جہاں ننھے فرشتتوں کا لہو ارزاں ہوجائے

عمیر محمد زئی  پير 2 جون 2014
کیا عجب جو آسماں سے عذاب نازل ہو۔ فوٹو: فائل

کیا عجب جو آسماں سے عذاب نازل ہو۔ فوٹو: فائل

پشاور: خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور کے پوش علاقے گلبرگ میں سواتی پھاٹک کے معصوم دانیال کے والدین کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ آج ان کا لخت جگر گھر لوٹ کر نہیں آئے گا۔ ماں کی خواہش تھی کہ دانیال ڈاکٹر بنے، باپ اسے انجنئیر بنانے کے سپنے دیکھتا تھا۔ انسان سوچتاکچھ ہے اورہوتا کچھ ہے، دانیال کے والدین کے ساتھ جو پیش آیا، خدا نہ کرے کسی اور کو پیش آئے۔

روزانہ کے معمول کے مطابق وقوعہ کے روز بھی دانیال اپنے بھائی باسط کے ساتھ اسکول گیا۔ دونوں بھائی چھٹی کرکے اکٹھے ہی لوٹا کرتے تھے لیکن اس روز باسط اکیلا ہی گھر آیا۔ ماں نے پوچھا بھائی کہاں ہے؟ ’’وہ تو بریک کے دوران نکل گیا تھا‘‘۔ ماں نے یہ سنا تو خوف کی ایک ان جانی لہر سی تن بدن میں دوڑ گئی۔  بے قراری لاحق ہوگئی، دیوانہ وار دوڑی، کبھی اس گلی میں دیکھتی پکارتی پھری کبھی اس کوچے میں لیکن کچھ اتا پتا نہ لگا۔ اس روز دانیال کا والد ٹھیکے دار عبدالواجد کسی وجہ سے پشاور صدر گیا ہوا تھا۔ ممتا کی ماری نے اسے لرزتی اور ہیبت بھری آواز میں خبر کی، دوسرے رشتہ داروں کو بھی اطلاع دی۔ سب جمع ہو گئے اور تلاش شروع کی، اسکول گئے، اس کے کھیلنے کے مقامات دیکھے، الغرض آبادی کا کوئی کونا کھدرا بے چھانے نہ چھوڑا مگر دانیال کہیں نہ ملا۔ بالآخر طے یہ پایا کہ پولیس سے مدد لی جائے۔

اب آیے! پولیس کی طرف؛ جس کے بارے میں یہاں کے رہ نماؤں کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختون خوا کی پولیس مثالی درجہ اختیار کر گئی ہے۔ اِدھر تو دانیال کا خاندان اضطرار اور تردد کی حالت میں بچے کو تلاش کر رہا ہے اور اُدھر پشتہ خرہ میں ایک کھیت مزدور کی نظر ناگاہ ایک دل دہلا دینے والے منظر پر پڑتی ہے۔ دیکھتا کیا ہے کہ کھیت میں ایک بچے کی نعش پڑی ہے، جس کے گلا ازار بند سے گھونٹا اور چہرہ پتھر مار مار کر بگاڑا گیا ہے، پہچاننے میں نہیں آتا کہ کون ہے، ساتھ ہی اس کا بستہ بھی پڑا ہوا ہے۔ اس نے شور مچا دیا اور آن کی آن میں وہاں سیکڑوں کا ہجوم ہوگیا، جس نے دیکھا، دل مسوس کر رہ گیا، اتنے سے معصوم کے ساتھ یہ سفاکی۔ کسی نے پولیس کو خبر کر دی۔

لشٹم پشٹم پولیس پہنچی۔ اور تو خیر کیا کرتی، جنپتھروں سے مار کر چہرہ مسخ کیا گیا تھا، انہیں الٹ پلٹ کر دیکھا کیے، پھر نعش اٹھائی، بستہ لیا اور تھانے پہنچے۔ اس مثالی پولیس کے کسی ایک اہل کار نے بھی بستہ کھول کر دیکھنے کا تکلف نہ کیا کہ معلوم ہوسکے کہ کس کا جگر گوشہ ہے، کچھ اتا پتا معلوم پڑے تو مطلع کیا جائے، کیا تو یہ کہ نعش اٹھا کر پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال کے سردخانے میں ڈلوا دی۔ بچے کا بستہ وہیں پڑا زبان حال سے پکارتا ہی رہ گیا کہ مجھے کھول کر ایک نظر دیکھ تو لو کہ میرا معصوم دوست کون تھا لیکن آہ کہ بچہ پرایا تھا، ان میں سے کسی کا اپنا نہیں تھا۔

اب واپس دانیال کے حرماں نصیب والدین کے پاس چلتے ہیں۔ جب شام تک دانیال کا کچھ پتا نہ چلا تو انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کی ٹھانی۔ یہ گروہ تھانہ پشتہ خرہ پہنچا۔ اب یہ جوں ہی دانیال کا نام زباں پر لائے تو پولیس نے انتہائی سرد مہری اور بے اعتنائی کے ساتھ انہیں بتایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خبر کب تھی، بجلی تھی کہ سیدھی عبدالواجد کے جگر پر گری، پیروں تلے سے زمیں کھسک گئی، آنکھوں پر دنیا تاریک ہوگئی؛ لیکن کیا کرتے، دانیال تو اپنے رب کے باغ میں کھیلنے جا چکا تھا، چار و ناچار سرد خانے سے نعش نکلوائی اور ٹکڑے ٹکڑے دل کے ساتھ گھر کو ہو لیے۔ ماں پر کیا بیتی ہوگی، یہ تصور ہی کیا جاسکتاہے۔ بہ ہر درد و رنج دانیال کو صرف نو سال کی عمر ہی میں رزقِ خاک کرنا پڑ گیا۔

دانیال کے والد ٹھیکے دار عبدالواجد  نے ایکسپریس کو بتایاکہ ابھی تک انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے جگر گوشے کو کس ظالم نے کس بنا پر قتل کیا ہے کیوں کہ اس کا کسی کے ساتھ دشمنی کا تعلق نہیں ہے۔ وہ اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کر رہا تھا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی تھانے کے ایس ایچ او نے اس سے رابطہ نہیں کیا، ہاں ایک تفتیشی افسر آجاتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ اطلاع ملنے کے بعد جب وہ سکول پہنچا تو اسے حیرت ہوئی کہ اس دن اسکول میں دانیال کی حاضری ہی نہیں لگی تھی حال آںکہ وہ بڑے بھائی کے ساتھ ہی اسکول گیا تھا۔

عبدالواجد کے مطابق دانیال کو اغوا کے چند ہی لمحے بعد گلے میں پھندا ڈال کر قتل کیا گیاتھا۔ عبدالواجد نے یہ بھی بتایا کہ جب میڈیا کا کوئی نمائندہ ایس ایچ او سے اس بارے  میں کچھ پوچھتا ہے تو وہ آگے سے کہتا ہے کہ یہ ان کی ذاتی لڑائی ہے حال آںکہ ایسا ہرگز نہیں، پولیس چاہتی تو جائے وقوعہ سے فنگر پرنٹس لے کر ملزم تک رسائی حاصل کرسکتی تھی لیکن اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔

عبدالواجد نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعلی خیبرپختون خوا اورپولیس کے اعلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے بے گناہ بچے کے بہیمانہ قتل کا سراغ لگوایا جائے۔ معصوم بچوں کے ساتھ سفاکی کے اس قدر واقعات سے لگتا یہ ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے اور ہم پر کوئی بہت بڑا عذاب نازل ہونے کو ہے، بربریت کی کوئی حد ہوتی ہے، یقیناً دانیال کے ساتھ اس سفاکی کا ارتکاب کرنے والا ہمارا کوئی مسلمان بھائی ہی ہوگا اور ہمارے لیے یہ کہ کر دامن جھٹک دینا بہت ہی آساں ہے کہ ایسا کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔