کاش میں ایک درخت ہوتا

اقبال خورشید  بدھ 4 جون 2014

اگر میں ایک درخت ہوتا؛

زمین میں میری جڑیں ہوتیں۔ میرے بازو ہرے بھرے ہوتے۔ میں اوروں کو چھائوں دیتا۔ پنچھی میری ٹہنیوں پر گھونسلا بناتے۔ وہ گیت گاتے، تو میں گنگناتا۔ بچے میری شاخوں پر رسی ڈال کر جھولا جھولتے۔ وہ ہنستے، اور میں مسکراتا۔ اور جب بارش ہوتی، میں کھل اٹھتا۔ ہوا کے دوش پر لہراتا۔ رقص کرتا۔ میرا انگ انگ جی اٹھتا۔ نہ تو چلچلاتی دھوپ مجھے ستاتی، نہ ہی حبس طبیعت پر گراں گزرتا۔ ہنستے گاتے میں موسموں کی تلخیاں برداشت کرتا۔ ہاں میں خوش ہوتا!

تو اگر میں ایک درخت ہوتا، تھکے ہارے مسافر میری چھائوں میں آرام کرتے۔ محبت کرنیوالے میرے تنے پر کَندہ اپنے نام کرتے۔ مجھ پر پھل لگتے، جن کی مٹھاس خوشی سے لبریز ہوتی۔ مجھ پر پھول آتے، تو چار سو رنگ بکھر جاتے۔ میری محبت سب کے لیے یکساں ہوتی۔ مرد ہو یا عورت، بادشاہ ہو یا فقیر، رنگ چاہے کیسا ہو، عقیدہ چاہے کوئی ہو؛ سب کے لیے میری چھائوں ایک سی ہوتی۔ نرم اور پُرسکون۔ امیر اور غریب، دونوں کے لیے میرے پھلوں کی چاشنی ایک سی رہتی۔ سب میرے لیے برابر ہوتے۔

ہاں، اگر میں ایک درخت ہوتا؛ مجھے زمین کی خواہش نہیں ہوتی۔ میں جہاں ہوتا، وہیں خود کو مطمئن اور مسرور پاتا۔ میں کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں۔ کسی کا حق نہیں مارتا۔ کسی کے وسائل پر قبضہ نہیں کرتا۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کر لیتا۔ میں کسی کو گزند نہیں پہنچاتا۔ کسی کا دل نہیں دُکھاتا۔ کسی کو قتل نہیں کرتا۔ مجھے اپنے ہمسائے کے سیاسی نظریات سے غرض نہیں ہوتی۔ میں اُس کی لسانی شناخت سے بے پروا ہوتا۔ میں اُس کے مذہبی عقاید میں نہیں الجھتا۔ ہاں، اگر میں ایک درخت ہوتا، تو اپنی چھوٹی سی کائنات میں خوش رہتا۔ تعصب نہیں برتتا۔ سب سے یکساں سلوک کرتا۔ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔

شومئی قسمت؛ میں درخت نہیں ہوں۔ مگر خوش نصیب ہوں کہ انسان ہوں۔ اشرف المخلوقات۔ زمین پر خدا کا خلیفہ۔ سب سے افضل۔ سب سے برتر۔ مگر نہ جانے کیا سبب ہے، خوشی مجھ سے روٹھ گئی ہے۔ بے جڑی کا کرب مجھے ستاتا ہے۔ نہ تو میں گیت گاتا ہوں، نہ ہی گنگناتا ہوں۔ ہنسنے مسکرانے کے فن سے یک سر لاعلم۔ اور جب بارش ہوتی ہے، میں گھبرا جاتا ہوں۔ چلچلاتی دھوپ مجھے ستاتی ہے۔ حبس یاسیت طاری کر دیتا ہے۔ ہاں، میں قنوطی ہو!

تو میں انسان ہوں۔ گلی سے گزرتے تھکے ہارے مسافروں کی مجھے پروا نہیں۔ بس، اپنے آرام سے غرض ہے۔ اپنے باغات کے پھل اوروں میں نہیں بانٹتا۔ اپنے آنگن میں کھلنے والے پھولوں کی خوش بو پر پہرہ لگا دیتا ہوں۔ میری محبت فقط میری ذات کے لیے ہے۔  ہاں، میں شاہ پرست ہوں۔ فقیروں سے میرا کوئی ناتا نہیں۔ بجائے علم کے اثر و رسوخ کی بنیاد پر آدمی کی حیثیت کا تعین کرتا ہوں۔ جنس کوئی ہو، رنگت کیسی ہی ہو، صرف اُسے چنتا ہوں، جس سے میرا مفاد وابستہ ہو۔ نہیں، میں درخت نہیں۔ اور زمین کی آرزو مجھے بے کل رکھتی ہے۔ اِس کے لیے لڑتا جھگڑتا ہوں۔ اپنے حق کے لیے دوسروں کا حق مارنا میرے نزدیک جائز ہے۔

ضرورت پیش آئے، تو فقط دل نہیں دُکھاتا، دل لگا بھی لیتا ہیں۔ صرف اپنے عقاید کو جائز خیال کرتا ہوں، دوسرے جائیں جہنم میں۔ ملاقاتی کی لسانی شناخت، شناخت کرنے کے بعد معاملہ کرتا ہوں۔ ہمسائے کے سیاسی نظریات کی ٹوہ میں رہتا ہوں، تاکہ وقت پڑنے پر مخبری کر سکوں۔تو میں انسان ہوں، حکمران ہوں؛ الیکشن کے سمے جو وعدے کرتا ہوں، اُنھیں مسند سنبھالتے ہی بھول جاتا ہوں۔ عہدے باٹنے سے قبل، قابلیت نہیں قبیلہ دیکھتا ہوں۔ ترجیح اپنے بہو بیٹوں کو دیتا ہوں۔ ملک میں کم، بیرون ملک زیادہ وقت گزارتا ہو۔ الیکشن جیت جائوں، تو جشن مناتا ہوں۔ اور ہار جائوں، تو دھاندلی کا راگ الاپنے لگتا ہوں۔ خود کو جمہوریت پسند کہتا ہوں، مگر اُس کی بساط لپیٹنے کے لیے ’’گرینڈ الائنس‘‘ بنتا ہوں۔

کل جنھیں معطون ٹھہرایا تھا، آج اُن سے ہاتھ ملاتا ہوں۔ کیمرے کے آگے مسکراتا ہوں۔ شرم کو پاس پھٹکنے نہیں دیتا۔تو میں انسان ہوں، ایک سیاست دان ہوں؛ جب اپوزیشن میں ہوتا ہوں، تو ایک برس میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ داغ دیتا ہوں، اور جونہی اقتدار میں آیا، نظمیں غزلیں سب بھول جاتا ہوں۔ جسے سڑکوں پر گھسیٹنے کا ارادہ کیا تھا، اُسی کے ساتھ بیٹھ کر مسکراتا ہوں۔ جب کوئی پوچھتا ہے؛ اجی حضرت، ڈالر کی قدر کم ہونے کے باوجود استعفیٰ کیوں نہیں دیتے، تو میں اُنھیں تازہ تازہ پیش گوئیاں سنتا ہوں۔تو میں ایک دانش وَر ہوں؛ اور اپنا قلم فروخت کر چکا ہوں۔ جہل کا بیوپار کرتا ہوں۔ کھوکھلے نظریات بیچ رہا ہوں۔ جذباتیت کا ناسور پھیلا رہا ہوں۔ اور میں ایک عالم ہوں۔ اور فروغ علم کو فضول گردانتا ہوں۔

بھائیو، مطالعہ وقت کا زیاں۔ خرد کی راہ گمراہی۔ سائنس، فلسفے اور منطق کا نام سنتے ہی ناک بھوں چڑھاتا ہوں۔ جو صاحبِ منصب کہتا ہے، چپ چاپ کرتا جاتا ہوں۔میں قانون کا محافظ ہوں، مگر قانون کو اپنی حفاظت کے استعمال کرتا ہوں۔ رشوت زندگی کی جزو لاینفک۔ بدعنوانی میرے جسم کا اٹوٹ انگ۔ قانون اندھا ہوتا ہے، اِسی باعث جرائم کے سمے آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ چاہے آپ اینٹ استعمال کریں، یا بندوق؛ مجھے غرض نہیں۔ میں استاد ہوں، مگر کلاس نہیں لیتا۔ سارا وقت کوچنگ سینٹر میں بیتاتا ہوں۔ صحافی ہوں، مگر خبر سے زیادہ مجھے اپنی خواہش کی پڑی ہے۔ میں انجینئر ہوں، مگر زیر تعمیر پل میں کم، اپنی زیر تعمیر کوٹھی میں مجھے زیادہ دل چسپی ہے۔ ڈاکٹر ہوں، مگر اسپتال سے زیادہ وقت کلینک میں گزارتا ہوں۔

ادیب ہوں، مگر تخلیقی سے زیادہ تشکیلی سرگرمیوں میں مصروف۔ گروہ بندیوں میں جٹا۔ پیسے دے کر اپنے انٹرویوز چھپواتا ہوں۔ اپنے ہر گیت، ہر افسانے کو شاہ کار ٹھہراتا ہوں۔ میں مدیر بھی ہوں، ناشر بھی؛ سمجھ لیجیے، پورا مافیا ہوں۔تو میں مرد ہوں؛ اور عورت کو پیر کی جوتی سمجھتا ہوں۔ اُسے خادمہ خیال کرتا ہوں۔ ناقص العقل ٹھہراتا ہوں۔ اُس پر تشدد کرتا ہوں۔ ضرورت پیش آئے، تو چہرے پر تیزاب پھینکنے سے دریغ نہیں کرتا۔ معاملہ گمبھیر ہو، تو آنکھ، ناک، کان کاٹ ڈالتا ہوں۔ تو میں مرد ہوں؛ عورت کے الفاظ، اُس کے جذبات کی نہیں، فقط اپنی تسکین کی پروا کرتا ہوں۔ اُسے تعلیم سے دُور رکھتا ہوں۔

پسند کی شادی نہیں کرنے دیتا۔ ہاں، مقدس کتاب سے اس کی شادی کر دیتا ہوں۔ جب اُس کے قتل کی خبر سنتا ہوں، تو کاندھے اُچکا کر آگے بڑھ جاتا ہوں۔ زندہ درگور کرنے کے واقعے کو اپنی ثقافت ٹھہراتا ہوں۔ جب پتا چلتا ہے کہ اُس کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی ہے، تو قصورواروں سے زیادہ اُسے قصوروار ٹھہراتا ہوں۔ اُسے فحاشی اور بے حیائی کا منبع خیال کرتا ہوں۔ فتنہ قرار دیتا ہوں۔ اور۔۔۔میں اِس کھوکھلے معاشرے کا ایک بدنصیب مرد ہوں۔ اور اپنے ہم جنسوں کے وحشت ناک جرائم پر، اُن کی مجرمانہ خاموشی پر شرمندہ ہوں۔ اور ظلم کو بڑھاوا دیتے پدرسری سماج کے زوال کے لیے دعا گو ہوں۔ ہاں، میں اِس بدحال معاشرے کا ایک فرد ہوں۔

کاش میں فقط ایک درخت ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔