وجہ سے نہ صرف اس موثر نظام کو ختم کردیا گیا بلکہ اس کی جگہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والے کمشنری نظام کی اس زور و شور سے وکالت کی گئی کہ سیاسی شرافت منہ دیکھتی رہ گئی۔ 8-7 سال گزرنے کے باوجود بلدیاتی نظام کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے اور معزز ریاستی ادارے تعاون فرما رہے ہیں۔

اگر بلدیاتی نظام موجود ہوتا تو بلاشبہ محلہ کمیٹیاں بنانا بہت آسان ہوتا، لیکن نہ بلدیہ نظام موجود ہے نہ اس کے جلد بحالی کے امکانات ہیں کیونکہ وڈیرہ شاہی مضبوط بھی ہے اور بااختیار بھی ہے، وہ کسی صورت میں نچلی سطح تک انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم پر تیار نہیں ہوگی۔

بہرحال حقیقت یہی ہے کہ کراچی میں گلی گلی محلہ محلہ پھیلے ہوئے جرائم کی روک تھام نہ پولیس کی نفری بڑھاکر کی جاسکتی ہے نہ پولیس اور رینجرز کو اربوں روپوں کا جدید اسلحہ فراہم کرکے کی جاسکتی ہے اس کا واحد اور منطقی حل محلہ کمیٹیاں ہیں بشرطیکہ یہ کمیٹیاں سیاسی مفادات اور سیاست سے بالاتر اور آزاد ہوں۔ متحدہ اور پی پی پی صوبائی حکومت کے کوئلیشن پارٹنر ہیں اگر دونوں جماعتیں سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کراچی کو ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائمز سے نجات دلانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کوشش کامیاب ہوسکتی ہے، اس حوالے سے دوسرا کوئی موثر آپشن موجود نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔