حسن مہدی سید، ایک گمنام شاعر

ڈاکٹر ناصر مستحسن  منگل 3 جون 2014

انسان اپنے جذبات وخیالات یا احساسات مصوری یا شاعری کے ذریعے احسن طریقے سے دنیا کے سامنے لاسکتا ہے، بس ان میں وہ جولانی طبع ہونی چاہیے جو ان کے کسی بھی فن کو جو من جملہ فن لطیفہ ہی کے زمرے میں آتا ہو بدرجہ اتم موجود ہونی چاہیے۔

پاکستان کے ہر صوبے میں اردو کے قابل قدر شعراء پائے جاتے ہیں، ان ہی میں سے ایک نام حسن مہدی سید کا بھی ہے جو صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا پروقار مظاہرہ کرتے آئے ہیں مگر کیا کہیے کہ اس مظاہرے میں نہ نمائش ہے نہ خودفریبی بلکہ بقول شاعر ’’چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘‘ کے مصداق اپنے فکروفن کے آتش کدے میں خاموشی سے جھلستے ہوئے اپنی تخلیقات کو وجود میں لاتے اور لکھ کر بھول جاتے ہیں لیکن یہ بڑے پتے کی بات ہے کہ وہ شاعری کو دوست کی طرح برتنے والے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں حسن مہدی سید کے بارے میں تفصیلاً کچھ کہوں ان کے بارے میں کچھ باتیں ہوجائیں۔

حسن مہدی سید نے 1963 میں کراچی کے ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی، ان کے والد سید اشفاق حسین کی ناگہانی وفات سے خاندان کا سارا بوجھ آپ کے بڑے بھائی سید آفاق ناصر پر آگیا جنھوں نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنے والد کے گھر کی باگ ڈور سنبھالی اور بہت احسن طریقے سے سنبھالی، حسن مہدی سید جو سید صاحب کے نام سے مشہور ہیں اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے شعرو شاعری کے میدان میں طبع آزمائی کرتے آئے ہیں۔

غالباً 1980 کے بعد ہی سے مشق سخن جاری ہے، اور یہ رقم طراز بخوبی ان سے آگاہ ہے، حسن مہدی سید کا اصل میدان شاعری ہی ہے گو کہ وہ آسمان شاعری کا کوئی واضح چمکدار ستارہ نہیں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے فن کو دوربین لگا کر دیکھا جائے ان کی کئی نظمیں اور متعدد غزلیں کئی ادبی رسائل میں چھپ چکی ہیں اور قارئین سے خوب داد بھی سمیٹ چکی ہیں لیکن شاعری ان کے لیے کوئی پیٹ بھرنے کا وسیلہ نہیں ہے۔ وہ محکمہ انکم ٹیکس سے پچھلے 30 سالوں سے وابستہ ہیں۔ اس علمی و ادبی قحط الرجال میں ایسے لوگوں کی صحبت کچھ الگ ہی قسم کی توانائی فراہم کرتی ہے، سید صاحب کی شاعری رجائیت کے خلاف ہے شاید اسی لیے ان کی شاعری پڑھ کر یہ احساس قوی تر ہوتا چلا جاتا ہے کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔‘‘

سید صاحب بلا کے ذہین، بذلہ سنج اور نفیس الطبع انسان واقع ہوئے ہیں، شاعری میں وہ اساتذہ کے فن کو سراہتے ہیں۔ اس شہر بے اماں میں 1997 میں ساکنان شہر قائد کے مشاعرے میں بھی شریک ہوئے ہیں لیکن جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ انھوں نے شاعری کو کسب معاش نہیں بنایا اور نا ہی وہ اس کو پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’شاعری تو آپ کے احساسات کی ترجمان ہوا کرتی ہے آپ کس طرح اپنی محرومیوں، اپنے احساسات کو بیچ سکتے ہیں۔

شاعر بذات خود حساس طبع واقع ہوا ہے یعنی اگر میں یہ کہوں کہ شاعر ایک ایسا سانچہ ہے جس میں جو چیز یا خیال اس کی ظاہری حالت کے مطابق ڈالی جائے وہ ویسا ہی ہوتا ہے جیساکہ خود وہ شاعر ہم مختلف خیال اشعار کو پڑھ کر یا مفکر یہ جان لیتے ہیں کہ یہ خیال فلاں شاعر یا فلاں شاعرہ کا ہے یعنی وہ خیال یا وہ احساس جو شعر کے توسط سے ہم تک پہنچا ہے وہی اس شاعر کا طرہ امتیاز ہے یہ جداگانہ مسئلہ ہے بالفرض

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

کو سنتے ہی غالب کا نام ذہن میں آتا ہے اور ’’اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی‘‘ کو سن کر پروین شاکر کا نام آتا ہے حسن مہدی سید کے کلام میں سے کچھ حاضر قارئین ہے:

ہوں میں حیران آج تک ہند کی تقسیم پر

ہم نے پایا تھا وطن آدھا ادھر آدھا ادھر

تھی غزل استاد کی چیلے نے محفل لوٹ لی

اعتبار فکر و فن آدھا ادھر آدھا ادھر

حسن مہدی سید کی شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو تقسیم ہندو پاک کے غم و انبوہ بانہیں پھیلائے ملتے ہیں ، ان کی شاعری میں وطن کی تقسیم اور ہجرتوں کے دکھ اور کئی قومی المیے ملتے ہیں تو دوسری طرف کچھ پانے کی امید بھی نظر آتی ہے۔ یعنی ایک طرف تو وہ سامعین کو رلاتے ہیں تو دوسری طرف ان کو ہنساتے بھی ہیں، شاعری دراصل ریاضت مانگتی ہے اور ریاضت بغیر مطالعے کے نہیں آسکتی شاعری کے لیے جہاں خیال کی ایک اہمیت ہے تو دوسری طرف الفاظ کے ذخیرے بھی مہیا ہونے چاہئیں، ہم نے دیکھا ہے کہ جوش کے یہاں بے شمار الفاظ استعمال ہوئے اور انھوں نے اردو کے خزانے میں اضافہ کیا تو دوسری طرف منیر کم سے کم الفاظ میں پوری بات کرتے ہیں:

ہم نے پایا تھا وطن آدھا ادھر آدھا ادھر

یہ ایک مصرعہ گویا تاریخ تقسیم وطن عزیز ہے جب ہم سے ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) الگ ہوا ۔ وہ کربناک ساعت اس مصرعے میں موجود ہے یہ صرف سید صاحب کا ہی احساس نہیں ہے بلکہ پوری قوم کے دلوں کی ترجمانی ہے لیکن جب اپنے احساس و خیال کو سید صاحب نے لفظوں کے پیکر میں ڈھالا تو یہ ان ہی کا احساس ہے شاعری میں روحانیت کے ساتھ ساتھ مادیت (Materialism) بھی در آئی ہے۔ یعنی یہاں ایک توازن قائم ہونا چاہیے میرے خیال میں سید صاحب اسی توازن کے متلاشی ہیں۔

آج سے 20-15 سال پہلے ان کے لکھے ہوئے دو گیت منظر عام پر آئے اور اس کے بعد یہ سلسلہ اب تک موقوف ہے اس کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں ’’بھائی بات دراصل یہ ہے کہ نہ ہمارے پاس کوئی سفارش ہے اور نہ ہی مایا دیوی یعنی سرمایہ کہ ہم ان دونوں میں سے کسی ایک کو بروئے کار لاتے ہوئے اس گروہ میں شامل ہوجائیں جو پاکستان کے 19-18 کروڑ عوام پر قابض ہے،ہم عوام ہی میں رہنا چاہتے ہیں، اور اسی میں خوش ہیں‘‘ سید صاحب آج کل کی سیاست سے سخت نالاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’’جب آپ رشوت دے کر اپنے کام نکلوا سکتے ہیں سیاہ کو سفید کرسکتے ہیں تو کسی سیاسی جماعت سے کیا امید رکھنی‘‘ میری دعا ہے کہ حسن مہدی سید اپنی شاعری کو (ممکنہ آنے والے) کسی مجموعے یا دیوان کی صورت میں لے کر آئیں تاکہ ہمیں ایک منفرد لب و لہجے اور ایک صاحب اسلوب شاعر کو سننے، پڑھنے کا موقع ملے۔ ہم سب آپ کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔  حسن مہدی سید صاحب کی شاعری کے بارے میں دور حاضر کے مشہور و معروف ترقی پسند شاعر جناب حسن عابد مرحوم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مجھے حسن مہدی سید کی شاعری اس لیے پسند ہے کہ انھوں نے شاعری کو دوست کی طرح برتا ہے۔ حسن مہدی سید کا یہ شعر دیکھئے ۔

ہم نے چاہا تھا حسنؔ اسے چاہنے والوں کی طرح

وہ ملا بھی ہمیں تو ستم ڈھانے والوں کی طرح

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔