سوچ کا دھارا

رئیس فاطمہ  بدھ 4 جون 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ایک سنجیدہ ادبی محفل میں شریک سامعین میں سے کسی نے شکوہ کیا کہ جس وقت برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یونیورسٹیاں بن رہی تھیں۔ اسی سال آگرہ میں تاج محل بن رہا تھا۔ جو ایک ملکہ کا مقبرہ ہے۔ پھر انھوں نے نہایت زور و شور سے برصغیر کے حکمرانوں خصوصاً مغل بادشاہوں کی مذمت کی کہ انھوں نے تعلیم اور صحت کی طرف توجہ نہیں دی۔ بلکہ اپنے سیرو شکار اور عیش پرستی میں غرق رہے۔ نتیجہ یہ کہ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور انگریز قابض ہوگئے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان بادشاہوں نے تعلیم اور صحت کی طرف اتنی توجہ کیوں نہیں دی، جتنی کہ دینی چاہیے تھی۔ اسی لیے آج جب دوسری قومیں کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہیں ہم ایک پس ماندہ قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔تب میں نے کہا کہ آپ شاہ جہاں اور تاج محل کی بات کرتے ہیں کہ انھوں نے مقبرے بنوائے، اسپتال، اسکول، کالج اور یونیورسٹی نہیں۔ لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ آج کا مورخ مستقبل میں ہمیں کس نام سے یاد کرے گا۔ پولیو زدہ معذور نسل پیدا کرنے والی جاہل قوم جو بدقسمتی سے خود کو مسلمان کہلوانا جانتی ہے اور بس۔ مغل بادشاہوں اور سلاطین دہلی نے برصغیر میں اتنا کچھ بنادیا کہ آج سیاحت کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان ہی قلعوں اور مقبروں کا مرہون منت ہے۔

گزرے زمانے کے لیڈر، سیاست دان اور بادشاہوں نے ایسے ایسے شاہکار تخلیق کیے کہ زمانہ حیران ہے۔ لیکن آج پاکستان آتش فشاں کے جس دہانے پہ کھڑا ہے اس کی حدت اور شدت کا اندازہ تمام روشن خیال لوگوں کو ہے۔ ماضی کی تاریخ میں سرسید احمد خان جیسے مصلح قوم موجود تھے۔ جنھیں جدید تعلیم کی اہمیت کا ادراک ہوگیا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو آج بھی مسلمانوں کے نصیب میں چپراسیوں اور کلرکوں کی نوکریاں ہی لکھی ہوتیں۔ذرا آج کے منظرنامے پہ غور کیجیے۔ دنیا کی تمام مہذب اور تعلیم یافتہ قومیں امن کی خواہش مند ہیں۔ بل گیٹس نے جو دولت کمائی اس کا آدھا حصہ پولیو کے خاتمے اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیا۔ یاد رہے یہ دولت بلاامتیاز مذہب و ملت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بل گیٹس بھی مذہباً یہودی ہے۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نوبل انعام پانے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بھی یہودیوں ہی کی ہے۔ انسانیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کیونکہ انسانیت احترام آدمیت سکھاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ زندگی کا مطلب دوسروں کے کام آنا ہے۔لیکن ہمیں اس سے کیا کہ ایک مخصوص گروہ باوجود تعداد میں کم ہونے کے، صرف ہتھیاروں کے بل بوتے پر پوری سوسائٹی کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ مقبروں اور محلات کی تعمیر کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ذرا یہ تو بتائیں کہ آج دنیا بھر میں پاکستان کی تصویر کس انداز میں دکھائی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں بچے کو اسکول جانے کی پاداش میں سگا باپ مار مار کر ادھ موا کردیتا ہے کہ جہالت ان کا ورثہ ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے اندر فرزانہ پروین کو پتھر مار کر ہلاک کردیا کہ جرم اس کا صرف پسند کی شادی تھی کہ ہم دوبارہ پتھروں کے دور میں واپس جانے کے لیے تیار ہیں۔ کوئی ایک تو مثبت سوچ رکھنے والا رویہ موجود ہو کہ اسے ’’نظر بٹو‘‘ کے طور پر ماتھے پہ سجالیں۔غیرت کے نام پر اپنی ہی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو سنگسار کرنے والوں کی غیرت اس وقت کہاں سوئی ہوتی ہے۔ جب ان کے بیٹے معصوم لڑکیوں اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کی آبروریزی کرتے ہیں  اور کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ عورتوں کو سربازار رسوا کرتے ہیں اور معزز ٹھہرتے ہیں کہ یہ ابن آدم کسی سردار یا طاقت ور سیاست دان کے فرزند ہیں۔ اسی لیے انھیں عورتوں پر تیزاب پھینکنے، ان سے زبردستی نکاح کرنے، انھیں خریدنے کی پوری آزادی اور سرپرستی حاصل ہے۔ شاید اس لیے کہ غیرت اور عزت صرف بنت حوا سے وابستہ ہے۔

مردوں کے سماج میں غیرت کا ٹھیکہ بھی ان ہی جاہل اور اجڈ مردوں کے پاس ہے  جو جب چاہیں اس ٹھیکے کو نیلام کردیں اور اسی غیرت کی ٹھیکے داری کرتے کرتے انھیں یہ حقوق بھی حاصل ہوگئے کہ جب چاہیں غیرت کے نام پر قتل کردیں اور جب چاہیں کتوں کے آگے زندہ عورتوں کو ڈال دیں اور جب غیرت زیادہ جوش میں آئے تو انھیں زندہ دفن کردیں۔ اور پھر ٹیلی ویژن اسکرین پہ بیٹھ کے فرمان جاری کریں کہ یہ سب گھناؤنی حرکات ان کی روایت کا حصہ ہیں ۔وہ دین دار پرہیز گار حضرات جو قرآن و سنت کے ذکر کے بغیر بات نہیں کرتے کیا وہ اس بات کا جواب دیں گے کہ ایسی وحشیانہ حرکتوں کا اسلام سے کیا تعلق بنتا ہے۔

افسوس کہ جنھیں قرآنی تعلیمات کا حقیقی ادراک نہیں، وہ مبلغ بنے بیٹھے ہیں۔ایک بار پھر اپنے موضوع کی طرف لوٹتی ہوں کہ آنے والے وقتوں میں پاکستانی قوم کو کن القابات سے نوازا جائے گا اور مورخ ان کے بارے میں کیا کہے گا۔ شاید کچھ اس طرح۔جعلی دواؤں کا کاروبار کرنے والے، عورتوں کو سنگسار کرنے والے، نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے، معصوم لڑکوں سے بدفعلی کرنے والے، دودھ دہی میں ملاوٹ کرنے والے، ایکسپائری ڈیٹ کی اشیا بیچنے والے، لیکن اسلام اسلام کا نعرہ صرف زبانی کلامی بلند کرنے والے۔ یہ تھے پاکستانی۔

دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے، پوری دنیا امن کی خواں ہے۔ لیکن ایک گروہ ایٹم بم کو چلا کر پڑوسی کو بھسم کردینا چاہتا ہے۔ یہ احمق نہیں جانتے کہ اگر ایک ملک ایٹم بم چلائے گا تو دوسرا خاموش نہیں بیٹھے گا، پھر کیا ہوگا؟ برصغیر پاک و ہند کا نام و نشان نہ رہے گا۔ صرف راکھ کا ڈھیر بچے گا۔ اور اس راکھ کے ڈھیر کو دیکھنے کے لیے وہ بھی زندہ نہ بچیں گے جو آج بڑھ چڑھ کر جنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ بار بار نواز شریف کو یاد دلا رہے ہیں کہ انھوں نے مودی کے بلاوے پر بھارت جاکر غلطی کی ہے اور یہ بھی کہ انھوں نے وزیر اعظم کو منع کیا تھا کہ بھارت نہ جائیں۔ واہ کیوں نہ جائیں ۔ وزیر اعظم کو ان غیر ریاستی عناصر کی اجازت لینے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام کے یہ مبلغ کبھی غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کی بھی گردن پکڑیں ۔ مگر ان کو حکمران جماعت کی گردن پکڑنے سے فرصت ملے تو کسی اور کی طرف بھی دیکھیں ۔ لیکن یہ وہیں نگاہ مرکوز رکھیں گے جہاں فائدے اور منافعے کی امید ہے ۔ بھلا فرزانہ جیسی معصوم عورتوں کا مقدمہ لڑنے سے انھیں کیا ملنے والا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔