معاشی ترقی کے اقدامات کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں, اقتصادی جائزہ

کامران عزیز  منگل 3 جون 2014
معمولی بہتری کی وجہ مستعار وسائل ہیں، حکومت کوقبل ازوقت دعوے نہیں کرنے چاہئیں۔ فوٹو: آن لائن

معمولی بہتری کی وجہ مستعار وسائل ہیں، حکومت کوقبل ازوقت دعوے نہیں کرنے چاہئیں۔ فوٹو: آن لائن

کراچی: وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے مالی سال2013-14 کا اقتصادی جائزہ پیش کردیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیامیں پاکستان کی کارکردگی نسبتاً سب سے بہتررہی۔

اس دوران ملک میںمعاشی نموکی شرح بڑھ کر 4.14فیصد ہوگئی جو 2007-08 کے بعد ایک ریکارڈ ہے تاہم یہ حکومت کے اپنے مقرر کردہ ہدف 4.4فیصد سے کم ہے لیکن یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ بھارت میں میں 31مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال میں معاشی نمو کی شرح 4.7 فیصد رہی تھی، اس لحاظ سے حکومت کا خطے میں سب سے بہتر معاشی کارکردگی کا دعویٰ بے وزن لگتا ہے۔ حکومت کومیڈیا کی آزادی اور عوام کو معلومات کے حصول کے لیے دستیاب کثیرآپشنز کی موجودگی میں ایسے دعوے نہیں کرنے چاہئیں جوسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے خود اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں۔

بظاہر لگتا ہے کہ حکومت نے معاشی محاذ پر جاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے تاہم اس کی بنیادیں کھوکھلی اور مستعار لیے گئے وسائل پر کھڑی ہیں۔ اب تک کا حاصل ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں بہتری (اگرچہ روپے کی قدرمیںتنزلی کاعمل اسی حکومت کے آغاز پرتیز ہواتھا) بڑی وچھوٹی صنعتوں کی نمو میں بہتری، حصص مارکیٹ میں کے ایس ای 100 انڈیکس کی بلندیاں وغیرہ بتائی جاتی ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدرمیں بہتری صرف اس زرمبادلہ کی وجہ سے آئی جوادھار لیے گئے ہیں اورجن کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا اور یہ ہمیں سود سمیت واپس کرنا ہوگا۔

اگریہی زرمبادلہ ہمیں ملکی معیشت کی بدولت حاصل ہوتا تو اس کے دوررس مثبت اثرات ہوتے تاہم یہ ملکی پیداوار نہیں بلکہ اس سے ہماری ذمے داری بڑھ گئی ہے۔ جیسے جیسے ادائیگیاں کرنا پڑیں گی دبائو پھر بڑھ جائے گا اور کرنسی نیچے کی طرف آئے گی۔ حکومت کو معاشی بہتری کا دعویٰ قبل ازوقت نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ عوام کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے کہ ہم اس وقت معیشت کو استحکام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے بنیادی چیز وسائل کا حصول اور ملکی معیشت پر ملکی وغیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی ہے۔ حکومت کو وسائل جمع کرنے میں کامیابی ہوئی جو اگرچہ مستعار لیے گئے ہیں تاہم یہ ایک کامیابی ہے۔ اب ان وسائل کو استعمال کرکے معیشت کو فروغ دینا چاہیے۔

دوسری طرف سرمایہ کاروں کی اعتماد کی بحالی کے لیے اقدام کرنے چاہئیں جس میں حکومت فی الوقت کامیاب نہیں ہوپائی۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں ہو رہی۔ کراچی جو پاکستان کا معاشی مرکز ہے سخت خراب حالات سے دوچار ہے۔ آئے دن قتل وغارت گری ہو رہی ہے۔ ملک میں امن وامان کے حوالے سے فضا کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری طرف توانائی کا بحران ہے جو سنبھالتے نہیں سنبھل رہا۔ لاکھ جتن کے باوجود گھنٹوں لوڈشیڈنگ، سی این جی اسٹیشنز بند وغیرہ وغیرہ۔ ایک طرف پاور جنریشن پلانٹس کا افتتاح اور دوسری طرف اندھیرے، گردشی قرضے ادا کیے اوروہ پھر ابھر گئے اور اب لائن لاسزاور چوری کے نقصانات بل ادا کرنے والوں پر منتقل کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ چند ہزار روپے کمانے والوں سے کہا جاتا ہے کہ جناب 25,20 روپے یونٹ کی بجلی خریدیں۔

یہ کیسے ممکن ہے۔ بجلی سستی ہوئے بغیر بحران حل نہیں ہوگا۔ حکومت کو سوچ سمجھ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ گیس، بجلی بنیادی ضرورت ہے، روٹی کی طرح۔ یہ تو ہرصورت سب کو فراہم کی جانی چاہیے ورنہ ترقی کا معیار بدلنا بہتر ہوگا۔ ایک اور شعبہ ٹیکسیشن کا ہے جہاں اتنے نقص ہیں کہ شاید کوئی سمجھ سکے۔ ایک شخص انکم ٹیکس دیتا ہے۔ وہی مختلف اشیا پر سیلزٹیکس بھی ادا کررہا ہے۔ ایک طرف سیلزٹیکس کاٹ کر دوسری طرف سے ریفنڈ کی بات کی جاتی ہے پھر ریفنڈ روک کر ٹیکس ہدف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایس آر اوز کے ذریعے نئی ترامیم کردی جاتی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ تمام شعبوں سے ٹیکس لیاجائے۔ چھوٹ ورعایت ملکی مفاد میں ہونی چاہیے۔

ٹیکس کی شرح بڑھانے یا پہلے سے قابل ٹیکس شعبوں پر مزید بوجھ بڑھانے سے ٹیکس نیٹ بڑھے گا نہ حکومتی ریونیو۔ جیساکہ ابھی ہورہا ہے۔ حکومت کی ٹیکس وصولیوں میںہونے والا اضافہ ٹیکس شرح میں اضافے کا نتیجہ ہے ورنہ ٹیکس نیٹ میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا۔ ٹیکسوں کے حوالے سے سخت اقدام اسمگلنگ، غیررسمی معیشت، بلیک اکنامی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اس حوالے سے پالیسی بنائی جائے توحقیقی معنوں میں حکومتی وسائل میں اضافہ ہو تاکہ حکومت زیادہ آزادی کے ساتھ معاشی ترقی کے اقدامات کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔