لفظ، گورکن اور ہم

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 4 جون 2014

اگر کوئی صاحب آپ کو اس بات کے لیے ضد بحث کرتے نظر آئیں کہ پاکستانی قوم ایک مہذب و خوش و خرم قوم ہے تو آپ ان صاحب کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کے بارے میں شک و شبہ کرنے میں حق بجانب ہوںگے۔ پاکستان کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی وحشی ترین قوم کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے ۔ ہم نہ صرف جسمانی بلکہ بدترین ذہنی بیماریوں میں اپنے مبتلا ہونے کے ثبوت روز ملک میں کہیں نہ کہیں دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم دنیا بھر میں جسمانی و ذہنی بیماریوں کے جراثیم پھیلانے میں بھی دن رات مصروف ہیں پوری دنیا ہم سے خو فزدہ ہے دنیا بھر میں پولیو ہمارے ملک سے درآمد ہو رہا ہے۔

دہشت گردی میں ہم ملوث پائے جاتے ہیں کر پشن ، ملاوٹ، بے ایمانی ، لالچ، منا فقت ، کمیشن ، انتہاپسندی دنیا بھر میں پھیلانے کی ہم ان تھک جد وجہد کر رہے ہیں۔ حاملہ معصوم و بے گناہ عورتوں کو اینٹیں مار مار کر قتل کرنے میں ہم مصروف ہیں مزاروں کو بموں سے مسمار ہم کر رہے ہیں، اسکولوں کو دھماکوں سے ہم اڑا رہے ہیں۔ دنیا بھر کی تمام بے ضابطگیوں میں ہم ملو ث ہیں دنیا بھر کی تمام ذہنی، جنسی و جسمانی کرپشن میں ہم نمبر ون پرآ گئے ہیں ۔

پوری دنیا سے نفرت و انتقام کی سیاست نا پید ہو چکی ہے جب کہ ہمارے ملک میں اسے روز بروز فروغ ملتا جا رہا ہے محاذ آرائی، کشیدگی کی سیاست میں تو ہم سے آگے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے ہم خود ہی مدعی ہیں خود ہی عدالت ہیں خود ہی منصف ہیں خود ہی جلاد ہیں اور خود ہی تماشائی ہیں ہم سب نے اپنے اندر ایک جیل بنا رکھی ہے اور ساری عمر اس جیل سے باہر آتے ہی نہیں ہیں۔ ہم سب کا اپنا اپنا قید خانہ ہے ہم اپنے قیدی خود ہیں اور ہم اپنے آپ کے پہرہ دار بھی خود ہی ہیں کوئی لاکھ کوشش کر کے دیکھ لے ہمیں اپنے آپ سے کوئی رہائی دلاہی نہیں سکتا ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیاری اپنی اسیر ی ہے۔ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے!

گیلپ انٹر نیشنل نے پچھلے دنوں دنیا بھر میں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے جس میں پیرا گوئے کا پہلا جب کہ پاکستان کا 117 نمبرہے۔ گیلپ انٹرنیشنل کی جاری کردہ فہرست میں حیران کن طور پر پہلی 10 خو ش رہنے والی اقوام میں سے 9 کاتعلق لا طینی امریکا سے ہے۔ خوش رہنے والے لوگوں کی اس فہرست میں گزشتہ دو سال سے براجمان پیراگوئے اس سال بھی پہلے نمبر پر ہے جب کہ پانامہ دوسرے اورگوئٹے مالا کے باسی تیسرے نمبر پر ہیں۔ متحدہ عرب امارت کا 15 واں کینیڈاکا 16 واں آسٹریلیا کا18 واں دنیا بھر میں سب سے زیادہ خوش سمجھے جانے والے امریکیوں کا 24 واں اور چین کا 31 واں نمبر ہے۔

بھارت 78 واں جب کہ خوش رہنے والی اقوام میں افغانی 92، نمبر پر ہیں پاکستان خوش رہنے والے ممالک میں افغانستان سے بھی پیچھے چلا گیاہے جی اب آپ کیا کہیں گے ابراہام لنکن نے کہا تھا ’’آدمی اتنا ہی خوش ہوتاہے جتنا کہ وہ ہونا چاہتا ہے‘‘ دراصل ہمیں جو سماجی خیالات اور حالات ورثے میں ملتے ہیں بغیر ہم سوچے سمجھے بغیر قبول کر لیتے ہیں اس کی ایک تویہ وجہ ہے کہ انسان غور و فکر سے جی چراتا ہے اور دوسر ی یہ کہ ان کی جانچ پر کھ کا عمل خاصا اذیتناک ہوتا ہے لہذا غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ہمارے ذہنوں میں ان گنت جالے بن جاتے ہیں اور ہم ان جالوں سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ ہم انھیں صاف ہی نہیں کرنا چاہتے۔

یہی ہمار ا ہمیشہ ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم لفظوں کو ان کے اصل معنی میں کبھی بھی سمجھ ہی نہیں پائے ہیں۔ لفظ کو سمجھنے کے لیے لفظ میں داخل ہونا پڑتا ہے تب ہی جا کر اس لفظ کے معنی کا احساس آپ کو اندر سے جگاتا ہے جس طرح کہ گورکن مردے دفن کر کر کے زندگی اور موت کے معنوں سے اتنا بے معنی ہو جاتا ہے کہ اس کے نزدیک لفظ زندگی اور مو ت صرف پتھر بن کے رہ جاتے ہیں کچھ لفظ چیختے ہیں کچھ لفظ چلاتے ہیں کچھ لفظ روتے ہیں کچھ لفظ ہنستے ہیں کچھ لفظ مسکراتے ہیں بس آپ کے اندر انھیں سننے کی سمجھ اور صلاحیت ہونی چاہیے جس طرح ایک منظر آتا ہے اور گذر جاتاہے اسی طرح لفظ آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔

جب آپ میں لفظ کے اصل معنی کو سمجھنے کا احساس پیداہو جاتا ہے تو پھر لفظ آپ کے اندر ٹہر جاتے ہیں اور جو لفظ گزر جاتے ہیں وہ بے معنیٰ ہو جاتے ہیں ہم سب گورکن بن چکے ہیں ظلم، ناانصافی، کرپشن، ملاوٹ، جہالت، غربت، افلاس، فاقے، ایمانداری، کردار، خوشحالی،، موت، خوشیاں یہ سب لفظ ہمارے لیے بے معنی ہیں۔ ان سب الفاظ کی اہمیت اور حیثیت ہمارے نزدیک فقط پتھروں سے زیادہ کچھ نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا لگتاہے کہ ہم سب بھی پتھر بن چکے ہیں، ترقی، خوشحالی، خو شی، احساسات، کے لیے کسی بھی معاشرے میں سب سے ضروری عنصر تبدیلی کا ہے اگر آپ تبدیلی کے سامنے خود ہی دیوار بن کے کھڑے ہو جائیں گے تو پھر معاشرے میں کیسے تبدیلی آئے گی کسی بھی سماج کی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی محض سوچ و فکر کی تبدیلی ہی سے سماج تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اگر فکر اور سو چ کو تبدیل کر دیا جائے تو سماجی تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے ضرو ری چیز یہ ہے کہ پہلے آپ کو اسی بات کا احسا س ہو جانا چاہیے کہ آپ کی سو چ و فکر غلط ہے اور یہ کہ ساری، خرابیاں اور برائیاں اسی غلط سو چ و فکر کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہ آپ اپنی ناکامی کو بھی تسلیم کر لیں۔ امریکا کے ایک شخص نے 1831میں تجارت شروع کی اس میں وہ ناکام ہو گیا 1832 میں اس نے ملکی سیاست میں حصہ لیا مگر وہاں بھی اس نے شکست کھائی 1834  میں اس نے دوبارہ تجارت شروع کی اس بار بھی وہ اپنی تجارت میں ناکام رہا۔1841 میں اس کے اعصاب جواب دے گئے 1843 میں دوبارہ سیاست میں داخل ہوا۔

اس کو امید تھی کہ اس بار اس کی پارٹی اس کو کانگریس کی ممبری کے لیے نامزد کرے گی، مگر آخری وقت تک اس کی امید پوری نہ ہو سکی اس کا نام پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں نہ آیا۔ 1855 میں اس کو پہلی بار موقع ملا کہ وہ سینیٹ کے لیے کھڑا ہو مگر وہ الیکشن ہار گیا۔ 1858 میں دوبارہ سینیٹ کے الیکشن میں کھڑا ہوا اور پھر شکست کھائی یہ بار بار ناکام ہونے والا شخص ابراہام لنکن تھا جو 1860 میں امریکا کا صدر منتخب ہوا اور اس نے امریکا کی تعمیر و ترقی میں اتنا بڑا کام کیا کہ آج وہ نئے امریکا کامعمار سمجھا جاتا ہے۔

ابراہام لنکن کو امریکہ کی قومی اور سیاسی تاریخ میں اتنا معزز نام کیسے ملا اور وہ اس اونچے مقام تک کس طرح پہنچا۔ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل کے الفا ظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جانتا تھا کہ شکست کو کس طرح تسلیم کیا جائے حقیقت پسندی زندگی کا سب سے بڑا راز ہے اور ہارماننا حقیقت پسندی کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ ہار ماننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں کہ آپ دوسروں سے آگے نہیں ہیں بلکہ دوسروں سے پیچھے ہیں بالفاظ دیگر آپ جہاں فی الواقع ہیں وہیں نظری طور پر اپنے آپ کو کھڑا مان لیں۔

ہار ماننے کے بعدآدمی فوراً اس حیثیت میں ہو جاتا ہے کہ وہ اپنا سفر شروع کر دے کیونکہ سفر ہمیشہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں آپ فی الواقع ہیں نہ کہ وہاں سے جہاں ابھی آپ پہنچے ہی نہیں۔ آئیں ہم سب سے پہلے اپنی شکست تسلیم کر لیں کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہم اپنے آپ کو خوش نہیں رکھ سکے پھر اس کے بعد اپنا سفر ایک نئی توانائی، امنگ کے ساتھ دوبارہ شروع کر دیں کہ آج ہم اگر خو ش رہنے والے ممالک کی فہرست میں117 ویں نمبر پر ہیں تو اگلے چند سالوں میں انشاء اللہ پہلے نمبر پر ہونگے اور ہم ایک بے حس قوم نہیں بلکہ زندہ قوم بن کر دکھائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔