یہ ایشوز مریم نواز کے حوالے کردیں

جاوید چوہدری  منگل 3 جون 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ مئی 2014ء کی 27 تاریخ تھی‘ وقت صبح کے پونے آٹھ بجے تھا اور مقام تھا لاہور ہائی کورٹ۔ 25 سال کی ایک نوجوان خاتون اور 45 سال کا ایک جوان مرد ہائیکورٹ کے گیٹ کے نزدیک پہنچا‘ یہ دونوں مسجد گیٹ کے ذریعے ہائیکورٹ میں داخل ہونا چاہتے تھے‘ یہ سڑک پر پہنچے تو اچانک اونچی آواز میں گالی کی آواز آئی‘ یہ دونوں گھبرا کر مڑے‘ سامنے سو گز کے فاصلے پر درجن بھر لوگ کھڑے تھے‘ یہ دونوں دوڑ پڑے مگر لوگوں نے انھیں گھیر لیا‘ جھگڑا شروع ہو گیا‘ خاتون نے چیخنا شروع کر دیا‘ لوگ اکٹھے ہوئے۔

اس دوران حملہ آوروں میں سے ایک شخص نے پستول نکالا اور خاتون پر فائر کر دیا‘ فائر خاتون کی ایڑی پر لگا‘ ہجوم میں موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے پستول چھین لیا‘ یہ شخص سیالکوٹ سے تعلق رکھتا تھا‘ سب انسپکٹر تھا اور یہ پیشی کے لیے ہائی کورٹ آیا تھا‘ اس دوران حملہ آوروں میں شامل ایک بزرگ نے سڑک سے اینٹ اٹھائی اور خاتون کے سر پر دے ماری‘ خاتون نیچے گر گئی‘ تین جوان حملہ آور بھاگے اور بزرگ کے ساتھ شامل ہو گئے‘ ان تینوں نے خاتون کو اینٹیں مارنا شروع کر دیں‘ لوگوں نے انھیں ہٹانے کی کوشش کی لیکن ان کے اٹھنے سے قبل خاتون زندگی کی سر حد پار کر گئی جب کہ خاتون کے ساتھ موجود جوان شخص ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ گیا ‘پولیس کو اطلاع دی گئی‘ پولیس پہنچی‘ ایس پی‘ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او وہاں پہنچ گئے۔

خاتون کی لاش سڑک پر پڑی تھی‘ پولیس کو دیکھ کر خاتون کے ساتھ آنے والا شخص بھی وہاں پہنچ گیا‘ اسٹوری کھلی تو کھلتی چلی گئی‘ پتہ چلا مرنے والی خاتون کا نام فرزانہ تھا‘ یہ جڑانوالہ کے علاقے سیدوالا کی رہنے والی تھی‘ والدین نے دو سال قبل اس کا نکاح اس کے کزن مظہر اقبال سے کر دیا‘ یہ اپنے خاوند کے ساتھ خوش نہیں تھی‘ اس دوران فرزانہ کے محمد اقبال کے ساتھ تعلقات استوار ہو گئے‘ محمد اقبال شادی شدہ تھا لیکن وہ بھی اپنی بیوی سے خوش نہیں تھا‘ یہ تعلقات تقریباً سال ڈیڑھ سال چلتے رہے یہاں تک کہ فرزانہ نے اپنا گھر چھوڑا اور سات جنوری 2014ء کو اقبال کے ساتھ نکاح کر لیا‘ یہ نکاح پر نکاح تھا‘ فرزانہ کے پہلے خاوند مظہر اقبال کو اطلاع ملی تو اس نے دس جنوری کو اقبال کے خلاف سید والا میں ایف آئی آر کٹوا دی‘ اقبال گرفتار ہوگیا۔

فرزانہ بھاگ کر پاک پتن چلی گئی اور اس نے دارالامان میں پناہ لے لی‘ اقبال نے ضمانت کی درخواست دی‘ اس کی ضمانت ہو گئی‘ یہ پاک پتن گیا‘ اس نے فرزانہ کو دارالامان سے لیا اور یہ (شاید) لاہور آ گئے‘ دونوں نے لاہور ہائی کورٹ میں سید والا کی ایف آئی آر کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کر دی‘ یہ لوگ اس پٹیشن کے سلسلے میں 27 مئی کو لاہور ہائی کورٹ آئے‘ فرزانہ کے خاندان کو ان کی آمد کی اطلاع ہو گئی‘ یہ لوگ بھی ہائی کورٹ پہنچ گئے‘ لاہور آنے والوں میں اس کا والد اعظم‘ بھائی زاہد‘ بھائی غلام علی‘ کزن جہان خان اور پہلے خاوند مظہر اقبال سمیت پندرہ بیس قریبی رشتے دار شامل تھے‘ فرزانہ اور اقبال دونوں مسجد گیٹ کے قریب پہنچے تو رشتے داروں نے انھیں گھیر لیا‘ والد نے فرزانہ کے سر پر اینٹ ماری‘ دونوں بھائی اور پہلا خاوند والد کے ساتھ شامل ہوگئے اور چاروں نے اسے چند سیکنڈ میں قتل کر دیا۔

یہ انتہائی بہیمانہ واقعہ ہے‘ آپ اگر ذرا سے بھی حساس ہیں‘ آپ اگر معمولی سی بھی سمجھ بوجھ کے مالک ہیں اور آپ اگر تھوڑے سے بھی تعلیم یافتہ ہیں تو آپ خود کو اس واقعے پر دکھی ہونے سے باز نہیں رکھ سکتے‘ میں بھی چھ دن سے دکھی ہوں‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی دکھی ہیں‘ انھوں نے اس واقعے کا نوٹس بھی لے لیا اور یورپی یونین‘ امریکا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور برطانیہ کے ادارے بھی دکھی ہیں‘ انھوں نے بھی آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے‘ ہم اس واقعے کی جس قدر مذمت کریں‘ یہ کم ہو گی لیکن سوال یہ ہے کیا صرف مذمت‘ آسمان سر پر اٹھانا اور حکومت کا نوٹس لے لینا کافی ہے؟ کیا اس سے ایسے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے؟

پاکستان دنیا میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل میں پہلے نمبرپر آتا ہے‘ ملک میں ہر سال ہزاروں عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں‘ ان میں سے صرف دس فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیںاور ان میں بھی کیونکہ مدعی گھر والے ہوتے ہیں چنانچہ مقدمے کی پیروی جلد بند ہو جاتی ہے یا پھر ملزم کو معاف کر دیا جاتا ہے اور یوں ایک جیتی جاگتی عورت عبرت کا قصہ بن کر ماضی میں گم ہو جاتی ہے‘ ہم جب تک اس نظام کو نہیں بدلیں گے‘ ہم ’’غیرت‘‘ کے خلاف کڑی قانون سازی نہیں کریں گے‘ یہ واقعات اسی طرح ہوتے رہیں گے‘ حکومتیں اسی طرح نوٹس لیتی رہیں گی‘ پولیس اہلکار اسی طرح معطل ہوتے رہیں گے۔

میڈیا اسی طرح مصالحہ دار خبریں دیتا رہے گا اور پھر ایک اندوہناک واقعہ اسی طرح دوسرے اندوہناک واقعے کی جگہ لیتا رہے گا‘ فرزانہ کی جگہ شبنم آ جائے گی‘ شبنم کی جگہ فریحہ ماری جائے گی اور فریحہ کی خبر کو مریم کے خون کی لالی مٹا دے گی‘ ہم یہ واقعات‘ یہ خبریں اور یہ لاشیں کب تک چنتے رہیں گے لہٰذا میری وزیراعظم سے درخواست ہے‘ یہ ایک ہی بار یہ معاملہ نبٹا دیں‘ یہ اس سوراخ کو بند کر دیں جہاں سے فرزانہ جیسے واقعات نکلتے ہیں‘ میں حکومت کو چند تجاویز دینا چاہتا ہوں‘ میرا خیال ہے‘ حکومت اگر مہربانی فرمائے تو ان تجاویز کے ذریعے ہم یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں‘ وزیراعظم سب سے پہلے خواتین کے ایشوز اپنی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے کر دیں۔

یہ اس وقت سیاست کی ٹریننگ لے رہی ہیں‘ یہ ان ایشوز میں آئیں گی تو یہ زیادہ تیزی سے اس معاشرے کو سمجھ سکیں گی‘ ملک میں خواتین کی تعداد 52 فیصد ہے‘ یہ 52 فیصد خواتین 52 فیصد مینڈیٹ بھی ہیں‘ مریم نواز ان کے مسائل حل کر کے 52 فیصد مینڈیٹ جیت لیں گی اور یہ میاں صاحب کی سیاست کے لیے بہت اچھا ہو گا‘ دنیا بھر میں قتل ریاست کے خلاف جرم سمجھا جاتا ہے‘ قتل کے مدعی لواحقین نہیں ہوتے ریاست ہوتی ہے چنانچہ ملک میں قتل کو ریاستی جرم قرار دیا جائے‘ اگر اس معاملے میں کوئی مذہبی رکاوٹ ہو تو حکومت علماء کرام سے مدد لے سکتی ہے‘ حکومت پہلے مرحلے میں خواتین کے قتل کو ریاستی جرم قرار دے دے اور پولیس کو اس کی تفتیش تین ماہ کے اندر مکمل کرنے اور عدالتوں کو چھ ماہ میں کیس نبٹانے کی ہدایت کرے۔

پولیس اور عدلیہ کے جو اہلکار اس قانون کی خلاف ورزی کریں‘ ان کی ترقیاں روک دی جائیں‘سول جج سیشن نہ بن سکے اور سیشن جج ہائی کورٹ کا جج نہ بن سکے اور پولیس کا سب انسپکٹر‘ انسپکٹر نہ بن سکے‘ ملک میں تمام فیملی مقدمات‘ خلع‘ خواتین کی وراثت کا کیس اور نان نفقے کے مقدمات ایک سال کے اندر اندر پایہ تکمیل تک پہنچائے جائیں‘ خواتین سے متعلق تمام مقدمات ’’آن لائین‘‘ کر دیے جائیں اور مریم نواز شریف اور میاں نواز شریف روزانہ ان کیسز کی پیش رفت مانیٹر کریں‘ یہ مقدمات جوں ہی ایک سال کی حد سے اوپر جانے لگیں حکومت مداخلت کرے اور ان مقدمات کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کرے‘ آپ کو آج بھی عدالتوں میں طلاق اور خلع کے بیس بیس سال پرانے مقدمے ملتے ہیں‘ آپ خود سوچئے کیا یہ ظلم نہیں‘حکومت ایک آرڈر سے ان تمام مقدموں کا فیصلہ کر دے۔

حکومت خواتین کے لیے لیگل سروس شروع کرے‘ حکومت خواتین وکیل ہائر کرے‘ یہ وکیل مظلوم عورتوں کے مفت مقدمے لڑیں یا ان کی فیس حکومت ادا کرے‘ فیسوں کا بوجھ عورتوں پر نہیں پڑنا چاہیے‘ ملک بھر میں نکاح کا سسٹم آن لائین کر دیا جائے‘ ملک بھر کے نکاح آن لائین رجسٹر ہوں اور جو نکاح خوان اس قانون کی خلاف ورزی کرے اسے کڑی سزا دی جائے‘ بچیوں کے والدین بھی فیس دے کر اپنے ہونے والے داماد کا ریکارڈ چیک کر سکیں‘ اس سسٹم سے نکاح پر نکاح‘ جعل سازی اور رشتوں کے معاملے میں مکرو فریب کا تدارک ہو جائے گا‘ یہ کام نادرا چند دنوں میں کر سکتا ہے‘ فرزانہ جیسی خواتین کے لیے ہیلپ لائین شروع کی جائے‘ یہ خواتین کسی بھی وقت ’’ٹول فری نمبر‘‘ پر فون کریں اور سیکیورٹی حاصل کرلیں‘ یورپی یونین اور بین الاقوامی تنظیمیں اس معاملے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے ’’غیرت‘‘ صرف دیہاتی‘ غریب‘ متوسط اور لوئر مڈل کلاس کا ایشو ہے‘ ہم جب تک دیہاتی زندگی کو شہری اور لوئر مڈل کلاس کو مڈل کلاس نہیں بنائیں گے‘ یہ معاملات جوں کے توں رہیں گے چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے‘ یہ فوری طور پر ملک کی تمام بچیوں کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا لازم قرار دے دیں‘ یہ ہنر جدید ہونا چاہیے اور یہ بچیاں اس کی مدد سے اپنے خاندان کو پال سکیں‘ حکومت فوری طور پر تمام شہروں اور قصبوں میں زنانہ بازار بنائے‘ اس بازار کی تمام دکاندار بھی خواتین ہوں اور خریدار بھی خواتین۔ یہ بازار عورتوں کو مردوں کی معاشی غلامی سے آزاد کریں گے اور یوں حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور آخری بات ملک میں جرائم کی لامحدود کوریج پر پابندی لگا دی جائے‘ میڈیا کے پاس جب تک ناقابل تردید ثبوت نہ ہوں‘ یہ جرائم بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم کی خبریں نہ دے سکے۔

وزیراعظم اگر فرزانہ کے قتل کو ٹیسٹ کیس بنا کر یہ فیصلے کر لیتے ہیں تو ملک کی زیادہ تر فرزانائیں بچ جائیں گی بصورت دیگر ایک کے بعد دوسری فرزانہ آئے گی اور ہر فرزانہ ملکی اور غیر ملکی ضمیر کو جھنجوڑدے گی چنانچہ وزیراعظم پولیس کے خلاف نوٹس لینے کے بجائے ایسے واقعات کی والدہ کی نس بندی کریں‘ یہ ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔