جرم ضعیفی کی سزا

عابد محمود عزام  بدھ 4 جون 2014

معاملہ صرف ایک مقتولہ فرزانہ اور اس کے قاتل بھائیوں کا نہیں ہے، بلکہ دو طبقات کی طویل داستان ہے، جن میں سے ایک طبقہ طاقتور اور دوسرا ضعیف ہے۔ فرزانہ کا ’’سنگین جرم‘‘ تو یہ تھا کہ اس نے عاقل بالغ ہونے کے ناتے اپنی مرضی سے اپنا نکاح کر لیا تھا، جس کی پاداش میں اس کے خاندان والوں نے اس ’’بے غیرت‘‘ کو’’ غیرت‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا اور اینٹیں مار مار کر اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے سمیت اس کو دوسرے جہاں بھیج کر اپنی ’’عزت‘‘ بچا لی۔

فرزانہ نے اپنی مرضی کو خاندان کی مرضی پر ترجیح دے کر جو ’’جرم‘‘ کیا تھا، بلاشبہ اس کی سزا تو اسے دے دی گئی۔ وہ یہ نہ جانتی تھی کہ وہ جس معاشرے میں جی رہی ہے، وہاں روایات کس قدر مضبوط ہیں، جو بھی خاندانی ثقافت، تہذیب و روایات پر حرف آنے کا باعث بنے اس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے، جو فرزانہ کے ساتھ ہوا۔ جو بھی عورت خاندان کی ناک کٹوائے، اس کی گردن کاٹ دی جاتی ہے۔ ایک بابا جی کہنے لگے کہ اس خاتون ’’فرزانہ‘‘ نے مشرقی ثقافت کو پامال کیا اور اپنے والدین کی عزت کو بٹا لگایا ہے، اگر عورتیں خود ہی اپنی شادیاں کرنے لگیں تو پھر ہم میں اور مغرب میں فرق ہی کیا رہ گیا۔

عرض کیا کہ بالکل بجا کہ اپنی بچیوں کے لیے جو فیصلہ خاندان کے سمجھدار بزرگ کر سکتے ہیں، ناسمجھ لڑکی کا فیصلہ اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا، لیکن اگر کوئی ناسمجھی کر ہی بیٹھے تو کیا اس کی وہ سزا ہے جو فرزانہ کو ملی؟ فرزانہ نے ثقافت کو ہی پامال کیا ہے، شریعت کو تو نہیں روند ڈالا؟ کیا ثقافت شریعت سے بھی بڑھ کر ہے؟ کیا روایات کی قدر و قیمت انسانی جان سے بھی اعلیٰ ہوئی؟ اسلام تو کہتا ہے: ’’انسانی جان کی حرمت بیت اللہ سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘

ہاں! معاشرے میں حیا و پاکدامنی اور اپنی اقدار بھی ضروری ہیں، لیکن وہ یوں تو نافذ نہیں ہوتیں، جس طرح فرزانہ پر نافذ کی گئی، یوں تو کوئی کسی جانور کو بھی نہیں مارتا کہ اینٹیں مار مار بھیجے کے ساتھ جان ہی نکال دے۔ اگر کوئی کھلی بدکاری بھی کرے تو قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہیں، سزا ریاست دے، اگر لوگ فیصلے خود ہی کرنے لگیں تو پھر یہ ملک و ریاست تو نہیں، بلکہ جنگل ہی بن گیا۔ جہاں قانون اس کا ہی چلتا ہے جو طاقتور ہو۔

دنیا بھی شاید جنگل کا روپ دھارنے ہی چلی ہے۔ یہ جو ہر سال ’’غیرت‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر کئی عورتوں کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا جاتا ہے، یہ جنگل ہی تو ہوا۔ پاکستان میں کس قانون کے تحت 2012ء میں 913 اور 2013ء میں 900 سے زاید خواتین کو ’’غیرت‘‘ کی بھینٹ چڑھایا گیا؟ یہ سلسلہ نجانے کب سے رواں ہے۔ بس غیرت محفوظ رہے، ’’جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں‘‘ لیکن اس حقیقت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ قتل تو قتل ہوتا ہے، اس کو غیرت کے ساتھ نتھی کر دینے سے کیا اس کی قباحت کم ہوجاتی ہے، ہر گز نہیں۔

فرزانہ کی بہن کا دعویٰ ہے کہ الزام بھائیوں پر ناحق لگا، قتل تو اقبال نے خود کیا ہے۔ جو بھی ہو سزا تو ضعیف فرزانہ کو ہی ملی۔ قتل بھائیوں نے کیا یا شوہر نے، قتل تو فرزانہ ہی ہوئی ہے، وہ عورت زاد ہے، کمزور ہے، ضعیف ہے اور یہی اس کا جرم ہے۔ عورت تو معاشرے میں ’’غیرت مندوں‘‘ کی جاگیر ہے۔ یہ روایت ہے، جو برس ہا برس سے چلی آ رہی ہے۔ برادریوں کو اس روایت پر فخر ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ضعیف عورت پر اپنی طاقت و جبر کے اظہار کے لیے کسی ’’غیرت‘‘ کا واسطہ ہی ڈھونڈنا پڑے، بلکہ اس ناتواں پر جبر تو بغیر کسی بہانے کے بھی ہو سکتا ہے۔

مرد طاقتور جو ہے، عورت اس کے ماتحت ہے، کمزور ہے۔ طاقتور اپنے ہر حکم کی بجا آوری چاہتا ہے، ہر حال میں اپنی سوچ کی تکمیل چاہتا ہے۔ کمزور کی جان بھی اس کی راہ میں چیونٹی سے ارزاں۔ کیا فرزانہ کے شوہر اقبال کو اپنی سابقہ بیوی عائشہ کو قتل کرنے کے لیے کسی ’’غیرت‘‘ کا سہارا لینا پڑا؟ بالکل نہیں۔ اس نے تو اپنی سابقہ بیوی عائشہ کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ وہ اس سے پیچھا چھڑا کر فرزانہ سے بیاہ رچانا چاہتا تھا۔ اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا تھا، عورت زاد اس کی خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ کیسے بن جائے۔ اس کی کیا مجال۔ عورت کے نشانہ بننے کی لیے تو کسی بڑی وجہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

بس مرد کے ذہن میں یہ خیال آیا چاہیے کہ عورت میری رٹ کو چیلنچ کر رہی ہے۔ پھر تو عورت کی سزا کے لیے سالن میں نمک زیادہ ڈالنا ، گھر میں چھوٹی موٹی لڑائی اور ناچاقی ہو جانا ، بچے کی بجائے بچی کی پیدائش ہو جانا اور شوہر کی دوسری شادی پر ناراضی کا اظہار ہی کافی ہے۔ پھر کبھی بیوی کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی بیوی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی گلا دبا کر مار دیا جاتا ہے اور کبھی لوہے کے راڈ سے اس کا سر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ جرم صرف ضعیف و کمزور ہونا ہی ہے۔

کسی دانا کا کہنا ہے کہ ’’اگر کسی معاشرے کا تجزیہ کرنا مقصود ہو تو اس معاشرے میں عورت کی سماجی حیثیت دیکھ لو۔‘‘ ہمارے معاشرے میں روز عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات چیخ چیخ کر ہمارے معاشرے کا خوفناک تجزیہ خود ہی پیش کر رہے ہیں۔ روز ملک میں خواتین کے ساتھ بھیانک کھیل کھیلا جاتا ہے، آئے روز خواتین کی عصمت دری کے واقعات ’’غیرت ‘‘ والے معاشرے کا نقاب نوچ رہے ہیں۔

ابھی زیادہ مہینے نہیں گزرے کہ پنجاب کے علاقے چنیوٹ میں مسلح افراد نے ایک بے کس و مجبور نوجوان لڑکی کو اس کے گھر سے اٹھایا اور چار افراد اپنی حویلی کے باہر درخت سے باندھ کراس کی عزت سے کھیلتے رہے۔ معاشرے میں کمزور خواتین کے ساتھ اس قسم واقعات کون سی ’’غیرت‘‘ کا پیغام دے رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ سب جرم ضعیفی کی ہی سزا ہے۔ معاشرے میں عورت کے استحصال کی کہانی پرانی ہے، جو زمانے کے ساتھ مزید تلخ ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف 2013ء کے دوران ملک بھر میں 56 خواتین کو بیٹی پیدا ہونے کے جرم میں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ حالانکہ آفاقی حقیقت یہ ہے کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی سمیت ہر روپ میں عورت انتہائی عزت و احترام کی مستحق ہے اور اسلام نے نہ صرف عورت کو انسانی معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا، بلکہ اسے وہ حقوق بھی عطا کیے، جن کا اس سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ ہم ان حقوق کا زبانی تذکرہ تو بہت کرتے ہیں، لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں، آفاقی قوانین کی راہ میں ہماری ثقافت آڑے آجاتی ہے۔ ان حالات میں ’’علامہ اقبال‘‘ کا یہ شعر ہی پڑھا جا سکتا ہے ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔