جماعت اسلامی کا عوامی منشور

عارف عزیز  بدھ 4 جون 2014
جماعت ِ اسلامی کے کارکنان سڑکوں پر عوامی مطالبات کے ساتھ۔   فوٹو : فائل

جماعت ِ اسلامی کے کارکنان سڑکوں پر عوامی مطالبات کے ساتھ۔ فوٹو : فائل

کراچی: ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی احتجاجی سرگرمیاں زور پکڑتی جارہی ہیں۔

حکومت مخالف اتحاد ملکی و عوامی مسائل پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں۔ وفاق میں حکم راں جماعت مسلم لیگ ن کے اراکین بھی اپنے مخالفین کو سخت جواب دیتے نظر آرہے ہیں، جس سے سیاسی ماحول خاصا گرم ہو گیا ہے۔

کراچی میں پچھلے چند ماہ سے متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی، تحریکِ انصاف، مذہبی جماعتیں اور مختلف سماجی تنظیمیں بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نظر آرہی ہیں۔ دوسری طرف بدامنی، منہگائی اور بے روزگاری کے علاوہ قلتِ آب، بجلی کی فراہمی میں گھنٹوں تعطل، صحّت، تعلیم، ذرایع آمدورفت کے شعبوں کی زبوں حالی سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم عوام حکومت اور منتخب نمائندوں سے مایوس ہوچکے ہیں، لیکن پچھلے دنوں قومی سیاست میں سرگرم جماعتِ اسلامی کے عوامی منشور نے شہریوں کی توجہ حاصل کرلی۔

اس سلسلے میں شہر کے مختلف علاقوں میں کیمپ قائم کرکے شہر کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرنے اور شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ کراچی ملک کا معاشی حب قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کی تعمیروترقی کے لیے حکومت اعلانات اور دعوؤں سے آگے بڑھتی نظر نہیں آتی۔ شہریوں کے لیے ہر سطح پر سہولیات کا فقدان ہے، جس سے بے شمار مسائل جنم لے رہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کا عوامی منشور اس وقت سامنے آیا ہے، جب ہر طرف فقط سیاسی مطالبات کا شور ہے اور عوام خود کو بے یارومددگا محسوس کر رہے ہیں۔

جماعتِ اسلامی کی قیادت نے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف سے شہر کی تعمیروترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کھرب کے خصوصی پیکیج کی اپیل کی ہے۔ اسے ’’کراچی عوامی چارٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کراچی کے امیرِ جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے جمعرات کے روز ادارۂ نورِ حق میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کراچی کی آواز وفاقی حکومت تک پہنچائی۔ اس موقع پر جماعت کی دیگر قیادت بھی موجود تھی۔ حافظ نعیم الرحمن نے گذشتہ دنوں وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ خصوصی اجلاس میں جماعت اسلامی کی جانب سے پیش کردہ تجاویز اور مطالبات کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ کراچی میں قیام امن اور حالات کی تبدیلی کے لیے غیر جانب دار گورنر کی تقرری ضروری ہے۔ مجرموں اور دہشت گردوں کی گرفتاری، این آر او کے تحت ختم کردہ مقدمات کی از سرنو تحقیقات کروائی جائیں۔ کراچی عوامی چارٹر کی تفصیلات سے متعلق انہوں نے کہا کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر ہے، شفاف عدالتی نظام، اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں، سیکیوریٹی اداروں میں سیاسی بھرتیوں کی روک تھام اور مکمل اسکروٹنی کی جائے، پولیس کی تنظیمِ نو کی جائے۔ معاشی تجاویز میں کراچی کی صنعتوں کی دوسرے صوبوں میں منتقلی روکنے کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان، صنعتوں میں گیس اور بجلی کی مستقل فراہمی، تاجروں کو اغوا اور بھتا خوری سے بچانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔

کراچی میں ٹیکس فری زونز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تعمیرِ کراچی پیکیج کی طرز پر ایک پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ کراچی کے لیے پانچوں کوریڈورز میں میٹرو بس اور سرکلر ریلوے کی بحالی کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے۔ ٹریفک پولیس کی تنظیمِ نو اور رشوت کا خاتمہ کیا جائے۔ کراچی میں دو نئی سرکاری یونی ورسٹیوں، دو نئے میڈیکل کالجز اور آئی ٹی یونی ورسٹی کے ساتھ خواتین یونی ورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس کے ساتھ 50 نئے کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ صحت کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں، ہر ٹاؤن میں سرکاری سطح پر ایمرجینسی ہیلتھ سینٹر، اضلاع میں امراض قلب کے سینٹرز قائم کیے جائیں۔ کم از کم ہزار بستروں پر مشتمل دو نئے اسپتال اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

عوامی چارٹر سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ پانی کی مسلسل فراہمی کے لیے کے فور منصوبہ بروئے کار لایا جائے۔ سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے پلانٹ اور مہنگائی سے نجات کے لیے ایکشن پلان تیار کیا جائے۔ واٹر بورڈ سے سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں کو روکا جائے۔ بجلی کی مسلسل فراہمی اور کے الیکٹرک سے معاہدوں کے مطابق نئے پاور پلانٹس لگائے جائیں۔ عوام سے اوور بلنگ کر کے وصولی کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا عوامی چارٹر شہریوں کے احساسات اور جذبات کا ترجمان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

یہ حقیقت ہے کہ منی پاکستان اور معاشی حب کہلانے والے اس شہر میں ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ تعلیم، صحت، تجارت، کھیل اور ٹرانسپورٹ سمیت تمام شعبے برباد ہو رہے ہیں، لیکن اربابِ اختیار اس سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں یہ صورتِ حال ہے تو چھوٹے شہروں اور دیہات میں زندگی کن مسائل اور مصائب سے دوچار ہو گی، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

جماعتِ اسلامی نے شہر اور شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے اور اسی طرح دیگر جماعتوں کو بھی میدان میں آکر عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پچھلے ہفتے کراچی میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، بلوچ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن(آزاد) اور تاجر اتحاد کے ارکان نے بھی احتجاج کے دوران اپنے مطالبات پیش کیے، جب کہ چند علاقوں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے بھی دیکھے گئے۔

دوسری طرف لندن میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی گرفتاری کی اطلاعات کے بعد کراچی میں ہر طرف افراتفری دیکھی گئی اور کاروبارِ زندگی معطل ہو گیا۔ سڑکوں پر ٹریفک جام اور مختلف علاقوں میں نامعلوم افراد کی طرف سے فائرنگ کے بعد عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مختلف علاقوں میں توڑ پھوڑ اور پبلک ٹرانسپورٹ نذرِ آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔