پانی کا عالمی بحران…پاکستان کی صورتحال

محمود عالم خالد  منگل 3 جون 2014

کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے بھیانک اور سنگین خطرات کا براہ راست تعلق کرہ ارض پر موجود زندگی کے ہر شعبے سے ہے جن سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی جہاں زندگی کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے ، وہیں زندگی کو رواں دواں رکھنے والی سب سے اہم ترین شے یعنی پانی اور اس کے ذخائر پر بھی شدید اثرات مرتب کررہی ہے۔

دنیا کے تمام خطوں میں آبی وسائل اور تازہ پانی کے نظام پر اس کے منفی اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں صاف پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہوتی جارہی ہے اور یہ امر عالمی سطح پر انتہائی تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے کیونکہ آبی قلت دنیاکی اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ متعدد ملکوں میں علاقائی تنازعات کا باعث بھی بن رہی ہے۔ 50 ملکوں سے تعلق رکھنے والے 200 سائنسدانوں نے آج سے پندرہ سال پہلے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے لیے مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ میں دنیا کے 2 بڑے مسائل میں سے ایک پانی کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پانی کی کمیابی تیسری عالمی جنگ کا موجب بن سکتی ہے۔

عالمی تنظیم برائے خوراک وزراعت (FAO) کے ایک اندازے کے مطابق 2025 تک ایک ارب 80کروڑ لوگ ان ملکوں یا ان علاقوں میں زندگی گزار رہے ہونگے جہاں پانی مکمل طور پر نایاب ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق ایک عشرے کے دوران دنیا بھر کے شہروں میں بسنے والے ایسے انسانوں کی تعداد 114 ملین بڑھ چکی ہے جن کے گھروں میں یا قریب میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کرہ ارض پر موجود 7 ارب انسانوں کو روزانہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد 2050 تک 9ارب ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ ہر انسان کو روزانہ 2 سے 4 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موسم کے ساتھ توانائی‘ زراعت اور پانی کا تعلق انتہائی اہم ہے جیسے جیسے اس تعلق کے درمیان کمی آتی جاتی ہے اس کی مناسبت سے توانائی‘زراعت اور پانی کا تحفظ خطرے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ درجہ حرارت میں ہونیوالے اضافے اور اس کے نتیجے میں آب و ہوا اور موسموں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے دنیا کو بھیانک سیلابوں‘ خشک سالیوں‘ سطح سمندر میں اضافے اور صاف پانی کی شدید کمی سے دوچارکرنا شروع کردیا ہے جن کے مظاہر عالمی افق پر خصوصاً غریب اور پسماندہ ملکوں میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سرفہرست ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔

دنیا بھر کی حکومتیں اس تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والے شعبوں میں جنگی بنیادوں پر حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہیں اور پانی کی بچت کے حوالے سے مختلف آگہی مہم چلارہی ہیں لیکن ہمارے ملک میں پانی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران پر ہر سمت بے حسی اور خاموشی طاری ہے۔ پاکستان 1992 سے دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جو ’’آبی دبائو‘‘ کا حامل ملک کہلاتے ہیں۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عام شہری کو تو چھوڑ دیں لیکن انتہائی پڑھے لکھے افراد بھی اس حقیقت سے ناواقف ہیں اور آج صورتحال اس جگہ پہنچ چکی ہے کہ ہمارا شمار بہت جلد ان ملکوں میں ہونے والا ہے جو ’’آبی قلت‘‘ کے شکار ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ مالیاتی رپورٹ 2012ء میں اس امر کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی شدت اختیار کرچکی ہے جس کے لیے نئے آبی ذخائر کی تعمیر بہت ضروری ہے ورنہ مستقبل میں آبی صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم سب کچھ تباہ ہونے کے بعد سوچنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی 18 فیصد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے تو دوسری جانب ملک کی غالب اکثریت کو جو پانی مل رہا ہے وہ بھی WHO کے مقرر کردہ معیارات کے مطابق نہیں ہے۔ آج ملک میں پانی کی فی کس دستیابی 1000 کیوبک میٹر ہے۔جو 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔ پانی کے حوالے سے پاکستان لیبیا‘ الجزائر اور ایتھوپیا جیسے افریقی ممالک سے بھی پیچھے ہے۔

پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ آبی دبائو کے شکار ملکوں میں سے ایک ہے جب کہ ایسے ہی موسموں کے حامل ملکوں کے لیے تجویز کردہ پانی کا ذخیرہ 1000 دن کا ہے جب کہ پاکستان میں اس ذخیرہ کے گنجائش صرف 30 دن کی ہے۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (USIP) کی ایک تحقیق‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں آبی دستیابی اور معیار میں کمی‘ غلط اور زیادہ استعمال کی وجہ سے آبی دستیابی اور آبی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ مجموعی سطح پر پاکستان ماحولیاتی عدم تحفظ کا سامنا کررہا ہے۔‘‘ پانی کی قلت ملک کی معیشت کے لیے مستقبل میں سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے اور آبی عدم تحفظ ایک خراب صورتحال کو بد ترین درجے تک پہنچاسکتا ہے۔

اس طرح پاک امریکا اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے سلسلے میں پانی سے متعلق امور پر بات چیت کے لیے قائم ورکنگ گروپ کی سربراہ ماریہ اوٹیرو نے پانی کی دستیابی میں ہونے والی کمی کو انتہائی سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے سے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر نمٹنا ہوگا کیونکہ یہ پاکستان کو زرعی‘ معاشی اور یہاں تک کہ سیاسی بحران میں مبتلا کرسکتاہے۔ ہم اپنے صاف پانیوں کے قیمتی ذخائر کو گٹر کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اپنا تمام گھریلو ‘ زرعی اور صنعتی کوڑا اور فضلہ ان میں بلا روک ٹوک بہادیتے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے قانون کے مطابق تمام صنعتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے زہریلے صنعتی پانی کو اخراج سے قبل صاف کریں لیکن صنعتی یونٹوں کی اکثریت اپنے زہریلے فضلے کو جس طرح صاف پانی میں شامل کررہی ہے۔

اس کی بد ترین مثالیں پانی کے سب سے بڑے ذخیرے کینجھر جھیل اور منچھر جھیلیں ہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک اپنے پانیوں کو محفوظ کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں مثال کے طور پر چین 95 بڑے ڈیم تعمیر کررہا ہے جو 200فٹ یا اس سے زیادہ بلندی پر ہیں‘ بھارت 10بڑے ڈیموں سمیت سیکڑوںچھوٹے ذخائر بنارہا ہے جب کہ ایران 48‘ ترکی 51 اور جاپان 40 بڑے ڈیموں کی تعمیر میں مصروف ہے۔ ہمارے ملک میں تعمیر ہونیوالے بڑے یا چھوٹے ذخیرہ آب کے ساتھ کوئی نہ کوئی تنازع ‘ کوئی کرپشن کا معاملہ یا کوئی سیاسی تنازع جڑ جاتا ہے جس کی سزا ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔

ہمارے ماہرین پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لیے آج تک کوئی متفقہ لائحہ عمل کسی بھی حکومت کے سامنے نہیں رکھ سکے ہیں اور پانی جیسی انسانی ضرورت کوسیاست زدہ کردیا ہے۔ عوامی سطح پر پانی کے بے پناہ ضیاع اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہماری کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت آواز نہیں اٹھاتی‘ نہ ہی سول سوسائٹی اس مسئلے کو قابل توجہ گردانتی ہے رہ گئیں وہ تنظیمیں اور فورم جو اس حوالے سے بڑی بڑی امداد وصول کرتی ہیں ان کے شعور و آگہی کی سرگرمیوں کی جگہ ملک کے پنج ستارہ ہوٹل ہوتے ہیں جہاں وہ بوتلوں میں محفوظ صاف و شفاف پانی کو استعمال کرتے ہوئے پانی کے مسائل زیر بحث لاتے ہیں۔

ہمیں ملک کے عوام کو پانی کے بارے میں مکمل حقائق سے آگاہ کرنا ہوگا ان کو بتانا ہوگا کہ پانی کے حوالے سے ہماری صورتحال بد ترین ہے۔ حکومتی سرپرستی میں ملک کی چاروں اکائیوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر لانا ہوگا اور پانی کے حوالے سے ایک متفقہ عوامی پالیسی پر عملدرآمد بھی کرانا ہوگا۔ ذرایع ابلاغ کے ذریعے پانی کی بچت کی بھرپور مہم چلانی ہوگی۔وقت گزرتا جارہا ہے ایسا نہ ہو کہ پانی سروں پر سے گزرنے کے لیے نہ رہے اور پیروں کے نیچے بھی نہ بچے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔